’‘ اس نے کہا تھا ”ایک غیر روایتی ناول، ٹرانس جینڈر ایکٹ اور لکیر کے اس پار کا سچ


کچھ عرصہ قبل اشعر نجمی کے حال میں ہی شائع ہوئے دو ناول منگوائے تھے اور دل میں مصمم ارادہ تھا کہ ناول پڑھنے ضرور ہیں مگر کچھ لکھنے سے مکمل پرہیز کرنا ہے۔ وجہ اشعر نجمی صاحب کی زود رنجی اور کچھ تنک مزاجی ہے پھر عالم فاضل آدمی ہیں جو میری رائے ناگوار گزری تو بندی میں مقابلے کی کوئی سکت نہیں۔ مگر ہوا یہ کہ ان کا ناول ’‘ اس نے کہا تھا ”مجھے لڑ گیا۔ پہلے ’‘ صفر کی توہین“ اٹھایا اس کے دیباچہ پہ سرسری نگاہ ڈالی۔

وہ کہتے ہیں ’‘ میں بھی سجاوٹ کی چیز نہیں ہوں بلکہ اغلب ہے کہ آپ کے ڈرائنگ روم یا بک شیلف پہ میری موجودگی کے سبب بعض احباب آپ کے ذوق جمال پہ سوالیہ نشان ثبت کر دیں۔ اس لیے میں بھی فخریہ کہہ سکتا ہوں کہ میں ڈسٹ بن کا ناول نگار ہوں ”۔ ان لائنز کو پڑھ کر جانے کیوں مجھے وحید احمد کا ناول“ مندری والا ”یاد آیا جہاں جمال (جمالیات) ایک سنڈروم ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس ذہنی بیماری یا سنڈروم سے آپ کیسے بچ سکتے ہیں۔

اس کا جواب آپ کو مجوزہ ناول پڑھ کر ملتا ہے کہ اشعر نجمی بھی اس سنڈروم سے بچ نہیں پائے۔ اس بات کی وضاحت میں اگلی سطور میں کرنے کی کوشش کروں گی۔ اس ناول کا آغاز ہی وجود کی جڑیں ہلا دینے والے ایک قول سے ہوتا ہے :

(Either you are homophobic or you are a human, you cannot be both )

’‘ یا تو آپ ہومو فیبک ہیں یعنی ہم جنس پرستوں سے نفرت کرنے والے ہیں یا پھر آپ انسان ہیں ؛ آپ دونوں نہیں ہو سکتے ”

یہاں مجھے اعتراف کر لینے دیجیے کہ میرے وجود میں ایک ہومو فوبیک ہی بستا ہے کیونکہ میرا تعلق اس دنیا میں بسنے والے کثیر مرد و زن یعنی سس جینڈر سے ہے یعنی جو قدرت کی مہربانی سے مکمل مرد یا عورت خلق کیے گئے ہیں یہی میرے وجود کا سچ ہے اور میرے وجود میں بسنے والے تعصبات، نفرت، کراہت بہت جبلی سے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ میرے اندر کا ادیب لکیر کے اس پار کا سچ جاننے کو بھی بے قرار و متجسس تھا یہی وجہ تھی کہ میں ایک عرصے سے اس ناول کی قرات کرنا چاہ رہی تھی اور یہاں مصنف کو مبارکباد دینی چاہیے کہ وہ جمالی تقاضوں پہ پورا اترتے ہوئے بغیر کوئی گھن کھائے آپ کو دوسری طرف کے سچ سے بھی روشناس کرا دیتے ہیں۔

یہ ناول ایک غیر روایتی ناول ہے اس قدر غیر روایتی کہ آپ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ یہ ناول ہے بھی یا نہیں۔ اس میں کوئی ایک باقاعدہ کہانی نہیں جس کے کردار باہم مربوط ہوں بلکہ یہ بہت سی کہانیوں کا مجموعہ ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا راوی وہی سائیکیٹرسٹ ہے جو ناول کے آغاز میں خود کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے ایک ہم جنس پرست ہے اور ایل جی بی ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے جس کی بابت بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے مریضوں میں اس حد تک انوالو ہوجاتا ہے کہ ان کی زندگی جینے لگتا ہے اور یہ کہانیاں بھی ہڈ بیتی لگتی ہیں، جی ہوئی کہانیاں۔

مصنف کے باریک بین مشاہدے کی داد دینا بنتی ہے یوں لگتا ہے کہ ہر کردار کے من میں بیٹھ کر اسے لکھا گیا ہو۔ معمولی سے معمولی جذبے سے بھی نگاہ نہیں چوکی اور دوسری طرف چند جملوں میں بہت بڑی بات کہہ دی ہے جیسے 1990 کے بعد ڈیجیٹل عہد کا آغاز ہوا اور دنیا بالکل بدل گئی اور ’‘ وہ ہے یا نہیں ”کا سوال غائب ہو گیا یہ رویہ اور ڈس آرڈر ابھر کر سامنے آیا لیکن اس کے ساتھ ہی مصنف نے ایسے لوگوں کے ادھورے پن اور گلٹ کو بھی بخوبی بیان کیا ہے ’‘ جو ملا ادھورا ملا، کچھ ہمیشہ کے لیے باقی بچا رہا، غلط لگتا ہے، غلط ہوں میں، کچھ تو غلط کیا ہے میں نے۔ شاید“ ۔ ’‘ وہ ہے یا نہیں؟ ”کی لاجوابی ہی میرے معتوب ہونے کا سبب ہے۔ یہاں بہت سے لوگوں کی بہت سی کہانیاں آپ کو ملتی ہیں جو لیزبین ہیں، گے ہیں یا پھر بچپن میں کسی جنسی استحصال کے باعث ( dysphoria genital ) دوسری جنس کے اعضاء اور جنس کی شدید خواہش کے ہونے کا شکار لوگ ہیں، وہ بھی ہیں جو نارمل ہیں مگر اس علت کا شکار ہیں اور بعد میں شادی کر کے نارمل زندگی گزارتے ہیں، وہ بھی ہیں جو اپنی کمی و جنسی رویے کی کجی کے باعث خود کشی کر لیتے ہیں، وہ بے گھر مزدور بھی ہیں جن کے لیے اپنی جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کا آسان حل یہی ہے۔

مصنف کی خوبی یہ ہے کہ اس نے ان روایات سے ہٹے جنسی رویوں کو محبت و عشق کے رومان و جمال میں اس طرح ڈوب کر لکھا ہے کہ آپ انسانی ہمدردی کے تحت خود کو سوچنے پہ مجبور پاتے ہیں کہ یہ لوگ جو پیدائشی نامکمل ہیں یا بلوغت کے بعد ٹیسٹرون یا ایسٹروجن کی زیادتی کے بعد اپنے بدن سے انحراف کرتے ہیں، کیا محبت پہ ان کا حق نہیں؟ یہی وہ جمالی پہلو ہے جس کی میں نے اوپر نشان دہی کی تھی مگر یہیں مجھے یہ اعتراض اٹھانے کی اجازت بھی دیجیے کہ مصنف ان جنسی رویوں اور محبت کو ایک دکھاتا ہے مگر میرے نزدیک محبت کا کینوس جنس سے بہت وسیع ہے پھر جس جمالی پہلو سے ان کہانیوں کو بیان کیا گیا ہے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا ان کہانیوں میں اس غیر صحت مندانہ رویے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے!

ایسا نہیں ہے۔ پھر میری نگاہوں کے سامنے ہمارے کچھ علاقوں کی بیلٹ گھوم جاتی ہے۔ افغانستان، جہاں لونڈا بازی ایک کلچر کا نام ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ناول نے مجھے الجھا دیا ہے پھر مجھے اپنے ناول ’‘ اک معدوم کہانی“ کا ایک باغی خاتون کردار سیم گپتا یاد آ جاتا ہے اور میں خود سے پوچھتی ہوں کہ یہ بغاوت میرے لہو میں میرے لاشعور میں کہاں سے آئی۔ اس ناول میں بیان کی گئی ایک کہانی نے مجھے ہلا دیا۔ یہ دو بہت تعلیم یافتہ لیزبین عورتوں کی کہانی ہے جو نیو یارک میں مقیم ہیں اور انہیں ابھی شادی کا حق نہیں ملا اور جسے ان کا بیٹا بیان کر رہا ہے جسے مستعار سپرمز کے ذریعے پیدا کیا گیا مجھے والٹیر کا قول یاد آیا کہ عورت کا نظام تولید اتنا مکمل ہے کہ مرد کی حیثیت اس میں بہت ثانوی سی رہ جاتی ہے۔

یہ افزائش نسل کرتا ایک ایسا خاندان ہے جو روایت پہ بہت کاری ضرب لگاتا ہے ورنہ بقول مصنف یہ وہ خانماں بدنصیب لوگ ہیں جن کو افزائش نسل کی محرومی کے باعث کشتی نوح میں سوار ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ یہاں سوال پیدائش پہ اٹھتا ہے کہ اس جرم ناکردہ کی سزا کیوں؟ جس میں ان کا اپنا کوئی دوش نہیں۔ مجھے وہ ڈاکو مینٹری یاد آئی جس میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی تھی جو اے سیکسوئل تھی یعنی جس کی جنس کی جانب کوئی رغبت نہیں تھی پھر وہ ڈاکو مینٹری نگاہوں میں گھوم گئی جس میں دکھایا گیا کہ اگر پانچ چھ میل زرافے ہوں اور ان میں کوئی فیمیل نہ ہوتو ان میں ہم جنسی کا رجحان غالب آنے لگتا ہے اور یک دم میرے تصور میں ہمارے مدرسے اور بوائز ہاسٹل گھوم گئے اور کراہت نے پھر مجھ پہ غلبہ کر لیا لیکن پھر مجھے حرم رسول کے وہ سوڈانی خادم یاد آ جاتے ہیں جس قبیلے کا ہر چوتھا پانچواں بچہ مخنث ہے اور خدمت رسول پہ مامور ہے یہ مقام اللہ اللہ۔

اس ناول کی قرات میں نے ان دنوں کی جب پاکستان میں ٹرانس جینڈر ایکٹ پہ شدید بحث ہو رہی ہے اس ناول نے میرے سوالوں کو انگیخت کیا اور اس موضوع پہ میں نے جو کچھ میسر تھا وہ پڑھنے جاننے کی کوشش کی وہ تشنگی اور سوال جو اس ناول نے اٹھائے ہیں کہ یہ ناول ان خانماں بدنصیب لوگوں کی صرف جنسی زندگی کا احاطہ کرتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ ابھی اپنے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں اور پھر میں سوچنے لگتی ہوں کہ ہم سس جینڈر، نارمل مرد وزن؛ان ادھورے لوگوں کے جنسی استحصال و بنیادی حقوق کی محرومی پہ تو آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں مگر جونہی اس طبقے کے حقوق کی بات آتی ہے تو ہمارے تعصبات و خوف جاگ اٹھتے ہیں اور خاندانی روایتی فطری ڈھانچے کو لاحق یہ خطرات بالکل بے بنیاد بھی نہیں۔ میں نقاد نہیں ہوں کہ کسی ادبی پارے کے مقام کا تعین کر سکوں۔ میں تو ایک قاری ہوں جو سوچ میں گم ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جسے یکسر انکار سے رد کیا جا سکے اور اشعر نجمی جیسے کچھ بہادر اور پاگل مصنف آپ کو لکیر کے اس پار کا سچ دکھانے کی جرات رکھتے ہیں۔ اس ناول کو فکشن ہاؤس لاہور نے شائع کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments