ٹرانس جینڈر ایکٹ اور مفروضے


ٹرانس جینڈر ( جنہیں اردو میں مخنث، خواجہ سرا یا ہیجڑے کہہ سکتے ہیں) کی غیر مصدقہ طور پرپاکستان میں تعداد دس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ یہ معاشرے کا وہ نظرانداز شدہ اور پسا ہوا طبقہ ہے جن کے لئے کبھی کوئی کام نہیں ہوا۔ یہ مانگ تانگ اور ناچ کر گزارا کرتے ہیں۔ مشرف دور میں ان کے حقوق اور نوکریاں دینے کی بات ہوئی۔ پچھلے ادوار میں بڑے شہروں اورسرکاری نوکریوں پرکچھ ٹرانسجینڈر افراد نظر بھی آئے لیکن ان کو کام والی جگہوں پر بھی تنگ کیا جاتا رہا، بہت سی جگہوں پر وہ تنگ آکر نوکریاں چھوڑ گئے۔ حال ہی میں خواجہ سرا ڈاکٹر، وکیل اور آرٹسٹ سامنے آئے جنہوں نے اپنی محنت سے ثابت کیا کہ ایک جسمانی، قدرتی اب نارمیلٹی کے علاوہ وہ کسی طور بھی معاشرے کے دوسرے افراد سے کم نہیں۔

پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں سگے ماں باپ بھی ایسے بچوں کو اپنانے سے منکر ہوجاتے ہیں ایسی مثالیں چند ایک ہیں جبکہ دنیا میں بہت سے خواجہ سرا اپنی محنت اور صلاحیتوں سے مختلف پیشوں میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ ان میں ہالی ووڈ اور سپورٹس بھی شامل ہیں۔

نوکری کے ساتھ ساتھ ان کا بنیادی حق جنس کا تعین بھی ہے۔ اب ایک ٹرانسجینڈر اسی لئے ٹرانسجینڈر ہے کہ وہ مکمل مرد یا مکمل عورت نہیں۔ ان کو کسی خانے میں تو رکھنا ہے۔ ان پر مختلف طریقوں سے ہونے والی زیادتی اور استحصال کو روکنا بھی ضروری ہے۔ اس کے لئے ن لیگ کی حکومت نے 2018 میں قومی اسمبلی سے یہ قانون منظور کرایا۔

مذہبی حلقوں میں خصوصاً جماعت اسلامی کی طرف سے اس بل کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ کہ 2018 تک تیس ہزار کے قریب لوگ بطور ٹرانسجینڈر اپنے آپ کو نادرا میں رجسٹر کرا چکے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ دس ہزار کی تعداد کس نے متعین کی؟ مغربی ممالک کے اعداد و شمار کے مطابق ٹرانسجینڈر آبادی کا دو فیصد تک ہو سکتے ہیں، جرمنی اور سویڈن میں یہ تعداد تین فیصد ہے۔ ہم پاکستان میں یہ تعداد ایک فیصد بھی لگائیں تو یہ تعداد پچیس لاکھ بنتی ہے، چلیں اسے بھی آدھا کرلیں تو ساڑھے بارہ لاکھ ٹرانسجینڈر بنتے ہیں۔ سینیٹر صاحب کو تیس ہزار افراد کی رجسٹریشن پہ مسئلہ بن رہا ہے۔ 

 اس قانون پر باقی اعتراضات مفروضوں پر مشتمل ہیں۔ کہ یہ ہو جائے گا یا یہ ہوسکتا ہے۔ جیسے یہ کہ ہم جنس پرستی کا شکار لوگ اپنے آپ کو مختلف جنس لکھوا کر آپس میں شادیاں کرسکتے ہیں۔ اور بقول اہتسام الہی ظہیر قوم، قوم لوط بن جائے گی اور عذاب کا خطرہ ہے۔ عرض ہے وہ تو ہر جگہ،ہر چیز، ہر قانون کاغلط صحیح استعمال ہو سکتا ہے تو کیا ایسے مفروضے کی وجہ سے قانون بنائے ہی نہ جائیں؟ کیا ہم جنس پرستی اختیار کرنے کے لئے کسی قانون کی ضرورت ہے؟ کیا اس ڈر سے ایک اچھی خاصی تعداد میں موجود اس معاشرے کے افراد کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جائے؟ یہ تو پھر مفروضے اور اندیشے ہیں، مدرسوں اور قاریوں کی تو ہم جنس پرستی کی ویڈیوز آ چکیں کیا مدرسوں کو بند کردیا جانا چاہیے؟ باقی قانون کی حد تک ان گیارہ صفحات پر مشتمل دستاویز میں کوئی ایک بھی لفظ یا جملہ ایسا نہیں جس کا مطلب ہم جنس پرستی ہو۔ اب تعلیم صحت اور شناختی دستاویزات پرلفظ خواجہ سرا لکھنے پر نہ جانے مذہبی جماعتوں کا اعتراض کیا ہے؟ 

ایک اعتراض لفظ any پر بھی ہے کہ کوئی بھی جا کر نادرا میں اپنی جنس تبدیل کرا سکتا ہے۔ اس کا متبادل لفظ اور طریقہ کار طے کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ سینیٹر مشتاق صاحب نادرا میں تبدیلی جنس سے پہلے ڈاکٹری معائنہ تجویز کر رہے ہیں اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن کیا اس سے تمام loopholes بند ہوجائیں گے؟ مفروضوں پر ہی چلنا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر پیسوں کےعوض سرٹیفیکیٹ دے دیا کریں گے پھر آپ کیا کرلیں گے؟ 

ویسے تو ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو سمجھنا چاہیے کہ یہاں جن کے حق میں قوانین موجود ہیں انہیں کون سے حق مل رہے ہیں۔ عورتوں اور اقلیتوں کی مثال لے لیجئے ان کے حقوق بھی آئین اور قانون کی کتابوں میں درج ہیں لیکن ان حقوق کے علمبردار ذہنی ، جسمانی ،نظری، زبانی کون سا تشدد روا نہیں رکھتے۔ قانون کی موجودگی میں غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، جائیداد سے محرومی، اجتماعی جنسی زیادتی، عبادت گاہوں کو جلانے، زندہ جلانے جیسا کیا کیا نہیں ہوتا۔ یہ قانون پاس ہو گیا تو آپ کو کیا مل جائے گا ایک تسلی کے علاوہ؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments