نوعمری میں جہادی کیمپ میں جانے کے بعد مجھ پر کیا گزری


غالباً 1998 کی بات ہے میں دسویں کا امتحان دے کر فارغ تھا۔ سکول کے ٹیچر 3 ماہ قبل سے مجھے جہادی ٹریننگ کے حصول کی طرف مائل کر رہے تھے۔ ہر دوسری بات جہاد کی ٹریننگ کے فوائد و فضائل کی بابت فرماتے۔ کلاس میں شاید عقلاً اور شکلاً احمق لگنے کے باعث واحد طالب علم ان کی ہدف لسٹ میں، میں ہی تھا۔ جانتا تھا گھر سے اور بالخصوص والد صاحب سے اجازت ملنا تقریباً ناممکن بات تھی۔ استاد محترم سے اس بارے عرض کی تو انھوں نے فرمایا جہاد فرض ہے اور اس کے لئے والدین کی اجازت کی قطعاً ضرورت نہیں اس سلسلے میں انھوں نے کچھ قرآنی آیات اور احادیث بھی بطور دلیل سنائیں۔

اس میٹنگ کے آخر میں میرا گھر سے چوری چھپے بھاگنا طے پایا۔ اخراجات کے لئے استاد محترم نے مجھے ”پولیٹرن سی“ کے دو ڈبے گھر سے چوری کر کے لانے کی اجازت بھی مرحمت فرما دی۔ دوسرے دن میں گھر سے سفری بیگ میں مذکورہ بالا سپرے کے دو ڈبے ڈالے فرار ہو کر استاد محترم کے پاس پہنچ گیا جنہوں نے مجھے ایک ہسپتال کے خفیہ تہہ خانے میں جا چھپایا اور سپرے کے ڈبے برائے فروخت مجھ سے لے لئے۔ دوپہر کو پرتکلف کھانا کھلایا گیا اور شام کو استاد جی کے ساتھ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور دو تین حلیہ باز مجاہدین مجھے مبارک باد دے کر روانہ کرنے آ گئے انہوں نے مجھے خوب سراہا اور بھرپور تحسین کی۔

پہلا موقع تھا کہ میں خود کو اس قدر اہم محسوس کر رہا تھا گویا دیوتا کے فرہاد علی تیمور جیسا یا شاید نسیم حجازی کے جملہ ناولوں کے مجاہد ہیرو کی طرح۔ خیر جناب کچھ معقول پیسے، پھل میرے حوالے کر کے مجھے بس میں بٹھا دیا گیا اگلی منزل کا ایڈریس پہلے ہی لکھ کر میرے حوالے کر دیا جا چکا تھا ہدایات کو یاد رکھنے کا کہہ کر مجھے انتہائی گرمجوشی سے الوداع کیا گیا۔ اگلے دن مطلوبہ شہر میں رکشے میں بیٹھ کر مطلوبہ ایڈریس پر جا پہنچا۔

حوالہ جاتی خط ان کے حوالے کیا تو وہاں بھی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ یقین مانیے وی وی آئی پی پروٹوکول سے نوازا گیا۔ یوں لگ رہا تھا گویا میں ہی وہ مرد مجاہد ثابت ہونے والا ہوں جو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر جہاد کا پرچم سر بلند کرے گا۔ ایسا مجھے ان کی باتوں سے لگ رہا تھا یہاں بھی انتہائی پرتکلف کھانا کھایا۔ ظہر، عصر اور مغرب کی نماز ادا کی۔ شام تک میرے جیسے مستقبل کے 15 / 20 مزید مجاہد عظام ملک بھر سے آ کر اکٹھے ہو گئے تو قافلہ بن گیا۔

دو کمانڈرز کی نگرانی میں ہم ایک بس میں سوار ہو کر اگلی منزل کی طرف چل پڑے۔ ایڈونچر، جہاد، ٹھائیں ٹھائیں، عمران سیریز کا علی عمران، غوری و غزنوی الغرض کیا کیا ہمارے ذہن و دل میں چل رہا تھا۔ دنیا حقیر نظر آ رہی تھی۔ لگتا تھا جیسے تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے مستقبل کا مجاہد اعظم مقدس مشن کی ٹریننگ کے لئے سپرے کے دو ڈبے چوری کر کے، بیچ کر نکل کھڑا ہوا تھا۔ اگلی صبح ہم ایک چھوٹے سے پہاڑی شہر میں جا اترے۔ یہاں جا بجا بیسیوں مختلف جہادی تنظیموں کے دفاتر موجود تھے جن پر مختلف رنگوں کے پرچم لگے ہوئے تھے دیواروں پر ہر طرف جہادی نعرے درج تھے یہ دفاتر ایک طرف سے تو مجاہدین کے بھرتی سینٹر تھے ساتھ ہی ملک بھر سے آنے والے ریکروٹ یہاں آ کر جمع ہوتے تھے اور آگے مختلف ٹریننگ سینٹرز کی طرف روانہ کیے جاتے تھے۔

وہاں مجاہدین کے سنگل کیبن ڈالے موجود تھے ہم ان پر سوار ہوئے اور سفر اب ویران کچے پکے، اونچے نیچے راستوں پر شروع ہو گیا۔ ہمارے لئے اب باقاعدہ ایڈونچر کا آغاز ہو گیا اور اب ہم خود کو مزید ہیرو سمجھنا شروع ہو گئے تھے۔ تقریباً 15 کلومیٹر سفر کے بعد ہم اترے اور اب پیدل چڑھائی کا سفر شروع ہو گیا۔ ھم تھک چکے تھے مگر چلتے رہے سر سبز پہاڑ تھے۔ طویل قامت درخت ہم نے اب تک فقط فلموں میں دیکھے تھے۔ دلچسپ نظارے تھے رستے میں پہلی بار ہم نے چشمے کا پانی بذریعہ چلو پیا۔

ہمارا جوش و جذبہ آسمان کو چھوا چاہتا تھا۔ چلتے چلتے، چلتے چلتے بالآخر ہم ٹریننگ کیمپ میں پہنچ گئے جہاں سب دھاری دار عسکری وردیوں میں ملبوس جوان پھر رہے تھے بعض کے کندھوں پر کلاشنکوفیں اور چند ایک کے کندھوں پر راکٹ لانچر تھے۔ انہوں نے ہماری بھرپور تلاشی لی اور ہم کیمپ میں داخل ہو گئے۔ سر سبز پہاڑ کے اوپر تقریباً 300 مربع میٹر کے علاقے میں مختلف جگہوں پر بیسیوں خیمے لگے ہوئے تھے۔ ھم بہت تھک چکے تھے۔

ایک پلاٹ میں ہمیں بٹھایا گیا ہم نے پانی پیا کچھ دیر بعد ہمیں مطبخ ( کچن ) کے پاس دوسرے پلاٹ میں لا بٹھایا گیا دن کے تقریباً بارہ بج رہے تھے۔ بڑی بڑی پراتوں میں ابلے ہوئے چاول اور ان کے اوپر پانی جیسا پتلا لوبیے کا شوربا ڈالا ہوا تھا۔ فی پرات چار بندے کھانے والے تھے اور کھانا بھی ہاتھوں سے تھا۔ اوپر کمانڈر صاحب نے ہم ایسوں کو جھجکتے دیکھ کر لیکچر دینا شروع کیا کہ مجاہدین کرام! مجاہدین ایسے ہی سخت حالات سے گزرتے ہیں لہٰذا اب آپ کو ایک ماہ ایسے ہی کھانا ملے گا اور یہاں کوئی نخرہ نہیں چلے گا بسم اللہ کریں۔

اور ہم نے بسم اللہ کر دی جیسے ہی ہم چاول کا لقمہ اٹھاتے شوربہ ہمارے ہاتھوں سے بہہ کر واپس تھال میں ٹپک جاتا اپنی تو خیر تھی مگر ہمارے ہم نوالہ تھال کے اوپر جھک کر بھی کھا رہے تھے نتیجتاً ان کے منہ سے بھی شوربہ اور چاول تھال میں ٹپک رہے تھے سخت کراہت محسوس ہو رہی تھی طوعاً و کرہاً بساط بھر اپنی سمت سے چاول کھائے اور شکر الحمدللہ پڑھ لیا۔ بعد کے دنوں میں یقین مانیے ہمیں کبھی کراہت محسوس نہیں ہوئی اور ہم وحشیوں کی طرح باقاعدہ شڑاپ شڑوپ کی آوازیں نکال نکال کر کھاتے رہے۔

ھم نے وہاں گرنیڈ بھی کھائے آلوٴوں کو وہاں گرنیڈ کہا جاتا تھا کہ آج گرنیڈ پکے ہیں اور ہینڈ گرنیڈ کو آلو کہا جاتا کہ آج آلو کی کلاس اور پریکٹیکل ہے۔ ہمیں وردی ایشو کر دی گئی جسے پہننے کے بعد ہم نے خود کو سلویسٹر سٹالون سمجھنے میں حق بجانب قرار دیا۔ معمولات صبح ساڑھے تین بجے ہمیں بیدار کر دیا جاتا تہجد پڑھائی جاتی مسنون دعائیں اور کلمے یاد کرائے جاتے ناظرہ قرآن پڑھایا جاتا۔ صبح کی نماز کے بعد 6 / 7 کلومیٹر دوڑ اور اس کے بعد 45 منٹ سخت ورزش کرائی جاتی آدھا گھنٹہ ناشتے کا وقفہ جو عموماً خشک روٹی، خشک دودھ کی چائے پر مشتمل ہوتا اس کے بعد ہماری ویپن کلاس شروع ہو جاتی جس میں ہمیں مختلف اقسام کے اسلحہ کی بابت تھیوری پڑھائی جاتی جن میں کلاشنکوف، جی تھری، ایم پی 5، پیکا، M 16، مشین گنز، اینٹی ائر کرافٹ 12.5 ایم ایم، راکٹ لانچر RPG 7، ہینڈ گرنیڈ، بارودی سرنگیں، اور بہت سے دیگر اسلحہ جات شامل ہیں ساتھ ہی دیگر جنگی مضامین جن میں گھات، گوریلا جنگ، کیمو فلاج، میڈیکل فرسٹ ایڈ، پروپیگنڈا کی اقسام وغیرہ کے ساتھ ساتھ جہادی مضامین بھی پڑھائے جاتے۔

12 بجے سے 1 بجے تک کھانے کا وقفہ پھر ظہر کی نماز کے بعد نصف گھنٹہ ریسٹ دیا جاتا۔ اڑھائی بجے۔ پریکٹیکل۔ شروع ہو جاتی جس میں اس دن پڑھے ہوئے ہتھیار کو کھولنے جوڑنے کا طریقہ اور اس کا فائر کروایا جاتا۔ ہفتے میں دو بار ہمیں رات کو واقعی سلویسٹر سٹالون کی سینسرڈ فلم کے مخصوص جنگی کارروائی پر مبنی حصے دکھائے جاتے۔ اس دوران نماز عصر بھی ادا کی جاتی نماز مغرب کا وقفہ ہو جاتا مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں ہی بیٹھ کر دعائیں سنی جاتیں عشا کی نماز کے بعد کھانا اور اس کے بعد بتیاں بند۔

سب اپنے اپنے خیموں میں سلیپنگ بیگز میں گھس جاتے۔ سب کو رات کو ایک ایک گھنٹہ پہرا دینا ہوتا تھا دس بجے سوتے، بارہ بجے سے ایک بجے تک سنتری بن کر پہرہ، دوبارہ سوئے تو ساڑھے تین بجے تہجد کی نماز کے لئے اٹھا دیے جاتے نیند پوری ہو ہی نہیں سکتی تھی لہٰذا دوران کلاس اونگھتے اور سزا پاتے رہتے تھے چون و چرا کی ہر گز گنجائش نہیں تھی۔ یہاں آئے ہوئے ہفتہ ہی ہوا تھا کہ کیمپ میں اعلان ہوا کہ کمانڈو سپیشل ٹاسک فورس کی تین ماہ کی ٹریننگ شروع ہو رہی ہے اگر کوئی کرنا چاہے تو انٹری ٹیسٹ دے کر شامل ہو سکتا ہے۔

ھم نے آوٴ اور تاوٴ دیکھے بغیر اپنا نام لکھوا دیا۔ مجھے سلویسٹر سٹالون سے بھی بڑا کمانڈو بننا تھا جس نے افغانستان میں روسیوں کو مار مار کر دنبہ بنا دیا تھا۔ مجھ سے انٹرویو لیا گیا کہ۔ میں کیوں سپیشل ٹریننگ کرنا چاہتا ہوں؟ کیا ٹریننگ کے دوران میں واپس تو نہیں بھاگ جاوٴں گا؟ گھر کی یاد تو نہیں آئے گی؟ کیا میں ”جنگ جہاد“ میں شرکت کروں گا؟ امیر صاحب میرا جواب سن کر بار بار کہتے نہیں یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے اور میں مزید جوش سے ان کی منتیں، ترلے اور یقین دہانیاں کراتا۔

بالآخر مجھے سپیشل ٹاسک فورس کی سہ ماہی ٹریننگ میں شامل کر لیا گیا سب نے اب اپنی اصلی شناخت کی بجائے کوڈ نام اختیار کر لئے۔ ابو مرصد، ابو قعقاع، ابو ہنظلہ، ابو نصر وغیرہ۔ میں نے اپنے لئے جنگ باز خان نام اپنا لیا تو اس پر دو تین کمانڈرز نے اعتراض کیا کہ کوئی خالص اسلامی نام رکھو اور بدلنے کا حکم دیا مگر میں نے تھوڑی اڑی دکھائی اور تب تک میں احباب میں کافی معروف بھی ہو چکا تھا لہٰذا بقیہ ایام ٹریننگ جنگ باز خان کے نام سے گزارے۔

قرآن مجید کی جہادی آیات، جہادی احادیث اور اسلامی جہادی شخصیات ہمیں بار بار بلکہ صبح دوپہر شام کو پڑھائی جاتیں۔ دنیا بھر میں موجودہ جہادی صورت حال اور مسلمانوں پر کفار کے مظالم کے قصے سنائے جاتے ہمیں کفار کے سر کاٹنے کی وڈیوز بھی دکھائی گئیں اور کفار کی طرف سے مسلمانوں کے قتل عام کی وڈیوز بھی دکھائی جاتیں۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے ہمارا صبح شام کا معمول تھا۔ خیر ٹریننگ اب پہلے سے سخت تر ہو گئی تھی نیند کے لئے کل ملا کے بمشکل تین ساڑھے تین گھنٹے ملتے۔

خوراک نسبتاً کافی بہتر کر دی گئی مگر ہمیں لگ رہا تھا کہ ہمارا وزن تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ کرتے کرتے دو ماہ گزر گئے مجھے کولہے میں چوٹ لگ گئی اور بہت مشکل سے مجھے تین چار دن ریسٹ دے دیا گیا۔ اسی دن محاذ سے دو زخمی غازی مجاہدین واپس آئے ہمیں بتایا گیا کہ انہوں نے محاذ پر کافی داد شجاعت دکھائی ہے سب ان سے ملنے کے مشتاق تھے مگر کسی کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کی خدمت کے لئے ایک بندہ چاہیے تھا۔ میں نے خود کو پیش کر دیا خیر مجھے ہی کچھ لیت و لعل کے بعد غازیان کا خادم مقرر کر دیا گیا مگر مجھے سختی سے ہدایت کی گئی کہ ان سے فری نہیں ہونا اور زیادہ سوال و جواب بھی نہیں کرنے۔

میں انہی دو غازیان کے ٹینٹ میں رہنے لگا انہیں پانی پلاتا، مطبخ سے کھانا لاتا، ان میں سے ایک کو جو کچھ زیادہ زخمی تھا واش روم تک لے جاتا اور ان سے محاذ اور جہاد کے قصے سننے کی فرمائش کرتا مگر وہ محتاط انداز سے ادھر ادھر کی کچھ کہانیاں سنا دیتے ان میں سے ایک کافی خاموش طبع تھا جبکہ دوسرا کچھ گپ شپ لگا لیتا۔ تیسرے دن میں نے غیر ارادی طور پر ڈینگیں مارنا شروع کیں کہ تم لوگوں نے تو کچھ بھی نہیں کیا جیسے ہی میں محاذ پہ پہنچوں گا کشتوں کے پشتے لگا دوں گا وغیرہ وغیرہ۔

خاموش طبع زخمی پہلے تو میری بکواس سنتا رہا پھر مجھے خاموش رہنے اور خدمت سے فارغ کروانے کی دھمکی دی اس وقت تو میں خاموش ہو گیا مگر کچھ دیر بعد پھر شروع ہو گیا۔ وہ کافی دیر مجھے خشمناک نگاہوں سے گھورتا رہا اور پھر خود خاموش ہو گیا۔ رات دس بجے ہم سو گئے تقریباً 11 بجے اس نے مجھے اٹھا لیا میرا بستر اس کے نزدیک ہی تھا اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر خاموشی کا اشارہ کیا۔ پھر سرگوشی نما آواز میں گویا ہوا کہ خاموشی سے سننا اور ابھی کوئی سوال مت کرنا میں نے اثبات میں سر ہلایا۔

کچھ سیکنڈ خاموشی کا وقفہ آیا تو وہ بولا۔ مجھے گولی ہمارے گائیڈ نے رستے میں جاتے ہوئے ماری تھی۔ میں اس کے اس اچانک انکشاف سے دم بخود اور ششدر رہ گیا۔ خدا کے لئے اس بات کا تذکرہ کسی سے مت کرنا ورنہ ہم تینوں مصیبت میں پھنس جائیں گے میں نے دوبارہ سر ہلایا کیوں؟ گائیڈ سب سے بدتمیزی اور گالم گلوچ کر رہا تھا اور چھڑی سے مارتا بھی تھا جب مجھے اس نے بہن کی گالی دی تو میں نے اس کا گریبان پکڑ لیا اس نے فوراً پسٹل سے میرے کولہے پر گولی مار دی جو گوشت کو چیرتی ہوئی نکل گئی جب کہ دوسرے مجاہدین کو ڈرا دھمکا کر آگے لے گیا۔

میں نے ساتھ لیٹے دوسرے مجاہد کی طرف اشارہ کر کے سرگوشی کی ”اور یہ دوسرا زخمی؟ وہ پہلے ہی پھسل کر زخمی ہوا تھا اور بمشکل چل پا رہا تھا گائیڈ زیادہ سختی بھی اسی پر کر رہا تھا۔ اس نے ہم دونوں کو چھوڑا اور آگے روانہ ہو گیا۔ پھر؟ میں نے سوال کیا۔ ھم نے اپنے پاس موجود کپڑے سے زخم کو اچھی طرح باندھا۔ ہم خوفزدہ تھے اور ہمیں ہرگز رستے کا کچھ معلوم نہیں تھا ہم اندازے سے واپس چل پڑے اور بھٹک گئے ہمیں دشمن فوجیوں اور اپنے فوجیوں ہر دو سے خطرہ تھا۔

ہم وسطی علاقے میں تھے ہمیں کوئی بھی دشمن سمجھ کر ہٹ کر سکتا تھا دوسرے دن ہمیں اندازہ ہوا کہ گائیڈ ہمیں مرنے ہی کے لئے یہاں چھوڑ گیا ہے۔ ھم 24 دن بھٹکتے ہی رہے ہیں جنگلی پھل اور درختوں کے پتے تک کھائے ہیں میرے اور میرے ساتھی کے پاس ڈسپرین اور پیناڈول وغیرہ کافی تعداد میں موجود تھیں اس سے ہم اپنے درد کی شدت کو کنٹرول کیا کرتے تھے رینگ رینگ کر بھی چلے ہیں اور ہم اپنی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے۔ 24 دن بعد ایک پہاڑی پر لکھی شناسا تحریر دیکھ کر ہمیں سمت کا اندازہ ہوا ہم کافی دیر چلے ایک جگہ پہنچ کر میری ہمت جواب دے گئی میرا ساتھی مجھے چھوڑ کر نیچے گاوٴں پہنچا اور گاوٴں والوں نے اوپر کیمپ میں خبر کی تب وہ میرے لئے مدد لے آیا مجھے سٹریچر پر بمشکل اٹھا کر نیچے گاوٴں لے جایا گیا میرا زخم انتہائی خراب ہو چکا تھا ہمیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا اور پندرہ دن وہاں رہنے کے بعد ہمیں اس کیمپ میں لایا گیا ہے۔

یقین مانیے میں بھونچکا رہ گیا۔ اس کی اس کہانی پر یقین کرنے کو دل نہیں مان رہا تھا مگر یہی حقیقت تھی اور میرے سامنے موجود تھی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے پوچھا۔ بس یار اس طرح کے بے شمار واقعات میں نے سنے ہوئے تھے مگر یقین نہیں آتا تھا اب آپ بیتی ہوئی ہے تب یقین آیا ہے اس کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا۔ اس کیمپ کا سربراہ ایک بہت بڑا ٹرانسپورٹر اور بزنس مین ہے جو اب ”امیر محترم“ کہلاتا ہے اس نے یہ کیمپ اپنے خرچے پر بنایا ہے اور تنظیم میں بڑا مقام حاصل کر لیا ہے اس کا ٹرانسپورٹ کا بزنس دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔

فی لانچنگ اسے اخراجات کی مد میں بھی پیسے ملتے ہیں ملک بھر سے لاکھوں کروڑوں روپے ماہانہ چندہ بھی اکٹھا ہوتا ہے صوبہ بھر اور بالخصوص اپنے شہر میں اثر و رسوخ بھی بڑھ گیا ہے۔ فائدہ ہی فائدہ۔ قصۂ مختصر ہم سو گئے۔ میرے مجاہد اعظم بننے کے جملہ ارمان و سپنے بکھرتے نظر آ رہے تھے ایک موہوم سی امید باقی تھی کہ شاید ہم غلط سوچ رہے ہوں اور یہ واقعہ اتفاقی واقعات میں سے ایک ہو۔ مگر بعد کے ایک دو ایام میں وہ امید بھی دم توڑ گئی۔

جب محاذوں میں مختلف جہادی تنظیموں کے آپس میں باہمی مناقشات میں ایک دوسرے کے مشنز میں رکاوٹیں ڈالنے، ایک دوسرے کے بندے ”شہید“ کرنے، ان شہدا کے غائبانہ نماز جنازے، ان غائبانہ نماز جنازوں سے مختلف الجہات فوائد کا حصول، جہاد فنڈز کا سیاسی استعمال و کرپشن، بوقت ضرورت غائبانہ جنازے کے لئے شہدا کی درکاریاں کہ بندے فدائی مشن پر بھیج دیے جائیں تو شہید میسر آ جائیں گے اور غائبانہ نماز جنازہ کی ضرورت پوری ہو جائے وغیرہ اور بہت کچھ۔

ٹریننگ پوری ہونے میں چند روز باقی تھے اور لانچنگ کے لئے گروپ بننا شروع ہو گئے تھے جب ایک گروپ میں نام لکھنے کی میری باری آئی تو میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں پہلے اپنے گھر جاوٴں گا اور پھر لانچنگ پر۔ ان کے رویے بدل گئے۔ بزدلی کے طعنے، ملامت ڈرایا دھمکایا بھی گیا بلیک میلنگ بھی کی گئی اور پھر پیار سے سمجھانے کے سلسلے بھی شروع ہوئے میں نے ڈھکے چھپے لفظوں میں بھاگ جانے کی دھمکی دی تو انھوں نے سنگین نتائج گنوا دیے۔

مگر زندگی ابھی باقی تھی اور بھاگنا دشوار تھا۔ مگر پھر ٹریننگ لینے کا فائدہ؟ ایک رات ہم تین لڑکے وہاں سے بھاگ لئے۔ یہ بھی ایک ایڈونچر تھا۔ پہاڑوں چٹانوں سے پھسلے، گٹے گوڈے چھلوائے، مجھے اور ایک دوست کو زبردست موچ آئی۔ ھم 24 گھنٹے کیمپ سے فقط ایک کلومیٹر دور چھپے رہے۔ ڈھونڈنے والے ڈھونڈ کر مایوس چلے گئے اب وہ شاید ہمیں بہت دور ڈھونڈ رہے تھے اور ہم ان کے اس قدر نزدیک تھے اگلی رات ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا اور کم از کم 15 کلومیٹر دور جا نکلے خطرہ ابھی ٹلا نہیں تھا کیمپ کی بدنامی تھی کہ کیمپ سے بندے بھاگ گئے۔

اگلا دن ہم پھر ایک جگہ دبکے رہے وہ رات ہم پر کافی بھاری تھی پیاس سے نڈھال اور ٹوٹل ہم تینوں کے پاس ڈیڑھ سو روپے۔ وہ رات جیسے تیسے گزاری اور صبح صبح سڑک کے نزدیک پہنچ گئے۔ دو تین ٹرکوں کو روکا مگر وہ نہیں رکے۔ ایک ہائی ایس والے نے اٹھا لیا اور ہماری حالت پر ترس کھا کر نزدیکی شہر میں چھوڑا اسے بغیر بتائے ہماری صورت احوال معلوم تھی کہ یہ کیمپ سے بھگوڑے ہیں اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ وہ چاہتا تو ہمیں پکڑوا کر انعام بھی حاصل کر سکتا تھا مگر اس نے ہم پر ترس کھایا۔

اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ وہ پہلے بھی کئی مرتبہ بھگوڑوں پر ترس کھا چکا ہے۔ میں نے بھاگنے کا چیلنج دیا تھا اسے پورا کر دیا۔ جیسے تیسے ہم گھر پہنچ کر آج زندہ ہیں۔ الحمدللہ رب العٰلمین۔ کیمپ میں رہ جانے والے ان دو زخمی غازی مجاہدین کا کیا بنا؟ اللہ بہتر جانتا ہے۔ وہاں کیمپ سے 100 کلومیٹر نزدیکی شہر کا ایک خوبصورت لڑکا بشیر ثانی میرا دوست بن گیا تھا بعد کے ایام میں وہ دوبارہ کیمپ گیا وہاں سے محاذ پر لانچ ہوا اور شہید ہو گیا اللہ اسے غریق رحمت فرمائے آمین۔

اب بھی بہت یاد آتا ہے۔ انڈین فلم کھل نائیک میں ایک کردار ”روشی با“ ہے جو ہیرو کو فقط اپنی طاقت بڑھانے اور ناجائز ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرتا ہے ہیرو کو بڑی اہمیت دیتا ہے مگر جب ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو اسے مروانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ ھم بھی بہت سے روشی باوٴں سے گھرے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments