سیاہ آنکھ میں مری ہوئی لڑکی


ڈاکٹر آنکھ کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے محدب عدسے سے دو تین بار نہایت غور سے مریض کی سیاہ آنکھ میں جھانکا۔ بوڑھے ڈاکٹر کی آنکھوں میں الجھن کے آثار تھے۔ اس نے مریض پر ایک گہری نگاہ ڈالی۔ مریض ادھیڑ عمر تھا۔ چہرے پر ہلکی داڑھی تھی۔ بال لمبے تھے اور اس کی آنکھیں گہری سیاہ تھیں۔ غور سے دیکھنے پر ان آنکھوں میں ویرانی نظر آتی تھی مگر مریض کا اصرار تھا کہ اس کی آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے۔ وہ چبھن محسوس کر رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ڈاکٹر اس چیز کو نکال دے مگر ڈاکٹر ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا کہ اس کی آنکھ میں کچھ ہے۔ ڈاکٹر نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔

”میں آپ کو ڈراپس لکھ دیتا ہوں، صبح شام دونوں آنکھوں میں ڈالیں۔ اپنا نام بتائیے؟“

”شاہنواز، لیکن ڈاکٹر ڈراپس سے کام نہیں بنے گا۔ میں ایک اور ڈاکٹر کے تجویز کردہ ڈراپس استعمال کر چکا ہوں۔ میں نے آپ کے بارے میں سنا تھا کہ آپ بہت قابل ڈاکٹر ہیں کیا آپ کو میری آنکھ میں کچھ نظر نہیں آیا“ مریض بولا۔

”تمہاری سیاہ آنکھ میں مجھے سیاہی کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔“
”شاید اس لیے کہ میری آنکھوں کا رنگ سیاہ ہے مگر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟“ شاہنواز نے جیسے چونک کر کہا۔

”سیاہ رنگ موت کی علامت ہے۔“ ڈاکٹر اب بھی اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ شاہنواز نے پہلو بدلا اور کسی قدر ہچکچاہٹ سے کہا۔

”مجھے ان دنوں کچھ عجیب سے خواب بھی دکھائی دیتے ہیں۔“
”کوئی خواب سناؤ“
”یہی تو مشکل ہے جاگنے کے بعد مجھے کوئی خواب یاد نہیں رہتا بس اتنا یاد رہتا ہے کہ عجیب سا خواب تھا۔“
”معاف کیجیے میں آنکھوں کا ڈاکٹر ہوں شاید آپ کو نفسیاتی معالج کی ضرورت ہے۔“

شاہنواز ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔ اس نے مزید کچھ نہ کہا۔ ڈاکٹر کے لکھے ہوئے ڈراپس لے کر وہ اپنے فارم ہاؤس میں آ گیا۔ اپنے بیڈ روم میں آ کر اس نے آنکھوں میں ڈراپس ڈالے اور بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ تکلیف اسے کب سے ہے مگر ٹھیک طرح سے یاد نہ آیا۔ اس نے سوچا کہ کسی سے پوچھنا چاہیے۔ اس فارم ہاؤس میں تین ملازم تھے۔ ایک گیٹ کیپر، ایک مالی اور ایک باورچی۔ ان کے علاوہ اس کی بوڑھی ماں تھی جسے اس کا امیر کبیر باپ طلاق دے چکا تھا۔ اس کے باپ نے کئی سال قبل دوسری شادی کر لی تھی۔

شاہنواز اپنے کمرے سے نکل کر اپنی ماں کے کمرے میں چلا گیا۔ اس کی ماں ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
”ماں میری آنکھ میں دیکھنا، شاید کچھ پڑ گیا ہے؟“
اس کی ماں نے ٹی وی کی سکرین سے نظریں ہٹا کر اپنی نزدیک کی عینک لگا کر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
”کچھ نہیں ہے بیٹے، یہ سب تمہارا وہم ہے۔ تم پہلے بھی کئی بار پوچھ چکے ہو۔“

شاہنواز نے کوئی جواب نہ دیا اور کچن میں چلا گیا۔ باورچی کھانا بنانے میں مصروف تھا۔ اس نے باورچی سے پوچھا۔ باورچی بھی کچھ نہ بتا سکا۔ وہ باری باری مالی اور چوکیدار کے پاس بھی گیا لیکن کسی کو اس کی آنکھ میں کچھ نظر نہ آیا۔ وہ مایوس ہو کر واپس اپنے کمرے میں آ گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ کسی کو کچھ پتا نہیں چلتا۔ میں اس قدر تکلیف میں ہوں مگر میری پرواہ نہیں، یہ سب سرسری طور پر دیکھتے ہیں اگر غور سے دیکھیں تو انہیں نظر آ جائے گا کہ میری آنکھ میں کیا ہے۔ ”وہ بیڈ پر لیٹ گیا مگر روز کی طرح اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ رات گئے نہ جانے کب اسے نیند آ گئی۔

دوسرے دن حسب معمول دیر سے آنکھ کھلی۔ وہ تیار ہو کر اپنے آفس چلا گیا۔ وہ ایک مل اونر تھا اور یہ کاروبار بھی اس کے باپ کا تھا۔ مل کا سارا کام اس کا مینیجر اور ورکر کرتے تھے۔ وہ جب بھی آتا تمام ملازمین میں کھلبلی سی مچ جاتی۔ وہ سخت گیر مالک تھا۔ اس کے ملازمین دعا کرتے تھے کہ اس سے سامنا نہ ہو۔ اس نے اپنے دفتر میں بیٹھتے ہی مینیجر کو بلایا۔ جب وہ اندر آیا تو شاہنواز آنکھ مل رہا تھا۔ ”ذرا ادھر آؤ اور دیکھو میری آنکھ میں کیا ہے؟“

مینیجر نے قریب سے دیکھا۔
”سر! آپ کی آنکھ لال ہو رہی ہے، اس طرح آنکھ کو مسلنا نہیں چاہیے۔“
”ٹھیک ہے مشورے مت دو، جاؤ“

مینیجر فوراً کمرے سے نکل گیا۔ شاہنواز نے ریوالونگ چئیر پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں اور سوچنے لگا کہ شاید مجھے کسی نفسیاتی معالج سے ملنا چاہیے۔ شام کو وہ ایک نفسیاتی ماہر کے سامنے تھا۔ اس کے ساتھ کافی طویل سیشن ہوا مگر اس کی باتوں سے وہ اور الجھ کر رہ گیا۔ نفسیاتی ماہر بھی اس کا مسئلہ حل کرنے سے قاصر تھا۔

اس رات بھی اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ کمرے میں مدھم روشنی تھی اور وہ جاگ رہا تھا۔ اچانک اسے ایسا لگا جیسے اس کی آنکھ سے کچھ نکلا ہو۔ اسے دیوار پر ایک ہیولہ سا دکھائی دیا۔ آہستہ آہستہ اس کے خدو خال واضح ہونے لگے۔ دیوار پر نظر آنے والا سایا ایک لمبے بالوں والی دبلی پتلی لڑکی کا تھا۔ اس نے دوسری طرف دیکھا وہ لڑکی اس کے بیڈ کے کنارے پر بیٹھی تھی۔ وہ بری طرح چونک پڑا۔

”کون ہو تم؟“
لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اسے گھور رہی تھی۔ شاہنواز کو اس سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔
”تم بغیر اجازت میرے کمرے میں کیسے آ گئیں؟“ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے غصے سے کہا۔
”میں باہر سے نہیں آئی، میں تو یہیں تھی۔“ لڑکی نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”جھوٹ مت بولو، اس کمرے میں میرے سوا کوئی اور نہیں تھا۔“ شاہنواز نے کہا۔
”مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔“ لڑکی نے منہ پھیر لیا۔
” تو پھر تم مجھے پہلے کیوں نظر نہیں آئیں؟“
”کیوں کہ اس وقت میں تمہاری آنکھ میں تھی۔ میرا دم گھٹ رہا تھا اس لیے باہر آئی ہوں۔“
”کیا مطلب؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“

”ایسا ہی ہے۔ اب میں واپس جا رہی ہوں کیوں کہ میں تمہاری باتوں کا جواب نہیں دینا چاہتی۔“ لڑکی نے یہ کہا اور اس کے ساتھ ہی اس کا جسم چھوٹا ہونے لگا۔ چند لمحوں میں ہی وہ گھٹ کر چند انچ رہ گئی پھر اچانک ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ جیسے ہی وہ غائب ہوئی شاہنواز کو اپنی آنکھ میں شدید چبھن کا احساس ہوا۔ وہ آنکھ ملنے لگا مگر افاقہ نہ ہوا۔ اس نے لائٹس آن کیں اور آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ اپنی آنکھ کو غور سے دیکھ رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ سر جھٹک کر وہ پھر بیڈ پر لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔

دوسرے دن وہ پھر بوڑھے ڈاکٹر کے پاس چلا گیا اور اس کی منت سماجت کرنے لگا کہ وہ ایک بار پھر غور سے اس کی آنکھ کا جائزہ لے۔ ڈاکٹر نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھ کا معائنہ کیا اور کہا۔

”شاہنواز! میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ تمہاری آنکھ میں کچھ نہیں ہے۔“

”نہیں ڈاکٹر کچھ ہے اور کل تو اسی آنکھ سے ایک لڑکی نکل کر باہر آ گئی تھی۔“ شاہنواز نے بمشکل اپنی آواز دباتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر اسے یوں دیکھنے لگا جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو۔

”میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا، آپ کسی سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کریں۔“
”میں نے رابطہ کیا تھا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔“

”تو پھر میں نے جو ڈراپس دیے تھے ان کا استعمال جاری رکھیں، افاقہ ہو گا۔“ ڈاکٹر نے بیزاری سے کہا۔ شاہنواز سمجھ گیا کہ اب یہاں رکنا بیکار ہے۔ وہ وہاں سے چلا آیا۔ صورت حال خاصی بگڑ چکی تھی۔ گزشتہ کئی راتوں سے وہ لڑکی دو تین بار اسے نظر آئی تھی۔ ایک رات تو وہ سویا ہوا تھا کہ اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ لڑکی اس کے سرہانے بیٹھی تھی اور اس کے ہاتھ شاہنواز کی گردن پر تھے۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ اس کا گلا دبانے والی تھی۔ اسے جاگتے دیکھ کر وہ واپس اس کی آنکھ میں چلی گئی۔

شاہنواز سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی سے کسی طرح پیچھا چھڑانا چاہیے لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ رات کو فارم ہاؤس میں اس کے سوا سب سو رہے تھے۔ ماحول پر سناٹا طاری تھا۔ کبھی کبھی دور سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آتی تو خاموشی ٹوٹتی۔ وہ آہستگی سے اٹھا اور کچن میں چلا گیا۔ کچن سے اس نے ایک تیز دھار چھری اٹھائی اور اپنے کمرے میں آ گیا۔ اس نے سوچا کی اگر آج وہ لڑکی نظر آئی تو وہ اسے نہیں چھوڑے گا۔

آج وہ سونے کی کوشش نہیں کر رہا تھا وہ بیدار رہنا چاہتا تھا تا کہ وہ لڑکی نظر آ جائے۔ آدھی رات گزر گئی مگر اس لڑکی کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ اس کی آنکھ میں بدستور چبھن کا احساس تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ یک دم اسے آنکھ میں کچھ حرکت کا احساس ہوا۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کی دائیں آنکھ سے کچھ باہر آ گیا۔ اس نے آنکھ مل کر دیکھا وہ لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی۔

”اچھا ہوا تم آ گئیں۔ میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔“ شاہنواز نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟ تم میرا انتظار کیوں کر رہے تھے؟“ لڑکی نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
”تم اچھی طرح جانتی ہو کیوں؟ انجان مت بنو؟“ وہ چیخا۔
”مجھے کیا خبر کہ تمہارے ذہن میں کیا ہے؟“
”تم نے میرا جینا حرام کر دیا ہے۔ میں تم سے جان چھڑانا چاہتا ہوں۔“
”اس طرح کوئی کسی سے جان نہیں چھڑا سکتا۔“ لڑکی بولی۔

”میں چھڑا سکتا ہوں۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا، مار ڈالوں گا۔“ اس نے چھری لہراتے ہوئے غصے سے کہا۔

لڑکی ہنسنے لگی۔ اس کی ہنسی طنزیہ تھی۔ پھر اس کی ہنسی رک گئی وہ اس کی طرف شعلہ بار نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔

”تم مجھے کیسے مار سکتے ہو؟ میں تو پہلے ہی مری ہوئی ہوں۔“
”مری ہوئی ہو تو میری جان چھوڑو۔“ وہ چیخا۔

”کیسے چھوڑ دوں تم نے محبت کا جھانسا دے کر مجھ سے شادی کی اور تم نے مجھ سے میری زندگی چھینی ہے۔ میں جینا چاہتی تھی مگر تم نے مجھ سے میرے خواب، میری جوانی اور میری سانسیں چھین لیں، کوئی اس طرح بھی اپنی بیوی کی جان لیتا ہے۔ “ شاہنواز کو ایک دھکا سا لگا۔ اسے اپنے ذہن پر پڑی ہوئی گرد چھٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔

”ہاں کوئی ایسا نہیں کرتا لیکن مجھے تم پر شک تھا، میں نشے میں تھا اور غصے میں تھا۔“

”تو کیا اس طرح تمہیں یہ حق حاصل ہو گیا کہ تم میری جان لو۔ ابھی تین مہینے تو ہوئے تھے ہماری شادی کو۔ تم نے الزام لگایا اور مجھے بولنے کا موقع بھی نہ دیا۔ آہنی ڈمبل میرے سر پر مار کر مجھے موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر میری لاش کو اپنے کارندوں کے ذریعے غائب کروا دیا، تم انسان نہیں جانور ہو لیکن تم بچ نہیں سکو گے۔ “ لڑکی نے غم و غصے کے عالم میں کہا۔

”چلی جاؤ۔ چلی جاؤ“ شاہنواز چیخنے لگا۔

”اس طرح چیخنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ اسی طرح تمہاری آنکھ میں رہوں گی اور دنیا کو سب بتاؤں گی۔“ لڑکی نے سرد لہجے میں کہا۔ شاہنواز جیسے پاگل سا ہو گیا۔ ”تم اس طرح مجھے نہیں ہرا سکتیں۔ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ تم میری آنکھ میں نہیں رہ سکو گی۔ اب نہ یہ آنکھ رہے گی اور نہ تم اس میں رہ سکو گی۔“ شاہنواز چیخا۔

گھر کے ملازم شاہنواز کی چیخ سن کر اس کے کمرے میں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ تیز دھار چھری اس کے سینے میں پیوست ہے اور اس کا خون کمرے کے فرش پر پھیل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments