بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر: دہلی پولیس اور ’مجاہدین‘ کے درمیان ہونے والا وہ مقابلہ جس پر آج بھی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا


فلیٹ 108
بٹلہ ہاؤس کے علاقے میں فلیٹ نمبر 108 کا منظر۔

یہ وہی فلیٹ ہے جہاں 19 ستمبر 2008 کی صبح گولیاں چل رہی تھیں۔ گولیوں کی آواز نہ صرف اس علاقے میں سُنی گئی بلکہ خبروں کی صورت میں یہ انڈیا کے ہر بڑے نیوز چینل کی سکرینوں پر چھائی ہوئی تھیں۔

یہ فلیٹ دہلی کے جامعہ نگر کے بٹلہ ہاؤس کے علاقے میں واقع ہے۔ 14 سال قبل ’L-18‘ نامی عمارت کے اس فلیٹ پر پولیس کی جانب سے دستک دی گئی۔ دستک دینے کی دیر تھی کہ اندر سے فائرنگ شروع ہو گئی۔

اس فائرنگ کے نتیجے میں انسپکٹر موہن چند شرما اور حوالدار بلونت کو گولیاں لگیں۔ انسپکٹر موہن چند کی اُسی دن شام کو ہسپتال میں وفات ہو گئی۔

جوابی فائرنگ میں فلیٹ میں موجود دو افراد عاطف امین اور محمد ساجد ہلاک ہو گئے جبکہ محمد سیف کو گرفتار کر لیا گیا۔ مبینہ پولیس مقابلے کے بعد دہلی پولیس نے دعویٰ کیا کہ فلیٹ میں موجود دو افراد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جنھیں بعد میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔

فرار ہونے والوں میں عارف خان اور شہزاد احمد شامل تھے۔ بعدازاں پولیس والے کی ہلاکت کے جرم میں عارف خان کو دہلی کی عدالت نے موت کی سزا سنائی جبکہ شہزاد عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

پولیس کی اس کارروائی کو ’بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر‘ کا نام دیا گیا۔ دہلی پولیس کا دعویٰ تھا کہ انھیں فلیٹ نمبر 108 میں چھپے کچھ انڈین مجاہدین کے بارے میں معلومات ملی تھیں، جن کا تعلق دہلی بم دھماکوں سے تھا۔

یہ اطلاع موصول ہونے کے بعد دہلی پولیس کے سپیشل سیل کی ایک ٹیم یہاں پہنچی۔ یاد رہے کہ 13 ستمبر 2008 کو دہلی میں یکے بعد دیگرے پانچ بم دھماکے ہوئے تھے جن میں 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس انکاؤنٹر کو فرضی کارروائی یا جعلی مقابلہ قرار دیا تھا۔ عدالت سے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا گیا لیکن عدالت نے ایسی کوئی انکوائری کروانے سے انکار کر دیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی خبر بھلے ہی میڈیا سے دور ہو گئی ہوں لیکن یہاں رہنے والوں کے دل و دماغ میں اس واقعے کا خوف اب بھی موجود ہے۔

बिल्डिंग

وہ عمارت جس میں فلیٹ واقع ہے

کوئی اس بارے میں بات نہیں کرتا

اس رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ اتنے عرصے بعد وہ فلیٹ کیسا ہے جہاں انکاؤنٹر ہوا، اس عمارت میں رہنے والے کون لوگ ہیں اور اس واقعے کے بارے میں اُن کا کیا خیال ہے؟ اہم بات یہ ہے کہ انکاؤنٹر کے بعد بٹلہ ہاؤس کتنا بدل گیا ہے؟

بٹلہ ہاؤس جامعہ ملیہ اسلامیہ میٹرو سٹیشن سے دس منٹ کی مسافت پر ہے۔ میٹرو سٹیشن سے رکشہ پکڑ کر، آپ ٹریفک کی گڑگڑاہٹ سنتے ہوئے پانچ منٹ میں پرہجوم بازار میں پہنچ جاتے ہیں۔ بٹلہ ہاؤس چوک پر اُترنے پر قریب ہی ایک مسجد نظر آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عابد حسین ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ عابد باکسر کیسے بنا؟

چوہدری اسلم: ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ کہلائے جانے والے پولیس افسر ہیرو تھے یا ولن؟

سونے کی سمگلنگ میں انڈیا کی اجارہ داری ختم کرنے والے پاکستان کے ’گولڈ کنگ‘ سیٹھ عابد

مسجد کے باہر کچھ پھلوں کے ٹھیلے، کچھ دکانیں اور گاڑیاں مسافروں کے انتظار میں نظر آتی ہیں۔ 14 سال پہلے انکاؤنٹر کے دن دہلی پولیس نے مسجد کے قریب رکاوٹیں لگا دی تھی تاکہ کوئی بھی شخص مسجد کے پیچھے والے علاقے میں داخل نہ ہو سکے۔

مسجد کے پیچھے ایک گلی ہے جہاں L-18 نامی عمارت میں پولیس مقابلہ ہوا تھا، لیکن مسجد کے قریب کوئی بھی اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ ایک شخص نے بتایا کہ کرسی پر بیٹھے بزرگ برسوں سے اس علاقے میں کافی عرصے سے مقیم ہیں، شاید وہ کچھ بتائیں۔

جب پان چباتے بزرگ سے بات شروع کی تو انھوں نے کہا کہ وہ یہاں چند سال پہلے ہی آئے ہیں اور یہ کہ انھیں کچھ معلوم نہیں۔ یہ واضح تھا کہ وہ اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔یہی حالت ایک آٹو ڈرائیور کی بھی تھی۔ کوئی کچھ بتانے کو تیار نہیں تھا۔

وہ فلیٹ جہاں انکاؤنٹر ہوا تھا

बटला हाउस

مسجد سے تقریباً پچاس قدم کے فاصلے پر پچھلی طرف ایک گلی ہے جس میں L-18 عمارت موجود ہے۔ گلی کے دونوں طرف چار چار منزلہ عمارتیں ہیں۔ کچھ عمارتوں کے نیچے دکانیں ہیں تو کچھ میں گاڑیاں کھڑی کرنے کے لیے پارکنگ ہے۔

چار منزلہ L-18 عمارت کے دونوں طرف اسی طرح کی اونچی عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ نیچے گیٹ کے قریب L-18 نام کی ایک پلیٹ ہے۔ عمارت میں داخل ہونے کے لیے لوہے کا ایک بڑا گیٹ ہے جس سے آسانی سے آر پار دیکھا جا سکتا ہے۔

گراؤنڈ فلور پر پارکنگ کی جگہ بنائی گئی ہے جس میں دو کاریں کھڑی ہیں، اس کے ساتھ ایک فیملی بھی رہتی ہے۔ عمارت کے بائیں جانب سے اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں ہیں۔

گھر برسوں سے بند پڑا ہے

ہر منزل پر دو فلیٹ ہیں۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پتہ چلا کہ فلیٹ کے باہر تالا لٹکا ہوا ہے۔ فلیٹ نمبر 108 کا دروازہ سامنے نظر آتا ہے جہاں سے چوتھی منزل کی سیڑھیاں ختم ہوتی ہیں۔

فلیٹ کے باہر دو دروازے ہیں۔ ایک دروازہ سیڑھیوں کی طرف کُھلتا ہے اور دوسرا دروازہ سامنے والے فلیٹ کی طرف۔ اس کے بعد سیڑھیاں چڑھنے پر عمارت کی چھت نظر آتی ہے۔

19 ستمبر 2008 کی صبح بٹلہ ہاؤس کے لوگوں نے اس فلیٹ سے فائرنگ کی آواز سُنی تھی لیکن آج یہ گھر خاک آلود ہے۔ گھر کے ایک دروازے پر لگے تالے کو زنگ لگ چکا ہے۔ اس پر کسی نے اوپر سے پینٹ کیا ہے تو دوسرا دروازہ اندر سے بند ہے۔

دروازے کے اوپر ایک اے سی بھی لٹکا ہوا ہے جو برسوں سے بند ہے۔ پاس ہی ایک کوڑا دان رکھا ہوا ہے۔

چوتھی منزل پر ہی ایک فیملی دوسرے فلیٹ میں رہتی ہے جس کی دیوار پر نیا بلب لگا ہوا ہے جبکہ فلیٹ نمبر 108 کے باہر نصب بلب برسوں سے تبدیل نہیں کیا گیا۔ ایسا بلب پوری عمارت میں کہیں نظر نہیں آتا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں برسوں سے کوئی رہنے نہیں آیا۔

बटला हाउस का मकान

’یہ فلیٹ جیل جیسا ہے‘

فلیٹ نمبر 108 کب سے بند ہے؟ عمارت میں رہنے والے ایک شخص سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو اس نے بند دروازے کے پیچھے سے بات کرنے کو ترجیح دی۔ جالی والے دروازے کے پیچھے کھڑے شخص کو دیکھنا بہت مشکل تھا، صرف آواز سُنی جا سکتی تھی۔

اُس شخص نے بتایا کہ ’یہ گھر انکاؤنٹر کے بعد سے بند ہے، یہ دروازے کبھی نہیں کُھلتے۔ یہ فلیٹ انڈمان کی سیلولر جیل جیسا ہے۔ اب یہاں کوئی آتا ہے، نہ رہتا ہے، نہ کوئی اس بارے میں بات کرتا ہے۔ اگر کوئی چور بھی آ کر اس گھر میں داخل ہو جائے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘

دروازے کے پیچھے اندھیرے میں کھڑا آدمی اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ گھر کی قیمت کتنی ہوگی؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتا ہے۔ ’اس عمارت میں ایک شخص اپنا فلیٹ بیچنا چاہتا تھا، اس نے 45 لاکھ مانگے تھے، کم از کم 40 لاکھ لگیں گے، لیکن اس فلیٹ میں کون رہنا چاہے گا؟ یہ ایک بند گلی کی طرح ہے۔ یہ جس کا بھی ہے اُس کا سارا پیسہ ضائع ہو گیا ہے۔‘

14 سال گزرنے کے بعد بھی عمارت میں رہنے والے شخص کا خوف واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جامعہ ٹیچرس سالیڈیرٹی گروپ نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک طویل رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ فلیٹ محسن نثار نامی شخص کی ملکیت ہے۔

बटला हाउस इलाके का फ्लैट नंबर 108

’علاقے میں کوئی ٹیکسی نہیں آتی تھی‘

عمارت کے باہر ایک پڑوسی ملا، جو انکاؤنٹر کے دن اس گلی میں موجود تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے وہ سب کچھ بتا دیا جو ہمیں کہنا تھا، اب کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ سب جھوٹ بولتے ہیں، لوگوں نے جھوٹ بول کر اسے سچ بنا دیا ہے۔ سچ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘

جب میں نے گلی میں رہنے والے کئی دوسرے لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کی تو اکثر لوگوں کا ایک ہی جواب تھا، ’ہم یہاں چند ماہ پہلے ہی آئے ہیں، ہم کہیں اور رہتے تھے، ہمیں نہیں معلوم۔‘

گلی سے گزرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ سال 2008 میں انکاؤنٹر کے بعد کئی سالوں تک کوئی ٹیکسی اس علاقے میں نہیں آتی تھی، اگر کسی کو ریلوے سٹیشن، ایئرپورٹ سے گھر آنا ہوتا تو ٹیکسی ڈرائیور علاقے کا نام سنتے ہی انکار کر دیتے۔ ’یہاں کے رہنے والے ان پرانے دنوں کو یاد نہیں کرنا چاہتے۔‘

जामिया टीचर्स सॉलिडेरिटी

پولیس مقابلے میں ہلاک اور گرفتار ہونے والے کون تھے؟

عاطف امین

گروپ کی رپورٹ کے مطابق انکاؤنٹر کے وقت عاطف امین کی عمر 24 سال تھی۔ عاطف اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے سرائیمیر علاقے کے رہنے والے تھے۔ اس وقت وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے ہیومن رائٹس میں ایم اے کر رہے تھے۔

عاطف دو سال سے دہلی میں تھے۔ بٹلہ ہاؤس سے پہلے وہ دہلی کے جسولا وہار علاقے میں رہتے تھے۔ انکاؤنٹر کے بعد پولیس نے عاطف کو دہلی بم دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ بتایا تھا۔

محمد ساجد

رپورٹ کے مطابق بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے وقت محمد ساجد کی عمر 17 سال تھی۔ ساجد اعظم گڑھ کے سنجر پور علاقے کا رہنے والا تھا۔ مقابلے کے وقت وہ 11ویں جماعت کے طالبعلم تھے۔

مقابلے کے بعد پولیس نے کہا تھا کہ محمد ساجد بم بنانے کا کام کرتا تھا۔

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں عاطف امین اور ساجد مارے گئے۔

اعظم گڑھ کے سماجی کارکن طارق شفیق کے مطابق عاطف امین کے خاندان میں ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا جبکہ اُن کے بڑے بھائی دہلی میں صحافی تھے، اُن کا بھی اب انتقال ہو چکا ہے۔ اب گھر میں بات کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

ساجد کے والد کا بھی انتقال ہو چکا جبکہ ان کا ایک بھائی ہے جو ذہنی طور پر تندرست نہیں اور ان کے خاندان میں بھی اس معاملے پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔

مقابلے کے وقت خان، شہزاد احمد فرار ہو گئے تھے جنھیں بعد میں پولیس نے پکڑ لیا۔ خان کو عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی جسے انھوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ دوسری جانب شہزاد احمد کو بھی عدالت نے 2013 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

مزید پڑھیے

گردن توڑ کر قتل کرنے والا لاہور کا مالشیا ’سیریل کِلر‘ کیسے بنا؟

مفخر عدیل کیس: ’لاش ہے نہ آلۂ قتل، اب وجۂ عناد پر بھی سوال اٹھ رہا ہے‘

کشمیر میں عام لوگوں کی گاڑیاں انڈین فوج کی ’ڈیوٹی‘ کیوں اور کیسے دیتی ہیں؟

سماجی کارکن طارق شفیق کے مطابق بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں آریز کا نام سامنے آنے پر ان کے والد کو شدید صدمہ پہنچا تھا اور چند ہی دنوں میں اُن کی موت ہو گئی تھی۔

جبکہ شہزاد کے خاندان کے افراد اعظم گڑھ میں رہتے ہیں، خاندان والے اب اس واقعے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔

راشٹریہ علما کونسل پارٹی کے یو پی کے ریاستی صدر نورالہدیٰ نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا کہ ’بی جے پی کو کم از کم بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کیس کی عدالتی تحقیقات کروانی چاہییں۔ ہم 14 سال سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔‘

’ہم نے کئی بار اس مطالبے کے حق میں مظاہرے کیے اور حکام سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا۔ ہمارے علاقے اعظم گڑھ پر جو بدنما داغ لگایا گیا ہے، اسے عدالتی تحقیقات سے ہی دھویا جا سکتا ہے۔‘

دوسری جانب انکاؤنٹر میں مارے گئے موہن چند شرما کی اہلیہ مایا شرما سے بھی بات کرنے کی کوشش کی گئی تو ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments