ٹرانسجینڈر کی میڈیکل رپورٹ ؟


گزشتہ روز ایک نام نہاد مذہبی ٹھیکیدار اور کاروباری کی ایک لغو اور فضول مبنی بر غلط بیانی پوسٹ کے جواب میں میں نے اپنا موقف لکھا تھا کہ ٹرانسجینڈرز کے لیے میڈیکل کروانے کا مطالبہ بالآخر کیا نتائج پیدا کرے گا۔

اس میں زبان ذرا سخت تھی بہت سے دین فروشوں نے اس میں زبان پر اعتراض کیا۔ میرے ایک بھائی جو پیپلز پارٹی میں ہیں لیکن مذہب فروشوں کی ہر بات ان کے دل میں اتر جاتی ہے۔ کیوں کہ ریاستی بیانیہ مذہب فروشوں نے تشکیل دیا ہوا ہے لہذا انہیں ہر بار پیپلز پارٹی کا مذہب فروشوں کے مخالف بیانیہ کمزور دکھائی دیتا ہے۔

میرے لئے قابل احترام ہیں۔ ان کے سوال کے جواب میں معروضات پیش کی ہیں کہ ٹرانسجینڈرز کا ہر قیمت پر میڈیکل ایگزامینیشن کروانے کا مطالبہ کس قدر لغو فضول اور بے بنیاد ہے۔

سب سے پہلے اپ یہ بتا دیجیے کہ جب آپ کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے ہے تو میونسپل کمیٹی میں اندراج کرنے والا میڈیکل سرٹیفکیٹ مانگتا ہے؟

آپ اس کی جنس لکھواتے ہیں اور اسے بلا عذر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح آپ کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو میڈیکل سرٹیفکیٹ کے بغیر اس کا اندراج بھی ہو جاتا ہے اور 18 سال کی عمر ہونے کے بعد اسے آٹومیٹک شناختی کارڈ بھی مل جاتا ہے۔

ٹرانسجینڈر کے معاملہ میں مسئلہ یہ ہے کہ ماں باپ اس کا برتھ سرٹیفکیٹ درج کرواتے ہیں اور نہ ہی شناختی کارڈ کے لئے اسے اپنی ولدیت اندراج کرنے کا موقع دیتے ہیں۔

اب اصول سمجھ لیجیے۔ جعلی میڈیکل رپورٹ حاصل کرنا اس ملک میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جو لوگ بددیانتی کرنا چاہتے ہیں ان کا راستہ آپ کبھی نہیں روک سکتے اور بددیانتی کرنے کا مطلب جرم کرنا ہوتا ہے۔

پوری دنیا میں اس اصول کو تسلیم کیا جا چکا ہے کہ انسان اپنی شناخت اور جنس کے بارے میں جو معلومات فراہم کرے گا وہ درست ترین ہوگی اور انہیں کسی میڈیکل رپورٹ کے بغیر تسلیم کیا جائے گا۔

سو فیصد ٹرانسجینڈرز کو میڈیکل ایگزامینیشن کے سامنے پھینکنا انسانیت کی تذلیل ہے۔
مذہبی کاروباری اس وقت یہ منوانا چاہتے ہیں کہ لوگ فرضی اور جعلی طور پر ٹرانسجینڈر لکھوا لیں گے۔
یہ بات کہنا بالکل لغو اور فضول ہے کہ سو فیصد ٹرانسجینڈرز دھوکہ باز ہوں گے۔

زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد لوگ وراثت کے حصول کے لیے یا کسی بھی دیگر معاملہ کے لئے جعلی شناخت کو استعمال کریں گے۔

جب بھی کوئی ٹرانسجینڈر جعلی اور فرضی شناخت کو استعمال کرے گا تو یقینی طور پر وہ کسی کے حقوق کو چھیننے کے لیے غلط کاری کرے گا اور اس صورت میں جس شخص کے حقوق پر زد پڑے گی وہ شخص عدالت سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے۔

مسجد کے ملا کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنے محلہ میں رہنے والے کسی بھی مرد اور عورت یا ٹرانسجینڈر کی شناخت کو چیلنج کرے

اگر یہ حق اور اختیار کسی بھی اس طرح کے نام نہاد مذہبی گروہ کے ہاتھ لگ گیا تو اسی طرح استعمال کیا جائے گا جیسے ماضی میں قادیانی اقلیت کے خلاف استعمال کیا گیا۔

آپ تعلیم یافتہ ہیں یہ بات تو سمجھ رہے ہوں گے کہ مساجد، مدارس کو بچہ بازی کے لیے کثرت سے استعمال کرنے والا گروہ ٹرانسجینڈر سے متعلق قانون میں ہم جنس پرستی تلاش کر کے پراپیگنڈہ کر رہا ہے۔ فنکاری کی انتہا نہیں ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments