کیا عورت ہی عورت کی دشمن ہے؟


چلیے آج اس پر بھی بات کر لیں۔

معاشرے کے بیشتر افراد کو مرد کیوں مظلوم نظر آتا ہے اور عورت کو ظالم کیوں سمجھا جاتا ہے جو دوسری عورت کی زندگی جہنم بنا دیتی ہے۔

عورت کی ازدواجی زندگی چودہ سے چوبیس برس کے بیچ شروع ہوتی ہے۔ ایک ایسی زندگی جس میں توقعات اور ذمہ داریوں کے بھاری بوجھ کے ساتھ حقوق سب سے کم۔ دونوں طرف کے خاندان اسے بار بار یہ یاددہانی کرواتے ہیں کہ اگر بسنا ہے تو اپنے حقوق کی بات کبھی نہ کرنا۔ ماں باپ واپسی کا دروازہ بند کر کے بھیجتے ہیں اور شوہر/ سسرال بات بات پہ اپنے گھر سے نکالنے کی دھمکی۔

بچوں کے ساتھ بے آسرا ہونے کا خوف اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ لب سی کر دوسروں کی ترتیب دی ہوئی زندگی گزارے۔

کیا آپ کو یہ بات نارمل لگتی ہے؟

کیا اپنی ذات کو دوسروں کے لیے بدل دینا اور ہر زیادتی چپ کر کے سہنا کسی بھی انسان کی ذہنی اور جذباتی حالت مسخ نہیں کرے گا؟

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عورت اس چکی میں پس کے اپنی ماہیت ہی تبدیل کر بیٹھتی ہے۔ اپنی بقا کے لئے اس نظام پہ ایمان لاتے ہوئے وہ، وہ عورت نہیں رہتی، اس نظام کا پرزہ بن جاتی ہے۔ اس کے اندر عورت کی حساسیت اور دوسری عورت کے دکھ کو پہچاننے کی صلاحیت زندگی کے شروع میں ہی جل کے راکھ ہو جاتی ہے۔ وہ اختیار، رائے عزت اور اپنی مرضی کو ترستی ادھیڑ عمری کی منزل پہ پہنچ جاتی ہے۔

سوچیے جب اس کے اپنے دامن میں اپنی عزت کی دولت ہی نہیں تو وہ اولاد کو دوسروں کی عزت کرنے کا سبق جتنا چاہے پڑھائے وہ بے معنی رہے گا۔ اولاد بھی گونگی بہری نہیں ہوتی، وہ عورت کی حیثیت کا عملی مظاہرہ دیکھ کر جوان ہوتی ہے۔

طاقت کے اس کھیل میں ماں نامی اس عورت کو اختیار ملنا صرف ایک مرد کے ذریعے سے ہی ممکن ہے، اور وہ ہے اس کا بیٹا۔ پدرسری نظام کا مرد بیٹا بن کے ماں پہ ترس کھانے کے ساتھ ساتھ جنت کے لالچ میں وہ سارے اختیار بخشتا ہے جو گزر جانے والے کل میں اس کے باپ نے چھین کے عضو معطل بنایا تھا۔

مرد بیوی کو اس پلڑے میں ڈالتا ہے جو ہلکا ہو کے کہیں خلا میں جھول رہا ہوتا ہے اور ماں کو دیوی بنا کے ایک ایسے طاق پہ رکھ دیتا ہے جہاں بیوی کو صبح شام دیوی کے چرن چھونے کا حکم ہے اور انکار کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی جاتی۔

ایسا کرتے ہوئے وہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی کو زندگی بانٹ رہا ہے اور کسی کو موت۔ زندگی کے سفر میں ساتھ چلنے والی عورت جو محبت کی چاہ میں ساتھ چلنے آئی تھی اسے ویسی ہی بے جان مورت میں بدل رہا ہے جیسی آج اس کی ماں ہے۔

سہاگ رات کا پہلا حکم یہی تو ہے، میری ماں کو خوش رکھنا ہر قیمت پر۔ میں اس کی ناراضگی نہیں برداشت کروں گا۔

وہ یہ کیوں نہیں کہتا کہ تم بھی غلطی کر سکتی ہو اور میری ماں بھی لیکن میں تمہیں اور اپنی ماں کو کبھی بھی آمنے سامنے نہیں آنے دوں گا۔ تم اگر پیدا کرنے والوں کو چھوڑ کر آئی ہو تو میرا فرض ہے کہ اس چھت کو تمہاری بنانے میں مدد کروں جہاں انسان ہونے کے حقوق تم سے کوئی نہ چھین سکے۔

گھر اکھاڑا تو نہیں جس میں ایک مرد کی خاطر اور اپنے اپنے حقوق کے لیے گھر کی عورتیں ایک دوسرے کو لہولہان کر دیں؟

لیکن مرد ایسا نہیں کرتا۔ انصاف سے حقوق بانٹنا تو درکنار، بچہ اور مظلوم بنتے ہوئے قصوروار ان عورتوں کو ہی سمجھتا ہے جو اس کے سکون میں خلل ڈالتی ہیں اور آپس میں صلح صفائی سے نہیں رہتیں۔

نوجوان عورت ہر لمحہ پل صراط پہ چلتی ہے، برسہا برس۔ جذباتی ہیجان، مایوسی، اندرونی کش مکش، بے بسی، ان کہی، ان سنی اور تنہائی کیا کسی بھی انسان کو وہ رہنے دے گا جو اس کا اصل تھا؟

آخر کار اس چکی میں پستے پستے وہ بھی ایک زومبی کی صورت اختیار کرتی ہے۔ بے زبان مورت زندگی کی آخری سیڑھی پہ کھڑی وقت کی دھول میں اپنا آپ کھوجتی ہے۔ گزرے ہوئے لمحے یاد کرتی ہے، کرچی کرچی ذات دیکھ کر زار و قطار روتی ہے۔

ایسے میں لخت جگر کے ساتھ ارمانوں بھری نوجوان عورت نظر آتی ہے، رستے ہوئے زخموں سے ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں۔ وہ اپنی بے نور آنکھوں سے یہ جان ہی نہیں پاتی کہ اس کی زخم زخم ہستی کا سبب یہ عورت نہیں۔ ادھیڑ عمر عورت کو نوجوان عورت میں اپنا ہیولہ نظر آتا ہے، وہی ہنسی، وہی خواب، وہ شوخی، وہی چنچل پن جو اس سے چھین لیا گیا تھا۔

اس وقت ادھیڑ عمر عورت کو نوجوان عورت اپنی دشمن نظر آتی ہے۔ اگر وہ بیتے برسوں میں ہنس نہیں سکی تو آج یہ کیوں ہنسے؟ اگر وہ اپنے خواب پورے نہیں کر سکی تھی تو یہ بھی کیوں کرے؟ اگر اس کی شوخی کو مٹا دیا گیا تھا تو اسے بھی بھولنا ہو گی۔

احساس کی دولت وقت کے ہاتھوں کب کی چھن چکی۔ اب تو ایک عمر رسیدہ شکستہ پا عورت ہے جس کے جسم پہ نوجوان عورت کی ہنسی اور آنکھوں کی چمک کوڑے بن کر برستی ہے۔

آپ ہی فیصلہ کیجیے بخشے گئے اختیار کو اپنی جیسی کی زندگی میں زہر گھولنے کا احساس ایک مردہ عورت کیسے کرے؟

مرد اس دائرے سے باہر بیٹھا ایک زخموں سے چور چور ڈھلتی عمر کی عورت کو دوسری عورت سے نبرد آزما ہوتے دیکھ کے بالکل اسی سرور کے عالم میں رہتا ہے جب رومن بادشاہ اکھاڑے میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے کھلاڑیوں کو دیکھ کے حظ اٹھایا کرتے تھے۔ جانتے تھے کہ دونوں کا مقدر اذیت بھری موت ہے۔

اسی سرور کے عالم میں پدرسری نظام کا یہ مرد انگلی اٹھاتا ہے کہ ہم بے چاروں کا نام تو ناحق بدنام، اصل میں تو عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments