مقبولیت کی گھڑی


انسانی دماغ کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ یہ ہر شے کو اس کی ضد سے پہچانتا ہے، ین سے یانگ کو، خیر سے شر کو، اور حرکت سے جمود کو۔ خواہ آپ Saussure کے بائنری اوپوزٹس کے نظریے سے کلی طور پر متفق ہوں نہ ہوں، خیال اور زبان دونوں کی اساس یہی اصول سمجھا جاتا ہے۔ اوراسی قاعدہ کے تحت ادب اور فلم کا تار وپود بھی عاشقِ صادق اور رقیبِ رو سیاہ یعنی ہیرو اور ولن کے گِرد بنا جاتا ہے، سیف الدین سیف فرماتے ہیں، دشمن گئے تو کش مکشِ دوستی گئی، دشمن گئے کہ دوست ہمارے چلے گئے۔ اب ایک نظربساطِ سیاست پر ڈالیں تو ہو بہو یہی معاملہ نظر  آئے گا، سفید اور سیاہ خانے، مادرِ ملت فاطمہ جناح اور ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاالحق، نواز شریف اور پرویز مشرف، ایک کو سمجھنے کے لیے دوسرے کی تفہیم ضروری ہے۔

اب اسی اصول کی روشنی میں عمران خان کو دیکھیے، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی لیڈر اتنا مقبول نہیں رہا جتنا اس وقت میں ہوں، تو سوال یہ ہے کہ عمران خان صاحب کس کے مقابلے میں مقبول تر ہیں؟ عمران خان کا سیاست میں تو ایک ہی حریف ہے، میاں محمد نواز شریف، اسے تو اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے باہر کر رکھا ہے، اس پر تو انتخاب لڑنے کی پابندی ہے، اسے تو اپنی پارٹی کا صدربننے کی بھی اجازت نہیں ہے، حتیٰ کہ اس کی سیاسی وارث مریم نواز کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے، تو پھر یہ کیسے طے کیا جائے کہ عمران خان اپنے سیاسی حریف سے مقبول تر ہیں؟ایک حریف کے ہاتھ میں بندوق پکڑا کر اور دوسرے کو نہتا کر  کے ’ ریفری اعلان کر دے کہ میں ’نیوٹرل‘ ہو ں تو کوئی نہیں مانے گا، نہ نیوٹرل کو نیوٹرل، نہ مقبول ترین کو مقبول ترین۔ اگر ادارے سیاست میں چھیڑ خانی سے صدقِ دل سے توبہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی پہلی شرط عمران خان کے اصل حریف پر سے پابندیاں ہٹانا ہے تاکہ’ مقبول ترین‘ کا فیصلہ کیا جا سکے۔ بے شک ہم ضدین سے چیزوں کو پہچانتے ہیں۔

دوسری جانب اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان انتہائی مقبول سیاسی راہ نما ہیں، لیکن ان کی مقبولیت کے سفرکا ایک معروضی جائزہ بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ اپنے دورِ اقتدار میں عمران ایک قطار میں، ایک کے بعد ایک، پندرہ الیکشن ہارے۔ اس سے عمران خان کے ’مقبول ترین‘کے دعوے کی عمر کا تعین کیا جا سکتا ہے، یعنی یہی کوئی پانچ ماہ۔ یعنی مہنگائی کا موجودہ طوفان عمران کو ’مقبول ترین‘ لیڈر بنا گیا۔ چلیے، ہم نے تسلیم کیا کہ عمران خان پچھلے پانچ ماہ سے پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول راہ نما ہیں لیکن اس پنج ماہی مقبولیت کی بات یہیں روک دیتے ہیں، اب اس موضوع پر پانچ ماہ بعد بات کریں گے۔ ویسے، خان صاحب، آپ کو پاکستان کے ان راہ نماﺅں کی تاریخ تو معلوم ہی ہو گی جو دہائیوں تک ملک کے مقبول ترین لیڈرز رہے اور اس مقبولیت کی انہوں نے کیا قیمت ادا کی؟

یہ داستان پر ملال ہے، اس کا ہر باب خوں چکاں ہے، میر صاحب فرماتے ہیں ’ایک دو ہوں تو سحرِ چشم کہوں، کارخانہ ہے واں تو جادو کا‘۔مادرِ ملت اور حسین شہید سہروردی سے لے کرشیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف تک، شہرِ عشق کے گرد مزار ہی مزار ہیں۔یہ ہے مقبول ترین لوگوں کا قافلہ، کوئی نصف صدی تک مقبول ترین رہا اور اور کوئی ربع صدی تک، کوئی جلاوطن ہوا، کوئی دار کی خشک ٹہنی پہ وارا گیا، اور کسی کو اندھی گولی چاٹ گئی۔ آپ کا حریف نواز شریف 1993 سے 2018 تک کبھی نیم شفاف الیکشن بھی نہیں ہارا، کبھی جیل، کبھی جلاوطنی کبھی نااہلی سے ریاست کے حکیم ا س کی مقبولیت کا علاج کرتے رہے ہیں۔نواز شریف پاکستان کی تاریخ میں اپنی زندگی کے دوران طویل ترین عرصے تک ملک کے مقبول ترین راہ نما ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں، آج تک ان کے نام پر پڑنے والے کل ووٹوں کی تعداد پاکستان کے ہرسیاست دان سے زیادہ ہے۔ یہ حقائق ہیں، اناپ شناپ دعوے نہیں، آپ چاہیں تو سنجیدگی سے ان دعووں کو اعداد و شمار کی چھلنی سے گزار سکتے ہیں۔تو کل ملا کر یہ بنے پاکستان کے مقبول ترین سیاسی راہ نما کے سنگھاسن پر نواز شریف کے تیس سال۔

اب ذرا ’پنج ماہی‘ پر آ جائیے۔ اندیشہ ہے کہ بہت سے جمہوریت پسند دوستوں کو اس کاروانِ منزل شناس کے ساتھ ایک ہی سانس میں عمران خان کا ذکر کھلے گا، کیوں کہ خان صاحب علانیہ طور پر ملکی سیاست کی غیر جمہوری رو سے جڑے ہوئے ہیں، وہ اپنے جلسوں میں پاکستان کے پہلے آئین شکن کی ویڈیوز چلا کر ملک کے سنہری دور کو یاد کرتے ہیں، ان کے منہ سے کبھی کسی نے آئین کا الف بھی نہیں سنا، انہوں نے کبھی بھول کر بھی یہ نہیں کہا کہ اداروں کو اپنے آئینی دائرے میں لوٹ جانا چاہیے، ان کی نظر میں عساکر کی ذمہ داری فقط انہیں اقتدار میں رکھنا ہے، کیوں کہ وہ ’حق‘ کا استعارہ ہیں۔ بہرحال، ان کا نام اس فہرست میں ان کے نظریات کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کی ’پنج ماہی‘ مقبولیت کی وجہ سے شامل کیا جا رہا ہے۔

اور آخر میں عرض یہ ہے کہ آرمی چیف لگانے کا اختیار آئین پاکستان کے تحت وزیرِ اعظم کو حاصل ہے نہ کہ ’مقبول ترین‘ کو اور ’مقبول ترین‘ تو حمید گل، شجاع پاشا، ظہیر السلام اور فیض حمید کے بغیر بھی سیاست کر سکتا ہے، ہمت کریں خان صاحب، آنے دیں جو بھی چیف آتا ہے، پہلے آپ نے ’اپنے‘ ڈی جی آئی ایس آئی کے شوق میں اپنی حکومت ختم کروا لی، اب ’اپنے‘ آرمی چیف کی خواہش میں کوئی بڑا نقصان نہ کروا لیجیے گا۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments