ٹرانسجینڈر بل اور شریعت


یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کالج پڑھتا تھا۔ میں کالج جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ایک خواجہ سراء کھڑا تھا۔ اس نے مجھے کہا صاحب جی روٹی کھلا دیں۔ میں خلاف توقع اس دن غصے میں تھا۔ میں نے اسے کہا تم اچھے خاصے نوجوان ہو۔ کوئی ڈھنگ کا کام کرو بھیک مانگتے تمہیں شرم نہیں آتی۔ اتنی دیر میری امی پیچھے سے آ گئی انہوں نے باقاعدہ خواجہ سراء سے معذرت کی۔ اس کو گھر کے اندر بلا کر ناشتہ کرایا اور ایک نیا سوٹ بھی دے ڈالا۔

اس وقت مجھے شدید غصہ آ رہا تھا۔ پھر جب وہ خواجہ سراء چلا گیا تو امی نے مجھے خوب ڈانٹ پلائی۔ کہا بیٹا ان سے دعا لیتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے قابل رحم مخلوق ہے۔ آج کے بعد کبھی کسی خواجہ سراء کو تنگ مت کر بلکہ ان کی مدد کرنے کی کوشش کرنا۔ اس دن کے بعد میں نے کبھی کسی خواجہ سراء سے اس لہجے میں بات نہیں کی۔ آج کل پاکستان میں ٹرانسجینڈر بل کے حوالے سے کافی شو مچا ہوا ہے۔ پاکستان میں ہر سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیت بار بار آئین پاکستان اور انسانی حقوق کی بات کرتی ہے۔

کہی بھی کوئی آئین کی خلاف ورزی ہو یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو ہم فوراً اپنی مرضی کی آئین میں شقیں اٹھا کر میڈیا، سوشل میڈیا اور پبلک کو دکھائیں گے۔ مذہب اور سیاست کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہمارا وتیرہ بن چکا ہے۔ ان دونوں کی ہمیں جب اور جس جگہ ضرورت پڑتی ہے ہم فوراً اس کا بے دریغ استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ ٹرانسجینڈر کے حوالے سے میں نے تھوڑی سی سرچ کی تو مجھے قرآن مجید اور حدیث میں کچھ معلومات ملی وہ آپ کے ساتھ بھی شیئر کر دیتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ سورۃ الذاریات میں فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم (اس حقیقت کی ) یاد دہانی حاصل کرو (کہ اس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے ) ۔ قرآن مجید میں خوا جہ سراؤں کا براہ راست کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اور یہ تذکرہ نہ ہونا قرآن اور اس کی دعوت میں کوئی نقص واقع نہیں کرتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآن میں پیدائشی نابینا انسانوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ سماعت سے معذور افراد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

ہاتھوں سے معذور پیدا ہونے والے انسانوں کا بھی کوئی تذکرہ نہیں وغیرہ۔ اس طرح کے انسانوں کی یہ معذوری ہی ہے جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ بالعموم انہیں دوسرے درجے کا انسان سمجھتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ تم جو کوئی بھی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کرے کیونکہ یہ اس کی آنکھوں کو نیچا کر دیتی ہے اور شرمگاہ کو محفوظ رکھتی ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے۔ رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں یہ جنس موجود تھی، بعض کے نام بھی ملتے تھے کہ وہ معیت، نافع، ابو ماریہ الجنہ اور مابور جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے۔

یہ لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ شرائع اسلام ادا کرتے تھے۔ نمازیں پڑھتے، جہاد میں شریک ہوتے اور دیگر امور خیر بھی بجا لاتے تھے۔ رسول کریم ﷺان کے متعلق پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بے ضرر مخلوق ہے۔ آدمی ہونے کے باوجود انہیں عورتوں کے معاملات میں چنداں دلچسپی نہیں ہے۔ اس لئے آپ ازواج مطہرات کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن جب آپ کو پتہ چلا کہ انہیں عورتوں کے معاملات میں خاصی دلچسپی ہی نہیں بلکہ یہ لوگ نسوانی معلومات بھی رکھتے ہیں، تو آپ نے انہیں ازواج مطہرات اور دیگر مسلمان خواتین کے ہاں آنے جانے سے منع فرما دیا۔ (صحیح بخاری، المغازی:4324)

اب آتے ہیں اس ٹرانسجینڈر بل کی طرف جس کی وجہ سے پاستان کا مذہبی طبقہ سیخ پاء ہے۔ شاید ان کو لگتا ہے کہ یہ بل قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔ اس بل کو لے کر سوشل میڈیا پر ادھم مچا ہوا ہے۔ یہ اس بل کا اردو ترجمہ ان لوگوں کے لئے ہے جن کو انگلش نہیں پڑھنی آتی۔ چیپٹر نمبر ایک :تعریف میں ایکٹ برائے جینڈر پروٹیکشن رائیٹس، سی این آئی سی یعنی شناختی کارڈ، کمپلیننٹ یعنی شکایت کنندہ، سی آر سی مطلب بچوں کا رجسٹریشن فارم یا فارم ب / بی، جینڈر ایکسپریشن کا مطلب کسی شخص کی صنفی شناخت وہ خود یا دوسرے کیسے کرتے ہیں، جینڈر آئیڈینٹیٹی یعنی صنفی شناخت کا مطلب کہ وہ شخص اندر سے خود کو کیسا محسوس کرتا ہے، بطور مرد، عورت، کچھ کچھ دونوں یا کچھ بھی نہیں۔

یہ شناخت پیدائش کے وقت دی گئی صنفی شناخت سے مطابقت رکھ سکتی ہے اور نہیں بھی رکھ سکتی۔ ہراسمینٹ سے مراد یا ہراسمینٹ میں جنسی، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی ہراسمینٹ مراد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سیکس کے لیے متشدد رویے، دباؤ، ناپسندیدہ سیکشوئل ایڈوانس، دعوت دینا وغیرہ سمیت ایسے تمام رویے جو اس ضمن میں آتے ہیں وہ ہراسمینٹ کہلائے جائیں گے۔ ٹرانس جینڈر پرسن مطلب ؛درمیانی جنس ( خنسہ ) مردانہ و زنانہ جنسی اعضا کے ساتھ یا پیدائشی جنسی ابہام، خواجہ سرا ایسا میل چائلڈ جو بوقت پیدائش میل درج کیا گیا ہو لیکن جنسی طور پر ناکارہ / خصی ہو گیا ہو، ایک ٹرانس جینڈر مرد یا عورت جس کی صنفی، جنسی شناخت یا شناخت کا اظہار معاشرے کی عمومی اقدار سے ہٹ کر ہو یا اس صنفی شناخت سے ہٹ کر ہو جو انھیں بوقت پیدائش دی گئی تھی۔

چیپٹر نمبر دو :نمبر ایک : ایک ٹرانس جینڈر کو اپنی جنسی / صنفی شناخت اس شناخت کے مطابق درج کروانے کا حق ہو گا جو صنفی / جنسی شناخت وہ خود کو تصور کرتا ہے۔ نمبر دو : ایک ٹرانس جینڈر اپنے آپ کو سب سیکشن ون کے تحت اپنی تصور کردہ شناخت یعنی self perceived identity کے مطابق تمام نادرا یا دیگر حکومتی اداروں میں درج کروا سکتا ہے۔ نمبر تین : ہر ٹرانس جینڈر اپنے آپ کو نادرا آرڈینینس 2000 یا دیگر متعلقہ قوانین کے مطابق اٹھارہ سال کی عمر ہونے پر سیلف پر سیوڈ جینڈر آئیڈینٹیٹی کے مطابق شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتا ہے۔

نمبر چار : ( یہ کافی اہم ہے ) ایک ٹرانس جینڈر جس کا شناختی کارڈ پہلے ہی بن چکا ہے وہ بھی نادرا آرڈینینس 2000 کے مطابق his or her سیلف پر سیوڈ آئیڈینٹٹی کو اپنے شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس پر درج کروا سکتا ہے۔ چیپٹر تین : تعلیمی، صحت یا دیگر اداروں میں تعلیم یا سروسز سے منع کرنا، ختم کروانا، نا انصافی پر مبنی رویہ، نوکری کرنے پر مجبور کرنا یا چھوڑنے سے زبردستی روکنا یا امتیازی سلوک منع ہے، غیر قانونی ہے۔

جو عوامی سہولیات ہیں، جو عوام کو دستیاب ہیں ان سے روکنا، ان کے استعمال سے روکنا، سفری سہولیات سے روکنا، عوامی سفری سہولیات استعمال کرنے سے منع کرنا، رہائش اختیار کرنے روکنا، جائیداد کی خرید و فروخت، کرائے پر عمارت لینے، یا وراثتی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے محروم کرنے یا حق سے انکار کرنا بالکل غیر قانونی ہو گا۔ انھیں جنسی، جسمانی طور پر گھر یا گھر سے باہر ہراساں کرنا بھی منع ہے۔ چیپٹر نمبر چار :حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ٹرانس جینڈرز کی معاشرے اور سماج میں مکمل اور محفوظ شمولیت کو ممکن بنائے۔

ان کے لیے ری ہیب سینٹرز سمیت دیگر پناہ گاہیں بنائے، میڈیکل سہولیات مہیا کرے، نفسیاتی علاج و مدد سمیت تعلیم بالغاں کا بندوبست کرے۔ ٹرانس جینڈرز جو جرائم میں ملوث ہوں ان کے لیے الگ جیل خانہ جات، حوالہ جات و حوالات بنائے جائیں۔ تمام ادارے جیسے کہ صحت کا ادارہ یا دیگر اداروں میں ٹرانس جینڈر ایشو کے لیے وقتاً فوقتاً آگاہی دی جائے۔ انھیں ووکیشنل ٹریننگ دی جائے تا کہ یہ اپنی روزی روٹی کا انتظام کر سکیں۔

انھیں آسان قرضے یا امداد دے کر چھوٹے کاروبار کرنے پر تیار کیا جائے۔ ان تمام معاملات کو مکمل کرنا ہی اس ایکٹ کا مقصد ہے۔ چیپٹر نمبر پانچ :وراثتی جائیداد یا وراثت سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا یا امتیازی سلوک نہیں روا رکھا جا سکتا۔ جو شناخت یہ اپنے آئی ڈی کارڈ پر درج کروائیں گے اس کے مطابق وراثتی حق ملے گا۔ بطور مرد اندراج والے کو مرد کا اور بطور عورت اندراج کو بطور عورت وراثتی حق ملے گا۔ جو اپنی مردانہ یا زنانہ شناخت بارے ابہام کا شکار ہیں ان پر درج ذیل اطلاق ہو گا۔

اٹھارہ سال کی عمر ہونے پر جن کا اندراج بطور مرد ہے / ہو گا انھیں بطور مرد جبکہ بطور عورت اندراج ہونے پر بطور عورت وراثتی حق ملے گا / دیا جائے گا لیکن پھر بھی اگر کسی کو صنفی ابہام ہو گا تو دو الگ الگ اشخاص یعنی مرد اور عورت کے وراثتی حقوق کا اوسط / ایوریج حصہ دیا جائے گا۔ اٹھارہ سال سے کم عمر یعنی نا بالغ ہونے کی صورت میں میڈیکل افسر کی رائے کے مطابق طے ہو گا۔ حق تعلیم، حق نوکری، حق صحت، حق ووٹنگ، بنیادی انسانی حق، ملے گا۔

ٹرانس جینڈرز کی کمیونٹی کو سماجی بے دخلی اور امتیازی سلوک کے مسائل ہیں۔ تعلیمی سہولیات کی کمیابی، بیروزگاری، صحت کی سہولیات کی کمی اور اسی طرح کے متعدد مسائل درپیش ہیں۔ سپریم کورٹ اوو پاکستان نے دو ہزار نو میں ایک رولنگ پاس کی تھی کہ خواجہ سراؤں کو ان کے بنیادی حقوق سے کوئی قانون محروم نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کا آئین کے آرٹیکل چھبیس اور ستائیس کی شق نمبر ایک کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں مساوی ہیں۔ آرٹیکل انیس آزادی رائے کی آزادی ہر شہری کو دیتا ہے لیکن پھر بھی ٹرانس جینڈرز کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ یہ مکمل ٹرانسینڈ بل ہے اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے اس بل میں قرآن و حدیث اور شریعت کے خلاف کیا اور جو لوگ اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں کیا انہوں یہ بل پڑھا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments