نئے انتخابات ناگزیر ہیں


اس وقت قومی سیاسی بحران میں ایک بڑا نقطہ عام انتخابات کا ہے۔ عمران خان نے ایک بار پھر پس پردہ قوتوں اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کا حل نئے اور فوری انتخابات ہیں۔ لیکن حکومت کا دعوی ہے کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت یعنی اگست 2023 میں ہی ہوں گے اور اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی۔ حکومت کے بقول ہم کسی ایک جماعت یا قیادت کے دباؤ یا دھمکیوں پر مبنی ایجنڈا پر عام انتخابات کا اعلان نہیں کریں گے اور ایسا کرنا خود ایک بڑے سیاسی دباؤ میں لانا ہو گا۔

اسی طرح حکومت سمجھتی ہے کہ فوری انتخابات کسی بھی سیاسی اعتبار سے ان کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ کیونکہ ان کے بقول عمران خان ایک پاپولر سیاست کے ساتھ سیاسی میدان میں اپنے سیاسی مخالفین پر غالب ہیں اور ان کو انتخابات میں برتری مل سکتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف سمیت اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان انتخابات کے معاملے پر سیاسی تناؤ موجود ہے۔

ایک منطق یہ دی جا رہی ہے کہ موجودہ صورتحال اور بالخصوص سیلاب کی امدادی سرگرمیوں یا متاثرین کی بحالی کے تناظر میں نئے انتخابات کسی بھی صورت میں فوری طور پر ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیلاب متاثرین کی امدادی سرگرمیوں اور متاثرین کی بحالی ایک بڑا حساس معاملہ ہے اور فوری ترجیحات کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن اس بات کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ سیلاب کی امدادی سرگرمیوں کے باوجود تمام ضمنی سطح کے انتخابات کے شیڈول جاری ہو چکے ہیں۔

سندھ میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا دوسرا مرحلہ، بلوچستان میں مقامی انتخابات کا تیسرا مرحلہ اور پنجاب میں متوقع طور پر اسی برس دسمبر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے شیڈول جاری ہوچکے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ ہو سکتا ہے تو پھر عام انتخابات کیوں نہیں۔ مسئلہ سیلاب یا امدادی سرگرمیوں کا ہے یا یہ مسئلہ خالصتاً سیاسی مسئلہ ہے۔ کیونکہ ایسے لگتا ہے کہ ہم عام انتخابات سمیت بہت سے فیصلوں کے تناظر میں سیاسی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں یا انتظامی، قانونی بنیاد سے زیادہ ہم پر سیاست اور سیاسی مفادات ہی غالب ہیں۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔ سیاسی محاذ آرائی، ٹکراؤ اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول نہ کرنے سیاسی تلخیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ ہم ایک بڑے سیاسی ڈیڈ لاک کا شکار ہیں۔ اسی سیاسی ڈیڈ لاک کی ہم ایک بڑی بھاری قیمت ملکی معیشت کی بدحالی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ منظر نامہ ملکی سطح پر سیاسی اور معاشی غیر یقینی کی کیفیت کا اظہار کرتا ہے۔

سیاسی قوتیں یعنی حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں اگر ہم نے عام انتخابات اگست 2023 میں ہی کرنے ہیں تو اس کا مطلب موجودہ سیاسی و معاشی بحران کا ٹکراؤ جاری رہے گا اور ہم سیاسی اور معاشی استحکام سے عملاً دور ہی رہیں گے۔ ایسے میں دو بڑے ڈیڈ لاک کا سامنا ہے۔ اول حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان کوئی سنجیدہ مکالمہ یا ڈائیلاگ ممکن ہو سکتا ہے اور اگر ہو سکتا ہے تو کون اس کی پہل کرے گا یا اس کا ایجنڈا کیا ہو گا۔ دوئم کیا ہم نئے انتخابات پر کوئی بڑا اتفاق رائے کر سکتے ہیں اور انتخابات کی اصلاحات یا شفافیت سمیت انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں گے ۔

کافی عرصہ سے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری ڈیڈ لاک کو توڑنے کے لیے ایک کوشش صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کر رہے تھے۔ ایک نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ کیونکہ پی ٹی آئی کے صدر ہیں تو ان کی قبولیت حکومتی سطح پر ممکن نہیں ہوگی۔ لیکن صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جو کوششیں جاری تھی یا ہیں وہ کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہو رہی تھی۔ ان کو ایک حد تک اسٹیبلیشمنٹ کی بھی حمایت حاصل تھی۔ کیونکہ سب کو اس بات کا بخوبی انداز تھا کہ موجودہ سیاسی ڈیڈ لاک یا بداعتمادی کے ماحول میں حکومت اور حزب اختلاف کا مل کر بیٹھنا ممکن نہیں ہو گا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ منطق یہ دی گئی تھی کہ جب تک کوئی تیسرا فریق یعنی اسٹیبلیشمنٹ اس خیال کی حمایت نہیں کرے گی اور وہ فریقین کے پیچھے نہیں ہوگی تو بات چیت کے مثبت نتائج ممکن نہیں ہوں گے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک طرف حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کے خلاف سخت گیر موقف کے ساتھ سیاسی میدان میں مقابلہ کر رہے تھے تو دوسری طرف کچھ لوگ پس پردہ مفاہمت کا راستہ بھی تلاش کر رہے تھے۔ کیونکہ جو حالیہ سطح کا بحران ہے اس کا علاج کسی ایک فریق کے پاس نہیں۔ جب تک تمام فریقین آپس میں بیٹھ کر کوئی مفاہمتی یا اتفاق رائے پر مبنی راستہ نہیں نکالیں گے کچھ ممکن نہیں ہو سکے گا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حالیہ ایک انٹرویو میں اس بات کا مثبت اشارہ دیا ہے کہ بات چیت کافی حد تک ہو چکی ہے اور ایک بڑے سیاسی بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔ یہ اشارے محض صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ہی نہیں دیے بلکہ کچھ اشارے دیگر اہم فریقین کی جانب سے بھی مل رہے ہیں کہ کچھ نہ کچھ برف پگھلنے والی ہے۔ مثلاً کہا جا رہا ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے حکومت اور عمران خان کی اپنے اپنے موقف کے درمیان میں سے ایک ایسا راستہ بنایا جا رہا ہے کہ اگلے برس شروع میں عام انتخابات کو یقینی بنایا جا سکے۔

عمران خان کی جانب سے بھی یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اگر عام انتخابات پر اتفاق ہوتا ہے تووہ یا ان کی جماعت دیگر معاملات پر حکومت کے ساتھ بات چیت یا لیول پلینگ فیلڈ کو یقینی بنانے کے اقدامات میں ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہے۔ خود پچھلے دنوں مسلم لیگ نون کے اہم راہنما خواجہ سعد رفیق نے بھی اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ عام انتخابات سے قبل ہم Level Playing Field کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اس بھی صاف لگتا ہے کہ ان کو یا ان کی جماعت کو بھی لگتا ہے کہ ان کی جماعت کے لیے موجودہ حالات انتخابات کے لیے سازگار نہیں۔ یعنی ان کو ڈر لگ رہا ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات اور ان کے نتائج ہمارے مقابلے میں عمران خان کو فائدہ دیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ level Playing field سے کیا مراد ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابی میدان میں تمام سیاسی فریقین کو برابری، آزادانہ اور منصفانہ مواقع میسر ہونے چاہیے۔ اس وقت جہاں اہم سوال نئے انتخابات کا ہے تو وہیں اس سے بھی بڑھ کر اہم سوال ملکی سطح پر ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر ہے۔ کیونکہ اگر انتخابات کے نتیجے میں نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا اور نئے بحران کو جنم دیا گیا تو انتخابی عمل بھی ہمارے سیاسی بحران کو حل نہیں کرسکے گا۔

اس لیے بہتر ہے کہ جو بھی سیاسی فریقین ہیں چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہے یا حزب اختلاف سے ان کو منصفانہ اور شفاف انتخابات کے تناظر میں ایک لیول پلینگ فیلڈ یا اصلاحات سمیت اسٹیبلیشمنٹ کی عدم مداخلت پر کچھ نہ کچھ طے کر کے کی انتخابی عمل کا حصہ بننا چاہیے۔ جو لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ موجودہ حالات میں انتخابات کا مقصد عمران خان کو فائدہ دینا ہے تو ان کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ انتخابات میں جتنی بھی تاخیر ہوگی اس کا براہ راست نقصان بھی موجودہ حکمران طبقہ اور بالخصوص مسلم لیگ نون کو ہی ہو گا اور ایک بھاری قیمت ان کو انتخابی عمل میں دینی پڑے گی۔

کیونکہ جو حکومت کی کارکردگی ہے اور جس تیزی سے سیاسی اور معاشی نظام پر حکومتی گرفت کمزور ہو رہی ہے یا لوگوں میں حکومتی کارکردگی پر ماتم ہے تو یہ کھیل اگلے چند مہینوں میں ختم نہیں ہو گا۔ اس کا اعتراف حکومتی سطح پر بھی اور وزیر خزانہ سمیت دیگر مسلم لیگ کی قیادت کہہ رہی ہے کہ اس حکومت اور عوامی کارکردگی کی صورت میں لوگوں میں حکمران اتحاد پر شدید سطح کا غصہ ہے۔ اسی طرح کوئی ایسی جادوئی چھڑی بھی حکومت کے پاس موجود نہیں جس سے فوری طور پر لوگوں میں پائی جانے والی معاشی سطح کی مایوسی کو ایک بڑے ریلیف میں تبدیل کیا جا سکے۔ مولانا فضل الرحمن کی اس منطق کو کہ اسمبلیوں کی مدت میں ایک برس کی توسیع کردی جائے ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اور اس کی ساکھ کہاں کھڑی ہے۔

اس لیے انتخابات سے فرار یا انتخابات میں تاخیری حربوں کی حکمت عملی کارگر نہیں ہو سکے گی۔ خود اسٹیبلیشمنٹ کو بھی یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ اس وقت موجودہ حکمرانوں کی موجودگی سے سیاسی بحران حل کی طرف نہیں بڑھ سکے گا۔ حکومتی بے یقینی کے مسائل اس وقت محض داخلی سطح تک ہی محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ہمیں کافی سیاسی تنہائی کا سامنا ہے۔ معاشی سطح پر بھی بڑے ممالک یا ادارے ایک غیر یقینی صورتحال میں ہماری کیسے معاشی مدد کرسکیں گے وہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments