سیاسی مخالفت میں اندھے ہو کر سیلاب زدگان کو امداد نہ دینے کا کربناک مطالبہ


یہ سن دو ہزار کی بات ہے۔ پاکستان میں آمریت اپنے پورے کر و فر سے براجمان تھی۔ میں امریکی سفارتخانے میں وہاں کے سیاسی امور کے ماہر شکیل چودھری سے تبادلہ خیالات کی غرض سے موجود تھا۔ میں اکتوبر 1999 کے آخری ہفتے میں آمریت کے خلاف پریس کانفرنس نتائج کی پرواہ کیے بنا کر چکا تھا جس پر محترم و مکرم ارشاد احمد حقانی مرحوم نے مجھ کو محبت آمیز ڈانٹ بھی پلائی تھی کہ تم ابھی جوان ہو اور آمریت خون خوار ہوتی ہے ایسا نہ ہو کہ تم کو کوئی غیر معمولی نقصان پہنچا دیا جائے۔

بہر حال میں اس پس منظر کا تذکرہ اس لئے دوہرا رہا ہوں کہ قارئین کرام اندازہ قائم کر سکیں کہ میں کن حالات میں اور کن نظریات کے ساتھ امریکی سفارت خانے میں موجود تھا۔ ابھی میری شکیل چودھری سے ملاقات کو چند ثانیے ہی گزرے تھے کہ ایک امریکی خاتون وہاں پر آ پہنچی اور آنے کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مجھے شکیل چودھری نے آپ کی آمد سے مطلع کیا تھا میرا نام ایلس ویلز ہے اور یہ وہ ہی ایلس ویلز ہے جو ابھی ماضی قریب میں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا تھی۔

ایلس ویلز سے یہ میرے تعارف کی ابتدا تھی۔ اس وقت موضوع گفتگو صدر کلنٹن کا دورہ پاکستان تھا اور آمریت کے سبب صدر کلنٹن پاکستان کے دورے سے اجتناب بھی کر سکتے تھے۔ ایلس ویلز نے مجھ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے خیال میں صدر کلنٹن کو دورہ پاکستان کرنا چاہیے؟ اگر پرویز مشرف کو ذہن میں رکھتا تو اس کا جواب نہیں ہوتا مگر میں نے ان کو کہا کہ میرے خیال میں صدر کلنٹن کو دورہ پاکستان ضرور کرنا چاہیے کیونکہ وہ فوجی آمر سے نہیں بلکہ ریاست پاکستان سے گفت و شنید کرنے آرہے ہیں۔ اور ریاست پاکستان کا مفاد ہر معاملے سے بلند اور غیر ذمہ داری ہو گی کہ میں آپ کے سامنے صدر کلنٹن کے دورہ پاکستان کی مخالفت کروں۔

میں نا کس سرکاری عہدے پر تھا اور نہ ہی رہا تھا مگر ایک عام پاکستانی شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری گردانتا تھا اور گردانتا ہوں کہ سیاسی مخالفت، پسند ناپسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف پاکستان کے مفاد میں گفتگو کی جانی چاہیے۔ مگر میں اس وقت ششدر رہ گیا جب حالیہ سیلاب سے ایسی بدترین آفت کہ جس میں ایک تہائی پاکستان ڈوب گیا مگر عمران خان اور ان کی جماعت دنیا کو یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان کو اس آفت کے اثرات سے نکلنے کے لئے امداد مت دے۔

سیلاب زدگان کو عارضی ریلیف دینے سے لے کر ان کے نقصانات کا ازالہ کرنے تک کے لئے کہ ان کی زندگیاں معمول کے مطابق ہو جائے پاکستان کو بین الاقوامی برادری کی امداد درکار ہے۔ یہ مصیبت زدگان عام پاکستانی شہری ہیں ان کا کوئی بھی علاقائی لسانی سیاسی یا مذہبی پس منظر ہو سکتا ہے مگر عمران خان کو اس کی پروا نہیں ہے اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے حکمران بن گئے ہے کہ جن کو رائج جمہوری اصولوں کے تحت پارلیمان نے اقتدار سے بے دخل کر دیا ہے۔

ایسا رویہ وہ بھی ایک ایسے شخص کی جانب سے جو وزیراعظم کے منصب تک سلیکٹ ہو چکا ہو کربناک حیرت ہوتی ہے۔ اور یہ کوئی ”زبان کا پھسلنا“ نہیں ہے کہ جس کے لیے وہ معروف ہے یہ منفی مہم میڈیا میں بھی رواں دواں تھی مجھے ایک معروف نیوز چینل کے انویسٹیگیشن ہیڈ نے اپنے چینل پر خبر چلا دی اور مجھے بھی بھیجی کہ شنگھائی کوآپریشن کانفرنس میں وزیر اعظم شہباز شریف کی چین اور روس کے صدور سے ملاقاتیں نہیں ہو رہی ہیں میں نے اسی لمحے ان کو فون پر بتایا کہ آپ کی معلومات درست نہیں ہے بلکہ ان کی ملاقاتیں ان دونوں صدور سے ہو رہی ہیں جس کے بعد انہوں نے اپنے چینل پر غلط خبر کو روک دیا اور درست خبر کو چلانا شروع کر دیا۔

اب خیال رہے کہ یہ پروپیگنڈا اس وقت کیا گیا کہ جب پاکستان شنگھائی کوآپریشن کانفرنس جیسی تنظیم میں جو کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی کے ساتھ بیس ٹریلین ڈالر سے زیادہ جی ڈی پی رکھتی ہے میں اپنا سیلاب کا درد بیان کر رہا تھا۔ پاکستان روس سے گیس پائپ لائن جیسی اپنی بنیادی ضرورت پر مثبت بات چیت کرنے والا تھا جب کہ چینی صدر شی کہہ رہے ہو کہ وزیراعظم شہباز شریف عملیت پسندی اور کارکردگی کے حامل شخصیت پاک چین دوستی کے لیے دیرینہ عزم رکھتے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو بتا رہے ہو کہ ایسی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ان حالات میں تو بڑی سے بڑی سیاسی مخالفت کی زبان کو تالے لگ جاتے ہیں۔ اور اب وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ بھی جا رہے ہیں جہاں پر وہ سیلاب کی تباہ کاریوں اور موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کو لاحق خطرات پر دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ رکھیں گے۔ اس دورے میں وزیراعظم کو امریکی پاکستانیوں کو زیادہ وقت دینے کی بجائے ان افراد پر زیادہ فوکس کرنا چاہیے جو امریکہ میں، ان کے پالیسی ساز اداروں میں اہمیت رکھتے ہیں اور اگلے دو تین عشروں تک توقع ہے کہ وہ اہم رہیں گے۔ ماضی میں دیکھنے آیا ہے کہ ہمارے حکمران خود ہی تنازعات پر کام کرنے والے تھنک ٹینکوں میں چلے جاتے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم صرف تنازعات میں جی رہے ہیں۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے بلکہ ایسے تھنک ٹینکوں میں جانا چاہیے جو کہ پالیسی سازی پر اثر رکھتے ہیں۔ کیونکہ ایسے اداروں میں ترجیحات کا تعین ہوتا ہے۔ یہ دورہ اس لئے اور بھی کٹھن ہے کہ پی ٹی آئی اپنے بیانات کے ذریعے نقصانات پہنچانے سے باز نہیں آ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments