قومی مفاہمت کی بازگشت



صدر عارف کچھ عرصے سے سیاسی منظر پر بہت زیادہ متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ عمران خان اور موجودہ حکومت کے درمیان مصالحت کے خواہاں ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ان کی کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اور اس کاوش سے سیاسی میدان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ صدر صاحب کے حالیہ بیانات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے۔ کہ وہ عمران خان کے جلد انتخابات کے ایجنڈے کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ مفاہمتی عمل میں فوری الیکشن کے نکتے کو اولیت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم صاحب الیکشن کی تاریخ مذاکرات سے پہلے دیتے ہیں یا بات چیت کے دوران، دونوں صورتوں میں کسی متفقہ لائحہ عمل تک پہنچا جاسکتا ہے۔

ایک معروف صحافی کے مطابق صدر صاحب اس سے پہلے جنرل باجوہ اور عمران خان کے درمیان ایوان صدر میں ایک ملاقات کا اہتمام بھی کرچکے ہیں۔ اس بیٹھک میں جو کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوئی۔ جنرل صاحب نے دو ٹوک انداز میں مسلح افواج کے نیوٹرل رہنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کسی غیر آئینی عمل میں مدد گار نہیں بنیں گے۔ جنرل صاحب نے شرکاء کو شہباز حکومت کی طرف سے معیشت کی بحالی کے لیے کیے گئے ٹھوس اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوتا تو ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ تھا۔ مگر حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ڈیل کی تکمیل ممکن ہوئی۔ ایوان صدر جانے سے پہلے انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو اعتماد میں لیا۔

عمران خان کی خواہش پر آرمی چیف کے دوستوں، رشتے داروں اور سابق فوجی افسران کو دونوں فریقین کے درمیان مفاہمت کے لیے استعمال کرنے کی خبروں کا بھی چرچا ہو رہا ہے۔ صدر علوی نے جس ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ اس کے لیے انہیں بنفس نفیس آرمی چیف کی رہائشگاہ پر جانا پڑا۔ عمران خان کے اس مطالبے کہ بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت کی حمایت سے دستبردار کرایا جائے۔ جنرل باجوہ نے کسی قسم کی مدد سے معذرت کرلی۔

انہوں نے خان صاحب کو یقین دلایا۔ اگر دونوں پارٹیاں از خود حکومت سے علیحدہ ہوتی ہیں۔ تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ عسکری شخصیات کے خلاف نفرت آمیز مہم پر سپہ سالار نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ آئندہ انہیں محتاط رہنے کی ہدایت بھی کی گئی۔ ملاقات میں موجود بعض شخصیات نے بھی مفاہمت کے لیے جنرل باجوہ کو قائل کرنے کی بڑی کوشش کی۔ لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

عمران خان کا خیال ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں اضافے کو بنیاد بنا کر الیکشن میں واضح کامیابی سمیٹ سکتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنا دباؤ بڑھانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ ایک طرف جلسوں میں سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف بیک ڈور رابطوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ خان صاحب جو چاہتے ہیں اور جو مانگتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ وہ دینے کے لیے راضی نہیں ہے۔ دراصل عمران خان جس طرح پہلے ان کے کندھے پر سوار ہو کر وزیراعظم بنے تھے۔ دوبارہ ایسی ہی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ جس کا پورا ہونا اب ناممکن ہے۔ کیوں کہ فوج ان کی حمایت کر کے پہلے ہی بڑی بدنامی مول لے چکی ہے۔

اس وقت پاکستان کے تین بڑے مسئلے سیلاب، معیشت اور مہنگائی پہاڑ بن کر کھڑے ہیں۔ جن سے نمٹنا حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی بھی قومی ذمہ داری ہے۔ صدر مملکت کو بھی اپنے عہدے کے وقار کی خاطر خان صاحب کو سیاسی ماحول ٹھنڈا رکھنے کے لیے قائل کرنا چاہیے۔ تاکہ سیلاب زدگان کی بحالی اور ڈالر کی اڑان کو کنٹرول کرنے کو ترجیح دی جا سکے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہوگی۔ کہ موجودہ حکومت آئینی طور پر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچی ہے۔ اور اپنی مدت پوری کرنے کا قانونی حق رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کا جلد انتخابات کا مطالبہ بے معنی اور دستیاب حالات کی وجہ سے نامناسب ہے۔

لہذا صدر مملکت تمام فریقین کو ایک میز پر بٹھا کر اس قدرتی آفت کا شکار کروڑوں پاکستانیوں کی داد رسی کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کریں۔ سیاست کے لیے بڑا وقت پڑا ہے۔ اگر آج پوری قوم بشمول اشرافیہ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کو آگے نہیں آہیں گے۔ تو متاثرین کی بحالی بہت مشکل ہوگی۔

حکومت اور عوام کے لیے ایک اچھی خبر یہ بھی ہے۔ کہ معاشی جادوگر اسحاق ڈار اگلے ہفتے پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ شنید ہے کہ وہ وزارت خزانہ کا چارج سنبھالیں گے۔ امید ہے کہ وہ ماضی کی طرح روپے کی قدر میں بہتری لانے کے لیے اپنا تجربہ استعمال کریں گے۔ اگر وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تو مہنگائی کے عفریت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

خان صاحب نے بھی اپنے دور حکومت میں چار وزیر خزانہ تبدیل کیے تھے۔ مگر وہ پھر بھی اکانومی کو بہتر کرنے میں ناکام رہے۔

وہ اس وقت ایک قومی راہنماء کا روپ دھار چکے ہیں۔ انہیں اپنی جا رہا نہ اور بے لچک پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ موصوف کو اسٹیبلشمنٹ یا کسی اعلی ’شخصیت کی آشیر باد کے بغیر سیاست کرنے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔ انہیں اپنے سوشل میڈیا گروپس کو بھی تہذیب اور شائستگی کے دائرے کے اندر لانا ہو گا۔ ورنہ وہ سیاست کے بے رحم سمندر میں خس و خاشاک کی طرح بہہ سکتے ہیں۔

نومبر کے اخری ہفتے میں ہونے والی اہم ترین تعیناتی کے دور رس اثرات سیاست اور بالخصوص جمہوریت پر پڑیں گے۔ مگر اس اہم ترین معاملے کے تناظر میں جنرل باجوہ کے رول کو بھی دیکھنا ہو گا۔ کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایکسٹینشن حاصل کریں گے یا فوج کو خیر آباد کہہ دیں گے۔

میں اپنے تجربے کی بنیاد پر سینیارٹی لسٹ میں سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر موجود جنرلز میں سے کسی ایک کو فوج کی کمان سنبھالتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ جب کہ تکنیکی طور پر پہلے نمبر پر موجود جنرل چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ہو سکتے ہیں۔ باقی دلوں کے بھید تو اللہ تعالیٰ کی ذات مبارک ہی جانتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).