جوگیش چندر گھوش سے نواب اکبر بگٹی تک


یہ فروری 1971ء کی ایک سرد شام تھی، پاکستان کے سیاسی افق پر بے چینی کے گہرے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے اور ایک فوجی آمر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان تھا۔ بلوچ قبیلے کے سربراہ نواب اکبر بگٹی، ڈیرہ بگٹی میں اپنی بیٹھک پر تشریف فرما تھے اور ان کے قریب ہی ایک میز پر بھیڑ بکریوں کے شانے کی ہڈیاں رکھی ہوئی تھیں۔ بلوچ معاشرے میں بھیڑ بکریوں کے شانے کی ہڈیوں کی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ بلوچوں کے کچھ بزرگ اور ماہرین ان ہڈیوں کو دیکھ کر مستقبل کے بارے میں پیشن گوئیاں کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کو بھی بلوچوں کے اس علم میں دلچسپی تھی، وہ نہ صرف خود ان ہڈیوں کو دیکھتے تھے بلکہ ان کے قبیلے میں جو ماہر لوگ تھے ان سے بھی اس بابت پوچھتے رہتے تھے کہ ان ہڈیوں میں کیا نظر آ رہا ہے۔

فروری کی اس شام کو نواب اکبر بگٹی کی بیٹھک میں ایک نشست میں جب انھوں نے اپنے قبیلے کے ایک ماہر کو شانے کی ہڈی دیکھنے اور مستقبل کا حال بتانے کا کہا تو اس ماہر نے ہڈیوں کا بغور مطالعہ کیا اور بتایا کہ اس میں تو خون کا سمندر نظر آ رہا ہے۔ یہ سن کر اکبر بگٹی کے چہرے پر فکر و پریشانی کے آثار نمودار ہوئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان دو حصوں پر مشتمل ملک تھا اور دونوں خطے ایک دوسرے سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع تھے، ایک حصہ مغربی پاکستان اور دوسرا حصہ مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔

1970 میں عام انتخابات کے بعد پورے ملک میں سیاسی بے چینی پھیلی ہوئی تھی لیکن مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات زیادہ دگرگوں تھے۔ عجب اتفاق تھا اکبر بگٹی کے ماہر کی پیش گوئی کے ایک ماہ بعد مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہو گیا جو فوراً ہی ایک خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گیا۔ پورے مشرقی پاکستان میں کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ فوجی آپریشن کو شروع ہوئے ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ 4 اپریل 1971ء کی تاریک رات کو 71 دینا ناتھ سین روڑ گندریا ڈھاکہ میں واقع سادھنا آوشادا لیہ کی فیکٹری میں پاکستانی فوج کا ایک دستہ مین گیٹ توڑ کر داخل ہو گیا۔

شور و غل کی آواز سن کر اس آیورویدک دوا ساز فیکٹری کے مالک جوگیش چندر گھوش اور ان کے دو ملازمین کی آنکھ کھل گئی، جوگیش چندر گھوش نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنی ہی فیکٹری میں پناہ لے رکھی تھی۔ ان کے خاندان کے باقی افراد پہلے ہی ہندوستان نقل مکانی کر چکے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں میرا جینامرنا یہیں ہے۔ جوگیش چندر گھوش اپنے دو چوکیداروں کے ساتھ مین گیٹ کی جانب یہ دیکھنے کے لئے گئے کہ ماجرا کیا ہے، وہاں ان کو فوجی دستہ کھڑا نظر آیا۔

فوجی دستے کا سربراہ جوگیش چندر گھوش کی جانب یہ کہتے ہوئے بڑھا کہ ہمیں فیکٹری کی تلاشی لینی ہے۔ دستے کے باقی سپاہی فیکٹری کے اندر مختلف مقامات کی تلاشی لینے لگے اور فوجی دستے کا سربراہ اپنے چار سپاہیوں کے ساتھ جوگیش چندر گھوش کو اپنے ساتھ لے کر عمارت کی دوسری منزل کی جانب چلا گیا۔ ان افراد کے دوسری منزل پر پہنچنے کے چند لمحے بعد گولی چلنے کی آواز آئی جس کا نشانہ 84 سالہ جوگیش چندر گھوش تھے، جو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔

چند گھنٹوں کے اندر اندر سادھنا آوشا دالیہ کے دیگر اداروں سمیت پوری فیکٹری میں توڑ پھوڑ کی گئی اور قیمتی سامان لوٹ لیا گیا، فیکٹری کو آگ لگادی گئی۔ یاد رہے کہ جوگیش چندر گھوش بنگالی نژاد اور مذہباً ہندو تھے لیکن مرتے دم تک سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔ چونکہ اس وقت تک بنگلہ دیش وجود میں نہیں آیا تھا اور ڈھاکہ اس سرزمین کا حصہ تھا جو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ جوگیش چندر گھوش سن 60 کی دہائی میں پاکستان کے ہر قومی دن پر اردو روزنامہ جنگ کراچی کے پورے صفحہ پر تہنیتی اشتہار شائع کرواتے تھے۔

جوگیش چندر گھوش 1887ء میں پیدا ہوئے انھوں نے 1908ء میں کیمسٹری میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ جوگیش چندر گھوش نے 1908 ء میں بھاگلپور کالج میں کیمسٹری کے پروفیسر کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد وہ جگن ناتھ کالج ڈھاکہ جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے میں کیمسٹری کے پروفیسر ہو گئے اور 1947ء میں وہ کالج کے پرنسپل بن گئے۔ 1948ء میں ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔ جگن ناتھ کالج میں پروفیسر رہتے ہوئے، جوگیش چندر گھوش نے آیورویدک ادویات کی تیاری کے لیے ڈھاکہ میں ایک لیبارٹری قائم کی۔

1914ء میں قائم کی گئی اس لیبارٹری کو سادھنا آوشادالیہ کا نام دیا گیا۔ مشرقی بنگال میں اپنی نوعیت کی پہلی لیبارٹری تھی اور اس نے کئی دہائیوں تک آیورویدک ادویات کو فروغ دینے میں شاندار کام کیا۔ یہ ان کی وسیع تحقیق اور مشق کی وجہ سے تھا کہ آیورویدک علاج اور آیورویدک دوائیوں کی تیاری کے طریقے میں مشرقی پاکستان نے کمال حاصل کیا۔ سادھنا آوشادالیہ کی شاخیں ملک کے مختلف حصوں اور کئی دوسرے ممالک میں بھی قائم ہو گئیں، جن میں چین، شمالی امریکہ اور افریقہ بھی شامل تھے۔

جوگیش چندر گھوش لندن کی کیمیکل سوسائٹی (FCS) کے فیلو اور یو ایس کیمیکل سوسائٹی (MCS) کے رکن تھے۔ انھوں نے بیماریوں کی وجوہات، آیورویدک ادویات اور علاج اور صحت سائنس پر متعدد کتابیں لکھیں۔ جوگیش چندر گھوش بنگال میں آیورویدک علاج کو فروغ دینے کے علمبردار تھے، نے اپنی زندگی کی تقریباً چھ دہائیاں انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیں۔ وہ ہر فلاحی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ مارچ 1971 میں شروع ہوئی اس خانہ جنگی کے نتیجے میں دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان ایک آزاد ملک کا روپ دھار گیا جس کا نام بنگلہ دیش رکھا گیا۔

بنگلہ دیش کے قیام کو 35 برس گزر چکے نئی صدی شروع ہو چکی سن 2006 آ گیا حسب روایت پاکستان پر ایک فوجی آمر حکومت کر رہا ہے۔ 79 سالہ سن رسیدہ، نواب اکبر بگٹی، لاٹھی ہاتھ میں تھامے ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے سوچوں میں غرق ہیں لیکن اب وہ ڈیرہ بگٹی کی اپنی آرام دہ بیٹھک میں نہیں بلکہ کوہلو کے علاقے میں ایک نامعلوم پہاڑی غار میں روپوش ہیں ان کے سامنے ایک پتھر پر وہی بھیڑ بکریوں کے شانے کی ہڈیاں دھری ہیں اور ان کو آج بھی اس میں خون کا سمندر نظر آ رہا ہے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ جنوری 2005 میں ایک فوجی افسر نے ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں واقع پاکستان کی سب سے بڑی گیس فیلڈ میں ملازمت کرنے والی ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی کی، اکبر بگٹی نے اس پر احتجاج کیا اور فوجی افسر کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ آمر اپنے پیٹی بند بھائی کو سزا دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس کے صرف دو ماہ بعد سترہ مارچ 2005 کو جب نواب اکبر بگٹی اور ان کے بیٹے نواب جمیل بگٹی اپنے گھر پر موجود تھے، ان پر بمباری کی گئی۔

اکبر بگٹی، شاہد بگٹی اور جمیل بگٹی بمشکل جان بچا پائے۔ البتہ چھیاسٹھ ہندو خواتین، مرد اور بچے جو سب کے سب پاکستانی تھے اس بمباری کی زد میں آ کر جاں بحق ہوئے۔ بلوچ روایات کے مطابق بلوچ قبیلے کی حدود میں رہنے والے کسی بھی اقلیتی برادری کے افراد اس قبیلے کی مشترکہ ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں اور نواب اکبر بگٹی نے ڈیرہ بگٹی کے تمام ہندوؤں کو جو پاکستانی تھے اپنے ذاتی ڈیرے پر رہائش گاہیں دے رکھی تھیں۔

اس کے بعد حالات بگڑ گئے۔ بلوچ اپنی روایت کے مطابق پہاڑوں پر چڑھ گئے اور اکبر بگٹی نے ایک پہاڑی غار میں پناہ لے لی۔ فوجی آمر نے بجائے معاملات کو سلجھانے کے، دھمکی دی کہ ایسی جگہ سے فائر ہو گا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو گی۔ اس کی دھمکی نے 26 اگست 2006 کو حقیقت کا روپ دھار لیا اور غار کو بمباری کر کے تباہ کر دیا گیا اور اکبر بگٹی اپنے ساتھیوں سمیت لقمہ اجل بن گئے۔

اکبر بگٹی۔ 12 جولائی 1927 کو ڈیرہ بگٹی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گرامر اسکول کراچی میں حاصل کی پھر لاہور کے ایچی سن کالج میں داخلہ لیا حاصل۔ اس کے بعد آکسفورڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ 1946ء میں اپنے قبیلہ کے 19ویں سردار بنے۔ 1947ء میں انہوں نے حکومت کی خصوصی اجازت سے پاکستان سول سروس اکیڈمی سے پی اے ایس (اب سی ایس ایس) کی تربیت حاصل کی۔

29 جون 47 19 کو بلوچستان کے شاہی جر گے کے اراکین اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے منتخب اراکین ٹاؤن ہال کوئٹہ میں جمع ہوئے جس میں اکبر بگٹی نے نمایاں کردار ادا کیا انہوں نے نہ صرف اس جرگہ میں اپنے قبیلے کی نمائندگی کی بلکہ جر گہ کے دیگر اراکین کو پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کے لئے آ مادہ کیا۔ اس سے پہلے قائد اعظم کی آمد پر نوجوان اکبر بگٹی نے کوئٹہ ائر پورٹ پر قائد اعظم کا استقبال بھی کیا۔

بعد میں وہ سندھ اور بلوچستان کے شاہی جرگہ کے رکن نامزد ہوئے۔ 1951 ء میں بلوچستان کے لئے گورنر جنرل کی کونسل کے مشیر مقرر ہوئے۔ وہ 1958ء میں وزیر مملکت کے طور پر وفاقی کابینہ میں شامل رہے۔ اور فیروز خان نون کابینہ میں نامزد و زیر دفاع بنے اس کے علاوہ وزارت داخلہ میں وزیر بھی رہے۔ ان ہی کی وزارت کے دور میں گوادر پاکستان میں شامل ہوا۔ 65۔ 1964 کے عام انتخابات میں انہوں نے فوجی آ مر ایوب خان کے مقابلے میں قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔

فوجی آ مر  نے بطور انتقام ان کو منشیات فروشی کا کیس بنا دیا اور اقرار جرم کروانے کے لئے بے پناہ تشدد کیا۔ 1960ء کی دہائی میں وہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) میں شامل ہو گئے 1973ء میں 10 ماہ کے لیے بلوچستان کے گورنر رہے۔ 1988ء میں اکبر بگٹی بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ فروری انیس سو نواسی سے اگست انیس سو نوے تک وہ بلوچستان کے منتخب وزیراعلیٰ رہے۔ انیس سو ترانوے کے عام انتخابات میں وہ ڈیرہ بگٹی سے اپنی نئی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کو بھی آخری زمانے میں مشورہ دیا گیا تھا کہ افغانستان میں سیاسی پناہ حاصل کر لیں لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔

ہمارا المیہ دیکھئے 1971 میں فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے 84 سالہ جوگیش چندر گھوش اور 35 سال بعد 2006 میں اپنی ہی فوج کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے 80 سالہ نواب اکبر بگٹی، دونوں ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ دونوں ہی پاکستانی تھے اور تا دم مرگ پاکستانی رہے۔ حالانکہ ان پیرانہ سال بوڑھوں کو گرفتار کرنا اور قانونی کا ر وائی کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا مگر جب ہمارے حکمران آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا گردانتے ہیں۔ تو ان کے لئے قانون کو اپنے پیروں تلے روندنا ایک معمول کی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments