میاں جی گم صم


گول مٹول، گورا رنگ، بھرا بھرا جسم، موٹاپے کی طرف مائل بالکل گول چہرہ جیسے کسی نے پرکار سے بنایا ہو، قد مناسب اور چال میں ایک ڈھیلا پن جیسے کسی نے زبردستی چلنے پر مجبور کیا ہو، چہرے پر ہمیشہ نہ ختم ہونے والی ناگواری لیے میاں جی گم صم رہتے تھے اور سگریٹ کے کش پہ کش لگائے جاتے تھے۔ میاں جی سے پہلی ملاقات جام صاحب کے طفیل ہوئی تھی۔ وہ جام صاحب کے سگے چچا تھے اور عمر میں ان سے پانچ چھے سال بڑے تھے۔ اس لیے جام صاحب کے کچھ دوست اور زیادہ چچا واقع ہوئے تھے۔

میاں جی گم صم، جام صاحب کے سب سے چھوٹے چچا تھے اس لیے گھر والوں کے لاڈلے تھے خاص طور پر اپنی والدہ ماجدہ کے آنکھ کے تارا تھے یہی وجہ ہے جام صاحب فرماتے ہیں کہ ہم نے چچا کو ہمیشہ دادی کی گود میں ہی دیکھا ہے۔ دادی کی گود میں پڑے ہمیشہ انہیں وہ بلی کے بچے کی طرح لگتے تھے۔ شاید اس کی وجہ دادا جی کا جلد انتقال تھا ویسے بھی جام صاحب کے دادا دادی نے کل درجن بھر بچوں کی جنم دیا تھا اس لیے پہلے بچے اور آخری بچے میں کوئی بیس بائیس سال کا فرق تھا۔ جام صاحب کہتے ہیں کہ اکثر لوگ میاں جی گم صم کو ان کا بڑا بھائی سمجھتے ہیں لاکھ سمجھانے پر بھی چچا ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔

بقول جام صاحب میاں جی گم صم جو بہت معصوم لگتے ہیں اصل میں پورے فن کار ہیں۔ بچپن کا قصہ سناتے ہوئے جام صاحب بتاتے ہیں کہ ان کو بچپن سے گاڑیوں کا بہت شوق تھا اس لیے وہ چابیاں جمع کرتے رہتے تھے۔ میاں جی گم صم نے ایک مرتبہ ان کو چابی دی جو کہ آگ سے گرم کی گئی تھی۔ جب جام صاحب نے اس کو پکڑا تو ان کے سارے ہاتھ پر چھالے نکل آئے اور میاں جی ان کی حالت دیکھ دیکھ کر ہنستے رہے۔ ایک اور موقع پر میاں جی گم صم  نے ان کی (ڈنکی) کار چھپا لی جام صاحب اس کو ہر جگہ ڈھونڈتے رہے۔ آخر کار ان کو وہ ڈنکی ان کی کلاس کے بچے کے پاس مل گئی۔ جام صاحب نے اپنے چار کزنوں کی مدد سے وہ گاڑی اس سے چھین لی اور گھر آ کر میاں جی کو دکھائی۔ میاں جی نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا پاگل تیری ڈنکی تو میرے پاس ہے تو کون سا اس کو اسکول لے گیا تھا جو وہاں گم ہوئی ”بیوقوف“ اور میاں جی ڈنکی سے کھیلتے ہوئے آگے چل دیے۔

میاں جی گم صم تعلیم کے میدان میں بہت آگے تھے یہی وجہ ہے وہ ایم۔ بی۔ بی۔ ایف کرتے رہے یعنی میٹرک بار بار فیل لیکن ان کو دوسروں کی تعلیم کی بہت فکر رہتی تھی۔ جام صاحب فرماتے ہیں کہ ان کے والد کے جب معاشی حالات خراب ہوئے (ویسے وہ کب ٹھیک تھے ) تو ان کو انگریزی اسکول سے نکال کر گورنمنٹ کے اردو میڈیم اسکول میں ڈال دیا گیا جہاں ان کو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میاں جی نے اپنی خدمات دینے کا اصولی فیصلہ کیا جس کو تمام بڑوں نے خوب پسند کیا اور جام صاحب کو ان کے حوالے کیا۔ وہ جام صاحب کو بڑے منفرد طریقے سے سزائیں دیا کرتے تھے۔ کبھی جام صاحب کو قبرستان چھوڑ آتے (رات کے وقت) اور جام صاحب کو وہاں سے پیدل آنا پڑتا۔ کبھی دور دراز جگہ چھوڑ آتے اور کہتے یہاں سے گھر پیدل آؤ اور اپنا موٹر سائیکل بھگا لے جاتے اور کبھی جام صاحب کے ہاتھ پاؤں باندھ دیتے کہ تم پڑھتے نہیں ہو۔

ایم۔ بی۔ بی۔ ایف کرنے کے بعد میاں جی نے کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا۔ والد صاحب فوت ہو چکے تھے لیکن ان کا کاروبار ان کے بڑے بھائی عقیل صاحب سنبھالتے تھے اس لیے والدہ ماجدہ نے آپ کی مٹر گشتی دیکھتے ہوئے ان کے حوالے کر دیا۔ جہاں ایک نکڑ پر آپ چپ چاپ بیٹھے رہتے۔ تمام کام بڑے بھائی سنبھالتے اور آپ بیٹھے رہتے۔ والدہ نے سمجھا میاں جی کاروبار کی رموز اوقاف سمجھ گئے ہیں حالانکہ آپ کو کاروبار کی الف ب بھی نہیں آتی تھی بلکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ ابھی تک نہیں آتی اور یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ ابھی تک دونوں بھائی اکٹھے کام کر رہے ہیں۔

میاں جی گم صم نے شادی اپنی مرضی سے کی اور چپکے سے اپنے دوست کی بہن کو دل دے بیٹھے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس بی بی نے ان کو دل دیا تھا یا نہیں؟ بہرحال کیونکہ آپ گھر بھر کے چہیتے تھے اس لیے والدہ کو اس شادی پر رضا مند کر لیا۔ اس طرح آپ خاندان کے پہلے فرد واقع ہوئے جس نے خاندان سے باہر شادی کی۔ اس وجہ سے کئی لوگوں کی نفرت بھی مول لی۔ کہتے ہیں ناں جتنے منہ اتنی باتیں، لڑکی پر کئی قسم کے الزام لگے کہ میاں جی گم صم کو انہوں نے پھنسا کر شادی کی ہے حالانکہ بات اس کے الٹ تھی۔

میاں جی شادی تو اپنی مرضی سے کر آئے لیکن شادی کیسے نبھاتے ہیں اس کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھے۔ جام صاحب کہتے ہیں کہ میاں جی اور ان کی بیگم کی اکثر لڑائی رہتی اور وہ ناراض ہو کر اپنے میکے تشریف لے جاتیں، جام صاحب کہتے ہیں، عقیل صاحب کا میاں جی کے گھر میں بہت اثر و رسوخ تھا ایک دفعہ انہوں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے عقیل صاحب کو میاں جی کی بیگم کی پٹائی کرتے دیکھا تھا اور میاں جی ساتھ کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ بقول جام صاحب انہوں نے جا کر عقیل صاحب کو ہٹایا اور میاں جی کو مت دی یہ آپ کیا کر رہے ہیں اگر پٹائی کرنی بھی ہے تو اپنے ہاتھ سے کریں ورنہ بہتر تو یہ ہے کہ نہ کریں۔ میاں جی گم صم اس بات پر بھی گم صم رہے۔

میاں جی کے پانچ بچے ہیں۔ جن میں سے دو کو آپ نے حافظ بنانے کی کوشش کی۔ آج ماشاءاللہ دونوں حافظ نہیں بن سکے اور تعلیم کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ اور اب یہ دونوں بچے ایک نکڑ میں اپنے باپ کے ساتھ گم صم، عقیل کی سربراہی میں بیٹھے ہیں۔ جام صاحب کہتے ہیں کہ باقی بچوں کا بھی پڑھائی میں دل نہیں لگتا وہ بھی تعلیم چھوڑنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ مثل مشہور ہے ”اولاد ماں باپ پر ہی جاتی ہے“ میاں جی گم صم آج بھی گم صم ہیں اور اپنے بچوں کی تعلیم پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments