بھارت میں آنلائن اور آف لائن سپیسز میں غیر محفوظ خواتین


سوشل میڈیا کے بارے میں ایک اورینٹیشن سیشن کی تیاری شروع کی، انٹرنیٹ کھنگالا تو بدقسمتی سے جو دو ٹاپ ٹرینڈز سامنے آئے ان میں پہلا بھارت کی چندی گڑھ یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل کی لیک ویڈیوز کا سکینڈل تھا، اور دوسرا ایک لڑکی کی لیک ویڈیو تھی جو اس کے دوست نے تعلق ٹوٹنے کے بعد انٹرنیٹ پر اپلوڈ کردی تھی۔ گزشتہ دو تین دن میں اس ایک ویڈیو پر لاکھوں ویوز آچکے ہیں، بدقسمتی سے اس لڑکی کا تعلق بھارت سے بتایا جا رہا ہے، تعلق ٹوٹنے پہ ریوینج پورن لیک کرنے والا المیہ اب بہت عام ہوتا جا رہا ہے لیکن یونیورسٹی والا واقعہ نہایت دل دہلا دینے والا ہے کہ سینکڑوں ویڈیوز چندی گڑھ یونیورسٹی کی ناک کے نیچے ریکارڈ ہو کر پورن ویب سائٹس پر فروخت ہوتی رہیں۔

جب وہ وائرل ہوئی تو دو لڑکیوں نے خودکشی کی کوشش کی جس کی وجہ سے یونیورسٹی اور ملک بھر کے طلبا نے احتجاج کیا جس میں طلبا نے کئی مطالبات پیش کیے جن میں سے انتظامیہ نے تین مطالبات قبول کیے پہلا، دس طلبا پر مشتمل تفتیشی ٹیم قائم کی گئی، دوسرا ہاسٹل وارڈن معطل کر دیا گیا اور تیسرے میں گرلز ہاسٹل کی چیکنگ کا مطالبہ کیا کہ اگر کہیں مزید خفیہ کیمرے نصب ہوں تو ان کی چھان بین کر کے ہٹا دیا جائے۔ مزید یہ کہ انٹرنیٹ پر جو ویڈیوز اپلوڈ ہو چکی ہیں ان کو وہاں سے ہٹایا جائے۔

طالبات اس صدمے اور اس احتجاج کے نتیجے میں یونیورسٹی کو 24 ستمبر 2022 تک بند کر دیا گیا ہے۔ نامزد ملزمان میں ایک یونیورسٹی سٹوڈنٹ، اس کا بوائے فرینڈ اور ان کا دوست شامل ہیں، ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا ہے لیکن طالبات کو یونیورسٹی انتظامیہ کے رویے پر کئی تحفظات ہیں کہ وہ اپنی بدنامی کے ڈر سے حقائق کو مسخ کر رہی ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت مان سنگھ نے تین رکنی خواتین کی تفتیشی ٹیم قائم کی ہے جو طالبات کے ان تحفظات کو دور کرے گی لیکن طالبات احتجاج کے دوران بارہا یہی شکوہ کرتی ہیں کہ ریاست خواتین کو آنلائن اور آف لائن سپیس پر تحفظ دینے میں ناکام ہے۔ انڈین پینل کوڈ دفع 292 اور 293 کے مطابق کسی کی ذاتی یا غیر اخلاقی ویڈیوز بنانا، دوسروں تک پہنچانا، ان کی نمائش کرنا یا ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر پھیلانا قابل گرفت جرم ہے۔

اس کے باوجود ہندوستانی پورن ویب سائٹس پر روزانہ کی بنیاد پر خواتین کی ایسی ویڈیوز مسلسل اپلوڈ کی جاتیں ہیں۔ طالبات نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ انڈین سائبر کرائم کوآرڈینیشن سینٹر ان غیر اخلاقی مجرمانہ سرگرمیوں کا نوٹس بھی لے اور ان تمام ویڈیوز سمیت وہ تمام مواد انٹرنیٹ سے ہٹائے جو کہ خواتین کی لاعلمی میں شوٹ کر کے انٹر نیٹ پر اپلوڈ کیا جاتا ہے۔ آئی پی ایڈریس اور دیگر معلومات کے ذریعے ان مجرموں تک پہنچ کر ان کو عبرت کا نشان بنایا جائے جن کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں طالبات اور دیگر خواتین ایک ایسے شدید نفسیاتی صدمے سے گزرتی ہیں کہ ان کو اس سے نجات کا واحد رستہ خود کشی کا نظر آنے لگتا ہے۔

سیاسی رہنما اور اداکارہ کرن کھیر نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ چندی گڑھ یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقع سے اخلاقی طور پر ہل کر رہ گئی ہیں، اس ادارے میں پیش آنے والے واقعے سے پورے ملک کی جگ ہنسائی ہوئی ہے، انہوں نے اس واقعے سے متاثرہ خواتین اور ان کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی بھی کیا ہے۔ اس ٹویٹ پہ طالبات نے دوبارہ یہی مطالبہ کیا کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوئی ایسی قانون سازی کی جائے جس پر واقعی عمل درآمد ہو اور اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔

مزید آگے کچھ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان طالبات کے تحفظات بالکل جائز تھے، انڈین نیشنل کرائم بیورو کے مطابق ہندوستان میں روزانہ جنسی استحصال کے اوسطاً 86 واقعات ہوتے ہیں اور یہ صرف وہ واقعات ہیں جو کہ رپورٹ کر دیے جاتے ہیں۔ 2020 کی نسبت ہندوستان میں پچھلے دو برس میں جنسی زیادتی کے واقعات 19 فیصد کی شرح سے بڑھے ہیں اور اس میں کم عمر بچوں کے واقعات بھی خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔ 14 ستمبر کو لکھمی پور کھیری اتر پردیش کے علاقے میں 14 اور 17 سال کی دو بہنوں کو اغوا، اور ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا اور بعد میں ان کی لاشیں ان کے دوپٹوں کے ساتھ درخت کے ساتھ لٹکا دی گئیں، اس واقعہ پر علاقے میں شدید غم و غصہ پھیلا، واقعہ میں نامزد 6 ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا۔

اترپردیش بیس کروڑ کی آبادی کے ساتھ سب سے بڑی ریاست ہے اور یہاں پر نچلی ذات کے ہندؤں خصوصاً خواتین کے ساتھ اس قسم کے جرائم کی فہرست کافی طویل ہے، نائب وزیراعلی براجیش پاتھک کے مطابق ریاست ان واقعات کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے۔ لیکن وہاں کی لوکل پولیس کے مطابق مقتول لڑکیاں اپنی مرضی سے ملزمان کے ساتھ گئیں تھیں اور اس لئے یہ اغوا کا مقدمہ نہیں ہے، اتنے گھناونے جرم کے بعد اگر عوام کی حفاظت پر معمور ادارے ہی مظلوم کو ذمہ دار ٹھہرائیں تو یہ نہایت سنگین معاملہ ہے، عوام کے احتجاج پر پولیس نے یہ بیانیہ تو بدل دیا لیکن یہ رویہ بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کی عکاسی کرتا ہے۔

جب تک ریاست اور ذمہ دار ادارے خواتین کا آنلائن اور آف لائن سپیس پر تحفظ یقینی نہیں بنائیں گے، تب تک بھارت خواتین کے خلاف ایسے جرائم میں نمایاں نظر آتا رہے گا، وہاں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کو کسی حد تک قبول کر چکے ہیں تبھی شاید اس کے تدارک کے لئے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments