ٹرانس جینڈر ایکٹ


خطہ برصغیر کی سرشت میں شامل ہے کہ گھی سیدھی انگلی سے نکلتا بھی ہو تو انگلی ٹیڑھی کرنا لازمی ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ”ٹرانس جینڈر“ بل پیش خدمت ہے۔ اس بل کا اصل مقصد تو ٹرانس کی حفاظت، آزادی، عزت نفس، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی انسانی ضروریات کو یقینی بنا تھا اور بلاشبہ یہ اقدام قابل تعریف ہیں کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے مگر اسی بل کے ضمن میں سوشل میڈیا پر ایک ایسا بے ہنگم تصادم ہے جہاں کان پڑی آواز سنی نہ دے۔ شاید اب کی بار مذہبی طبقہ فکر کہیں نا کہیں حق بجانب بھی ہے! کیسے؟

وہ کچھ یوں کہ باوجود اس کے کہ بل کا متن سے یہ بات واضح ہے کہ یہ سائنسی فیکٹ کہ کسی بھی انسان کی جنس اور جنسی رجحانات کا اندازہ اس کے جسم سے لگانا درست نہیں ( یہی وجہ ہے کہ بل کے چیپٹر ( 1 ) ، شق ( 2 ) کی ذیلی شق (e) اور (f) کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا گیا) مذہبی طبقہ فکر کا اس سائنسی فیکٹ کو ماننا بہت خوش آئند ہے۔

بل کے چیپٹر ( 2 ) کی شق ( 3 ) میں جو ٹرانس جینڈر کی جنسی پہچان کا طریقہ کار ہے اس میں لفظ ”self perceived“ یعنی ”ذاتی فہم“ کا ہونا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟ کیا سماج کے ہر فرد کو یہ آزادی بلکہ آوارگی دی جا سکتی کہ وہ اپنے جنسی رجحان (sexual orientation) کے مخالف جا کر بھی کسی ذاتی اور انحطاطی مقصد کے تحت خود کو مختلف جنس گردان لے اور کیا صرف کسی بھی شخص کا یہ دعویٰ میڈیکل سائنس سے ماورا اتنا مستند مانا جاسکتا کہ اس ایک دعوے کی بنیاد پر اسے مخالف جنس کے طور پر رجسٹرڈ کر لیا جائے اور مخالف جنس کے تمام تر پروٹول دے دیے جاویں۔

یقیناً کسی بھی دائیں اور بائیں بازو کا سماج اس آوارگی کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ آزادی جنسی انارکی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی۔ سو اصولاً اگر کوئی شخص اپنی فطرت میں اپنی ظاہری جنسیات کے برخلاف رجحان محسوس کرتا ہے تو اس کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا راستہ اپنایا جاسکتا تاکہ جدید سائنسی تکنیکات کی بنیاد پر اس کے دعوے کی حقانیت جانچ لی جائے اور اگر اس شخص کا فطری رجحان واقعی مختلف ہو تو اسے ظاہری و جسمانی اعضاء کی بنیاد پر کسی ایک جنسی دائرے میں قید نہ رکھا جائے۔

اب یہاں مذہبی طبقہ اس بات پر مکمل قائل ہے کہ مختلف میڈیکل بورڈز بنا دیے جائیں مگر بائیں بازو کے اپنے دوست اس انداز کے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے مطالبے میں قباحت محسوس کرتے ہیں سو ایسے میں متذکرہ بالا سوالات کے جواب انارکیئل انتشار (anarchical disrupt) سے پہلے آ جانے چاہئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments