نیشنل ہائے وے اور انڈس ہائے وے بند: حکمرانوں کی بے حسی یا غفلت؟


سندھ میں سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال انتہائی افسوسناک ہے، گورنمنٹ نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی اور تو اور پورے پاکستان کو ملانے والی نیشنل ہائی وے اور انڈس ہائی وے مکمل طور پر بند ہیں ابھی نیشنل ہائی وے کو تو کھول دیا گیا ہے مگر سڑک کی حالت زار ہونے سے ٹریفک کی روانی انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے جس کی وجہ سے کراچی سے گھوٹکی تک پہنچنے میں تقریباً بیس سے بائیس گھنٹے لگ جاتے ہیں جس سے جو سیلاب متاثرین ہیں انہیں بھی خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔

ٹریفک کو اس لئے بھی مشکلات کا سامنا ہے کہ جگہ جگہ سے سڑکیں مکمل طور پر اکھڑ چکی ہیں جبکہ کراچی سے کشمور تک لاکھوں گاڑیاں گزرتی ہیں اور اس نیشنل ہائے وے پر تقریباً پانچ سے سات ٹول پلازہ ہیں جن سے روزانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہو رہی ہے مگر سڑک کی حالت دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ جو عام لوگوں سے ٹول پلازہ پر ٹیکس لیا جاتا ہے وہ پیسے کہاں جاتے ہیں کیونکہ صرف نوشہرو فیروز کے مقام پر اتنے بڑے ہیوی نیشنل ہائے وے پر صرف ایک ٹریکٹر سڑک کی مرمت کر رہا ہے باقی سرزمین پر کچھ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے سڑک کے دونوں کناروں سے ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں سست رفتاری کی وجہ سے انسانی المیے کا اندیشہ ہر وقت لاحق ہے۔

ٹریفک کی روانی کا حال یہ ہے کہ پانچ پانچ کلومیٹر تک ٹریفک معطل ہے جس کی وجہ سے لوٹ مار کا خطرہ بھی ہر وقت موجود ہوتا ہے مگر اس میں سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ کہیں پر بھی سندھ پولیس کا کوئی کا نام و نشان نظر نہیں آ رہا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نیشنل ہائے وے حکومت سندھ کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ وفاق کی ذمے داری ہے مگر یہاں پر المیہ یہ ہے کہ نا تو سندھ حکومت نے اپنا کردار نبھایا ہے اور نا ہی وفاقی حکومت نے اپنا کردار اس طرح سے ادا کیا ہے جس طرح سے دونوں حکومتوں کو کرنا چاہیے۔

موٹروے پولیس ہے تو سہی مگر انہیں بھی پورے ہائے وے کے حوالے سے پوری معلومات میسر نہیں ہے۔ نیشنل ہائے وے اور انڈس ہائے وے بند ہونے کی وجہ سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جو سیلاب متاثرین سندھ کے ہر شہر کے باہر سڑکوں پر بے یارومددگار بیٹھے ہوئے ہیں ان کو رلیف کہاں سے اور کیسے ملے گا جب آپ کے مین دو شاہراہیں بند ہوں؟ اس وقت کراچی پورٹ سے ادویات سمیت راشن تقریباً ہر چیز کراچی پورٹ سے ہی آ رہی ہے اور ایسے میں نیشنل ہائے وے کا سفر جو عام حالات میں کراچی سے گھوٹکی تک سات گھنٹے کا ہوتا تھا وہ اب بیس سے بائیس گھنٹے کا ہو گیا ہے اور ایسے میں لوگوں کو کتنی مشکلات ہوں گی اس بات کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔

اگر سندھ میں ادویات کی بات کی جائے تو مارکیٹس میں بخار کی ٹیبلٹس نایاب ہو گئی ہیں پیناڈول، اسپرین سمیت سب کی سب دوائیں ایسے نایاب ہو گئی ہیں جیسے کبھی ملتی ہی نہیں تھیں۔ ادویات کا مارکیٹس میں نا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ جو ڈرگ ریگولیٹری آف پاکستان کہیں نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے منافع خور بلیک پر فروخت کر رہے ہیں جس میں گزشتہ دونوں کراچی میں ایک کارخانے پر چھاپہ بھی مارا گیا جس میں پیناڈول کی 2 لاکھ 52 ہزار ٹیبلیٹس برآمد کرلی گئیں۔

ہوتا یہ ہے کہ دنیا میں اگر کہیں اس طرح کی قدرتی آفات آتی ہیں تو وہاں پر حکومتیں اور ادارے اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں اور جن چیزوں کی قیمتیں آفت سے پہلے ہوتی ہیں آفت کے بعد وہ اور کم ہوتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رلیف مل سکے مگر ہمارے یہاں قدرتی آفات کو حکمرانوں سمیت تمام ادارے اچھا شگن سمجھ کر لوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں اور متاثرہ لوگوں کو رلیف نام سے کوئی ایک فیصد بھی شاید مشکل سے ملتا ہے۔

بارشوں کو بند ہوئے تقریباً ایک ماہ ہو گیا ہے مگر حکومت تاحال متاثرہ علاقوں سے پانی کا نکاس نہیں کر سکی ہے اور نا ہی شہروں سے پانی کا اخراج ہوسکا ہے یہ ہے ہماری حکومت کی سنجیدگی کا عالم، حالانکہ وزیر مشیر ہر وقت میڈیا پر رلیف دینے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں مگر یہ خود فیلڈ میں جانا ہوتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ لوگوں کو رلیف تو کیا ابھی تک تو سندھ کی متاثرہ آدھے خاندانوں سے بھی زائد افراد کو خالی ٹینٹ ہی نہیں ملے ہیں اور وہ سڑکوں پر چارپائی کو الٹا لٹکا کر اس قیامت خیز گرمی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اوپر سے نا تو صاف پانی میسر ہے اور نا ہی کھانے کے لئے کوئی اچھی خوراک ہے جس کی وجہ سے اب متاثرہ علاقوں میں مختلف موذی بیماریوں نے منہ نکالنا شروع کر دیا ہے جس میں ڈائریا، ملیریا، ڈینگی، پیچز، بخار، زکام، نزلا شامل ہیں۔

لوگوں بے سہارا ہو کر اپنی اولادوں کو مرنے کے لئے تڑپتا ہوا دیکھ رہے ہیں مگر ان کو ادویات نہیں مل رہی ہیں۔ ان چیزوں کی ادویات تو حکومت کے پاس ویسے بھی نہیں ہوتی تھیں مگر اب جب اتنا بڑا سندھ کا نقصان ہوا ہے اور لوگ سڑکوں پر ہیں تو کم از کم اب تو حکومت کو آنکھیں کھول دینی چاہئیں کہ اگر ان متاثرہ خاندانوں میں یہ بیماریاں بڑھتی گئیں تو ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے گا جو کبھی کسی نے سوچا تک نہیں ہو گا۔

میں دیکھ چکا ہوں متاثرہ خاندانوں کو اور مل بھی چکا ہوں کہ وہ کس طرح زندگی بسر کر رہے ہیں انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں مگر مجبوری میں بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے علاقوں سے تاحال پانی کا اخراج نہیں ہوسکا ہے اور ان کے گھر مکمل طور پر زمین دوز ہوچکے ہیں، ان کی رہیبلیٹیشن کے لئے حکومت سنجیدہ ہے مجھے نہیں لگتا، اتنا ٹائم گزر گیا ہے ابھی تک متاثرہ افراد کو پورے ٹینٹ نہیں مل پائے تو باقی گھر بنوا کر دینا اور ان کو باقی طبی سہولیات فراہم کرنا ایسے ہی ہے جیسے بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔ سندھ حکومت سے امید کم ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی عوام کے اچھائی کے لئے کوئی کام کریں گے کیونکہ ابھی تک تو وزیر اعلی سندھ سمیت دیگر وزیروں مشیروں کے صرف دورے ہی ہو رہے ہیں عملی کام تو کم ہی نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments