گھریلو تشدد



پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر تشدد پسند ہے۔ یہاں تشدد، مارپیٹ اور قتل کو ایک نارمل عمل سمجھا جاتا ہے۔ تشدد کی کم و بیش تمام شکلیں یہاں پائی جاتی ہیں۔ یہاں تشدد صنف، زبان، عقیدہ، نسل، قبیلہ اور علاقہ وغیرہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ تشدد کی تمام اقسام میں سے صنفی بنیاد پر ہونے والا تشدد زیادہ بھیانک ہوتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ایک عشرے کے دوران صنفی تشدد کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ صنفی تشدد کی اقسام میں جسمانی، نفسیاتی، ذہنی، جنسی، زبانی، معاشی اور فرسودہ روایات کی پاسداری وغیرہ شامل ہیں۔ صنفی تشدد کی ہر قسم قابل نفرت ہے۔ صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد میں گھریلو تشدد زیادہ کربناک ہوتا ہے۔ گھریلو تشدد خوفناک اس لئے ہوتا ہے کیونکہ اس میں تشدد پسند فرد کی خوراک ہمہ وقت ان کے روبرو دستیاب ہوتی ہے۔ تشدد پسند فرد چادر اور چاردیواری کی آڑ میں اپنے شکار کو آسانی سے دبوچ لیتا ہے اور اس کو حتی المقدور دنیا سے چھپائے رکھتا ہے۔ یوں یہ عمل سال ہا سال اور اکثر اوقات نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ فرسودہ اور بیمار معاشرہ اس کو ایک عام روٹین سمجھ کر اس سے چشم پوشی کرتا رہتا ہے۔

نام نہاد اور فرسودہ سماجی دباؤ اور روایات کی وجہ سے متاثرہ فرد خود بھی خاموشی سے اس تشدد کا ستم جھیلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات متاثرہ فرد قتل ہوتا، نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجاتا یا معذور ہوجاتا ہے۔ اگر اس عمل کو نہ روکا گیا تو یہ نسلوں کو متاثر کرتا ہے۔ ایسے میں ذہنی بیمار اور تشدد پسند افراد کی نسل در نسل ایک فوج ظفر موج پیدا ہوتی رہتی ہے جو اپنے قول و فعل دونوں سے تشدد کو فروغ دیتی رہتی ہے جیسے آج کل ہمارے معاشرے میں یہ عمل پورے آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔

آگاہی اور تشدد سے بچاؤ کا شعور نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ فرد اس عمل کے دوران طویل عرصے تک یا تاحیات اس کربناک صورتحال کا شکار رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ عمل نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ تشدد پسند فرد ہمیشہ اپنے سے کمزور پر حملہ آور ہوجاتا ہے جبکہ طاقتور کے آگے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ اس لئے گھریلو تشدد کا شکار اکثر معاشرے کے کمزور طبقات یعنی خواتین، بچے، بزرگ، شریف النفس افراد، خواجہ سرا اور افراد باہم معذوری ہوتے ہیں۔

تشدد پسند فرد اگر عادی نشئی ہو تو تشدد کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس میں وہ اپنے شکار کو بھاگنے کی مہلت نہیں دیتا، وہ بلا وجہ اچانک حملہ آور ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے متاثرہ فرد اس کے شکنجے میں آ جاتا ہے۔ یوں مارپیٹ کے بعد نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے جیسے اسلام آباد میں گزشتہ دنوں نور مقدم اور حالیہ دنوں سارہ کے بھیانک قتل کا کیس سامنے آیا ہے۔

تشدد پسندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہونے کے علاوہ ایک قابل نفرت جرم تو ہے ہی لیکن یہ ایک مکمل ذہنی و نفسیاتی بیماری بھی ہے۔ اس کی وجوہات میں ملزم کا پرتشدد خاندانی پس منظر، ابتدائی زندگی کے حالات، بچپن میں ان پر ہونے والا تشدد، ماں باپ کا غیر صحت مندانہ رشتہ، منشیات کا استعمال، ذہنی تناؤ، جسمانی بیماری کے علاوہ ذہنی امراض سمیت کئی محرکات شامل ہیں۔

دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اور ذہنی صحت کے ادارے فعال اور متحرک ہونے کی وجہ سے گھریلو تشدد کی شرح میں کمی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کے تدارک کے لئے موثر قوانین اور اداروں کی کمی ہے۔ جبکہ عام لوگوں میں اس کا شعور بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تشدد پسندی کے خاتمے میں جہاں قوانین اور اداروں کا کردار اہم ہے وہاں عوام میں شعور پھیلانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اگر کسی جگہ تسلسل کے ساتھ تشدد ہوتا ہے تو اس سے بچاؤ کے لئے بنیادی شعور پھیلا کر اس کو روکا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں گھریلو تشدد کے کئی خوفناک واقعات آئے روز رونما ہوئے ہیں۔ جن کیسسز میں انتہائی اقدام یعنی قتل کیا جاتا ہے وہ کیسسز اجاگر ہو جاتے ہیں لیکن زیادہ تر کیسسز نہ تو اجاگر ہوتے ہیں اور نہ ہی رپورٹ ہوتے ہیں۔

اگر ایسے کیسسز بروقت رپورٹ ہوجائیں تو تشدد کے شکار متاثرہ فرد کو کونسلنگ اور قانونی مدد فراہم کر کے اس کو قتل ہونے اور مسلسل تشدد کے عمل سے گزرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں اور گلگت بلتستان میں تشدد کے کئی کیسسز سالانہ رپورٹ ہوتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تشدد کے خاتمے خصوصاً خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لئے ہیلپ لائن بنائی جائے تاکہ تشدد کے شکار افراد کو فوری بچایا جا سکے۔

تشدد پسندی کے خلاف آگاہی مہم چلانا وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں صنفی تشدد و تفریق پر مبنی رویوں کی ہر سطح پر مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ متاثرہ افراد سے مکمل اظہار یکجہتی، ان کے حق میں آواز اٹھانا اور ان کی دادرسی کرنا شامل ہے۔

تشدد سے بچاؤ، آگاہی مہم، قانونی چارہ جوئی اور ذہنی علاج سے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اگر تشدد پسند فرد علاج کے لئے تیار نہ ہو جائے تو اس سے کنارہ کشی کرنا لازمی ہے تاکہ وہ متاثرہ فرد کو اپنا شکار نہ بنا سکے۔ جس کے لئے متاثرہ فرد کو تشدد سے بچاؤ کے طریقے اور کونسلنگ فراہم کرنا سب سے بنیادی کام ہے۔ سخت قوانین کے ذریعہ تشدد میں ملوث فرد کو قانون کی گرفت میں لایا جاسکتا ہے۔ اکثر کیسسز میں قانونی چارہ جوئی سے تشدد کا عمل رک جاتا ہے۔

کئی کیسسز میں قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ ملزم کے ذہنی علاج کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ متاثرہ فرد کی ذہنی بحالی اور قانونی مدد بھی اس کام کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہر سطح پر شعور دیا جائے تو گھریلو تشدد یا صنفی تشدد کی انسداد میں سماجی ادارے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ورنہ موجودہ نسل کی یہ قابل نفرت بیماری خودبخود اگلی نسل میں منتقل ہو جائے گی اور یہ سلسلہ یوں ہی نسل در نسل چلتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments