چین سے آئی چینی گڑیا!


یہ تعارف، باقی شرکا کے مقابلے میں، سب سے مختلف اور عام روایت سے کسی قدر ہٹ کر تھا اس لئے توجہ بھی زیادہ گئی۔

بتایا گیا ”اس ہال میں موجود اکثر افراد زندگی گزارنے کے حوالے سے جو باتیں اور چیزیں مانتے ہیں، شاید میرا ان پر یقین نہیں مگر مجھے اپنے بارے میں ایک بات پر پورا یقین ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ جھوٹ کسے کہتے ہیں۔ “

اس متاثر کن جملے کے بعد ، بیان کی جانے والی دوسری بات بھی اتنی ہی دلچسپ اور توجہ طلب تھی

” چین میں بیضوی چہرہ ( اوول فیس ) عام طور پر خوب صورتی کا معیار تصور کیا جاتا ہے، مجھے بچپن سے یہ احساس ہو گیا تھا کہ میرا چہرہ بیضوی ( اوول) نہیں ہے اس لئے مجھے زندگی میں دوسروں سے زیادہ محنت کرنی ہے اور زیادہ جان مارنی ہے“

دینا کے مختلف ملکوں اور ثقافتی پس منظر رکھنے والوں نے اپنے اپنے انداز اور الفاظ سے، برلن ( جرمنی ) کے ایک اجنبی ماحول میں، اجنبیت کے خاتمے کے لئے اپنی اپنی شناخت ظاہر کی۔ ان سب کا تعارف روایتی جملوں اور عام سے سادہ خیالات پر مبنی کہا جاسکتا تھا، شاید اسی لئے چین سے آئی ہوئی ( WU HUI ) وو ہوئی کی بیان کی گئی انفرادیت پر نہ صرف یہ کہ بعد میں ہونے والے تعارف سے فرق نہ آیا بلکہ گزرتے دن کے ساتھ اس کی شخصیت کے پہلو در پہلو کھلتے چلے گئے، جیسے ایک اچھی کتاب کا ہر نیا باب، پڑھنے والے کی کتاب سے دلچسپی میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے، یا کوئی اچھی اور شائستہ شخصیت اپنے جوہر، غیر محسوس طریقے سے دوسروں پر ظاہر کرتی چلی جاتی ہے۔

بیجنگ میں ادب پڑھانا، ملازمت ہی نہیں زندگی کا سب سے پسندیدہ عمل ٹھہرا اور ایسا کہ بس یہی آرزو مقابل رہی کہ ہاتھ میں ہر وقت کتاب ہو اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔ اسی چاہت میں شریک زندگی کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کے دنیائے ادب سے متعلق ایک ہم وطن سے کیا مگر زندگی میں، ہر چیز ضروری نہیں کہ خواہش اور خواب کے مطابق ہو، سو اس تعلق کی ان چاہی تعبیر نے مشکل فیصلے کی ہمت دی کہ زندگی کی رفاقت میں احترام اور باہمی عزت، مشترکہ میدان عمل سے، کہیں زیادہ اہم اور قابل ترجیح ہے۔

کتاب سے تعلق، تاہم ویسا ہی قائم رہا اور عمومی رجحان کے بر خلاف، گھر کا سب سے ناپسندیدہ مقام کچن ہی ٹھہرا کہ اتنا وقت وہاں چولہا اور خون جلانے کے، کسی ادبی سوچ پر کیوں نہ ذہن صرف کیا جائے اور کوئی نیا آئیڈیا کیوں نہ ( سوچا ) اور پکا لیا جائے، یا کوئی اچھی شاعری کیوں نہ سن لی جائے یا پھر کسی ناول کی ورق گردانی ہی سہی۔ یوں سہیلیوں اور ہم عمر شناسا خواتین کے برعکس، کھانا پکانا اور باورچی خانہ، وو ہوئی کی زندگی میں، سراسر مجبوری کا سودا قرار پایا۔

اب نئی آرزوؤں کے ساتھ، ایک نئے ملک اور نئے لوگوں میں نئے تجربات اور نئے مشاہدات کا سامنا نہ ہو، یہ کیوں کر ہو سکتا ہے۔ وو ہوئی کے لئے بھی نیا ملک نئے امکانات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ یہ انکشاف اس نے بہت جلد اور بہت سادگی سے کیا کہ اس کی ایک جرمن صحافی سے دوستی ہوئی ہے جس سے اب اتنی قربت ہو گئی ہے کہ اس کے ساتھ وہ شادی کا بھی سوچ رہی ہے۔

ابتدائی تعارف والی بردباری اور سنجیدگی یہاں بھی اسی طرح قائم تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اسے، اس عمل میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا تاکہ پہلی ( جیسی ) غلطی کا اعادہ نہ ہو۔

اس احتیاط پسندی میں کی گئی پیش رفت کا ایک اطمینان بخش نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ اس جرمن صحافی کے والدین کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ پچیس سال سے اکٹھے رہ رہے تھے جو یورپ کے خاندانی تصور سے ذرا ہٹ کر ( امید افزا ) چیز تھی۔ یہ خوش گوار انکشاف کرتے ہوئے، احتیاط پسندی کا دامن ابھی بھی ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ اس لئے اس کے رویے میں بہت نمایاں جوش و خروش تاحال نظر نہ آتا تھا کیوں کہ ایک اور سوال، یہ بھی مسلسل اس کے مقابل تھا کہ جب وہ اس تعلق کے لئے حامی بھر لے گی تو وہ یقیناً اسے، بیجنگ چھوڑ کر، برلن آنے کو کہے گا، گویا اس فیصلے پر اسے بیجنگ میں اپنی ملازمت سے دست بردار ہونا ہو گا لہٰذا یہ امر بھی سنجیدگی سے سوچنے کا ہے کہ جب وہ اس ملازمت سے علیحدہ ہو جائے گی تو اس کی نظر میں، اس کا وہ احترام اور حیثیت برقرار رہے گی، جو سر دست دکھائی دیتی ہے!

داناؤں کا کہنا ہے کہ انسان کی اصلیت تب ظاہر ہوتی ہے جب کسی راستے اور واسطے میں، اس کا ساتھ ہو۔ پردیس میں تعلیم و تربیت کے ایسے عارضی اور مختصر مواقع بھی، ایک دوسرے کو جاننے اور پہچاننے کے زبردست امکانات مہیا کرتے ہیں۔ اس دن طویل سفر اور دیگر وجوہات کی وجہ سے، اس قدر تاخیر ہو چکی تھی کہ قرب و جوار کے سارے ہوٹلز اور ریستوراں بند ہوچکے تھے۔ عموماً چائنیز ہوٹل، مقابلتا ”مہنگے تصور کیے جاتے ہیں اس لئے ان کی طرف کبھی توجہ نہ گئی اور امریکن سسٹم کے تحت سٹریٹ فوڈ پر ہی گزارہ چل رہا تھا۔

رات گئے، اور کوئی امکان نہ دیکھتے ہوئے، بہ حالت مجبوری، فیصلہ ہوا کہ آج بجٹ ( اور اوقات ) سے باہر ہو کر ہی کھایا جائے۔ سات افراد کا یہ گروہ تھا، جس میں وو ہوئی کے علاوہ ایک اور چینی نوجوان بھی شامل تھا۔ ہوٹل میں داخل ہو کر دونوں نے چینی ذائقے کے حوالے سے اپنی مہارت اور تجربے کو استعمال میں لاتے ہوئے کھانے کا مشترکہ آرڈر دیا۔ پھر دونوں آپس میں کچھ دیر اپنی زبان میں گفت و شنید میں مصروف رہے۔ اس گفتگو کے بعد ان کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ چونکہ یہ چینی ہوٹل ہے اس لئے یہاں کوئی اور بل ادا نہیں کرے گا، بل کی ادائیگی صرف وہ دونوں ہی کریں گے۔

خاصے وقفے کے بعد کھانا آیا، گو کسی نے کھانے پر کوئی فوری رائے نہیں دی مگر اس کے اختتام پر، دونوں نے اس بات کی بہت معذرت کی کہ ہم نے یہاں جو کچھ کھایا، چین کے معیار کا نہیں تھا۔ اس کی مزید وضاحت کچھ اس طرح کی گئی کہ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس ریستوران کا مالک مین لینڈ سے نہیں، بلکہ ہانگ کانگ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ وہ وضاحت تھی جس کا تقاضا کسی طرف سے نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ ان کے اپنے اندر کی آواز تھی کہ کہیں کھانے کا خراب ذائقہ، ان کے ملک کے امیج کو گہنا نہ دے۔

باقی افراد کے لئے یہ بات، یہیں ختم ہو گئی اور اس دن چائنیز کھانے والے، دوسرے دن سے دیگر مشغولیات میں اس کھانے کو بھلا بیٹھے مگر وطن کے امیج کا احساس، حساس دل میں اسی طرح باقی تھا۔ یہ وہ دن تھا جب، سب ایک دوسرے سے الگ، مختلف مقامات پر مختلف ذائقوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور اس کے بعد سب نے کوچ میں یکجا ہو کر منزل کی طرف سفر کرنا تھا۔ کوچ اسٹارٹ ہونے کو تھی کہ وو ہوئی ہاتھوں میں کچھ سامان اٹھائے گاڑی میں داخل ہوئی۔ پلاسٹک کا وہ باکس ابھی بھی کافی گرم تھا اور وو ہوئی کی آواز، اس سے زیادہ گرم جوشی سے لبریز ”آج میں نے جہاں کھانا کھایا، وہ چین کے معیار کا تھا، اس لئے میں یہ کھانا ساتھ لے آئی ہوں“

گویا ماضی کی تلافی اس لئے ضروری ٹھہری کہ کہیں دوسرے ملک والے، میرے وطن کا خراب تصور ساتھ نہ لے جائیں۔

یہ موقع تو وہ تھا، جہاں وطن سے لگاؤ ظاہر ہوا، پھر وہ موڑ بھی آیا جہاں کتابوں کی دلدادہ، کچن سے باغی اور کچن ( اور کچن سے متعلق امور ) کو ناپسندیدہ ترین قرار دینے والی نے، اپنی ہی خواہش سے، اپنی رہائش گاہ پر سب دوستوں کے لئے ون ڈش پارٹی کے لئے اپنا کچن آباد کیا اور اس کام میں، سارا دن خود کو الجھائے رکھا، جس سے کنارہ کشی اس کے لئے ہمیشہ باعث راحت تھی۔ ایسا کیوں ہوا اور اس کے پس منظر میں کیا پوشیدہ تھا، اس کے لیے سارے ساتھیوں میں تجسس تھا۔

انھیں فطری طور پر، اپنی پیش کردہ ڈش ( اور آئٹم ) سے زیادہ اب یہ جاننے میں دلچسپی تھی کہ ایک ”کچن دشمن“ کیوں کر، اتنی خوش دلی سے خود بہ خود، اپنا کچن آباد کرنے پر رضامند ہو گئی۔ ضرور کچھ دال میں کالا ہے، مگر سب اس وقت حیران رہ گئے جب یہ بھید کھلا کہ ان کی توقع کے برعکس، آج دال میں کچھ کالا نہیں، سب سفید ہے۔

وو ہوئی نے اس دعوت کے اختتام پر، ساتھیوں کو اکٹھا کرنے کی وہ، وجہ بتائی جو اس کی انسان دوستی اور اسی حوالے سے اس کے گہرے مشاہدے کا ایسا اظہار تھا کہ جس سے متاثر ہوئے بغیر رہنا، کسی کے بس میں نہ تھا۔ ہر چند کہ وہاں موجود تمام افراد اسی ماحول اور گردونواح کا حصہ تھے مگر یہ اعزاز صرف وو ہوئی کا تھا کہ جس نے یہ بات محسوس کی اور اس کے لئے، اپنے طور پر فعال کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔

دراصل دور درشن سے آئے وینو گوپال ابتدائی ملاقاتوں میں پوری صاف گوئی سے یہ جتا چکے تھے کہ انھیں اپنے غصے پر اختیار نہیں اس لئے اپنے دفتر میں بھی ان کا دوستوں سے الجھنا، اچنبھے کی بات نہ تھا، سو ثقافتی، تاریخی اور جغرافیائی قربت کے سبب جس رفاقت کا آغاز ہوا تھا، ایک دن وہ ان کے اسی مزاج کی نذر ہوئی، اور اس رفاقت کو دوری میں بدلتے، کسی اور نے محسوس نہ کیا سوائے وو ہوئی کے اور اس ون ڈش پارٹی کا مقصد، صرف اور صرف اس دوری کو دوبارہ رفاقت میں تبدیل کرنے کے علاوہ، اور کچھ نہ تھا۔

ہر معاشرت اور ثقافت کے اپنے رنگ ہوتے ہیں جو وہاں رہنے والوں کے رہن سہن اور پسند نا پسند پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ( یا اسی دورانیے میں ) وو ہوئی کے لئے ٹماٹر یا سیب، یوں ضروری تھے جیسے اگر یہ نہ کھائے تو سارا نظام زندگی الٹ ہو جائے گا۔ اس عمل کا یہ پہلو، بہر طور دوستانہ تھا کہ پڑوسیوں کے لئے بھی ان کی قاشوں میں آفر موجود ہوتی۔

ایک دن ٹماٹر اور سیب کی جگہ ناشپاتی نے لے لی۔ اس تبدیلی کی شاید کوئی وجہ ضرور رہی ہوگی مگر اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ ( ٹماٹر اور سیب کی طرح ) ناشپاتی میں شراکت اس بنیاد پر ممکن نہ تھی کہ چینی روایت کے مطابق، ناشپاتی میں حصہ داری سے، دوستی ختم ہو جانے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments