ظہور الہی، شجاعت حسین اور پرویز الہی کی سیاست


پاکستان کی تاریخ سیاسی قتل و غارت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ کچھ سیاسی قتل ہمارے ملک کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں جن کی قوم سالہاسال قیمت ادا کرتی ہے۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو (جسے کچھ لوگ عدالتی قتل قرار دیتے ہیں۔ ) بے نظیر بھٹو، چوہدری ظہور الہی، خواجہ رفیق ڈاکٹر نذیر، عبدالصمد اچکزئی اور اکبر بگٹی کے قتل فراموش نہیں کیے جا سکتے۔

چوہدری ظہور الہی کو 25 ستمبر 1981 کو لاہور میں دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا 41 سال قبل ہونے والے اس سیاسی قتل کے نسل در نسل اثرات موجود رہے۔ چوہدری ظہور الہی نے ملکی سیاست میں بڑا نام پیدا کیا ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سیاست ان کے گرد گھومتی تھی۔ ان کی بوئی ہوئی فصل سے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی 41 سال تک پھل کھاتے رہے لیکن اب جب تیسری نسل کی باری آئی تو چوہدری برادران کے سیاسی راستے جدا ہو گئے۔ لاہور میں گلبرگ میں ایک ہی قطار میں کھڑی کوٹھیوں کے درمیان دیواروں سے نکالے گئے راستے بند ہو گئے بلکہ دیواریں اس قدر بلند ہو گئیں کہ ان کے مکین ایک دوسرے کی آواز سننے کو ترس گئے۔

شہرہ آفاق عوامی شاعر حبیب جالب نے چوہدری ظہور الہی کو منظوم خراج تحسین پیش کیا تھا۔

؂ آبرو پنجاب کی تو، شان پاکستان کی
پیار کرتی ہے تجھے دھرتی بلوچستان کی
سندھ کی دھڑکن ہے تو، سرحد کی تو آواز ہے
تیرے دل میں قدر ہے ہر اک جری انسان کی

چوہدری ظہور الہی کی کہانی دریائے چناب (سوہنی مہینوال کی محبت کی داستان اسی دریا کی بے رحم لہروں نے تحریر کی ہے ) کے کنارے واقع گجرات کے ایک گاؤں ”نت وڑائچ“ سے شروع ہوتی ہے اور یہیں ختم ہوتی ہے۔ مجھے چوہدری برادران کی تین نسلوں کی کوریج کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ چوہدری ظہور الہی کے بعد چوہدری شجاعت حسین اور اب چوہدری سالک حسین کی پارلیمنٹ کی کوریج کر رہا ہوں

کچھ ایسی ہی صورت حال چوہدری پرویز الہی کے ساتھ ہے۔ اب ان کے صاحبزادے مونس الہی کے ساتھ روابط قائم ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے۔ اس خاندان کے بیشتر افراد کے ناموں کے ساتھ ”الہی“ ، ظہور الہی سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ چوہدری برادران سے ذاتی سطح پر مراسم قائم ہیں۔ چوہدری ظہور الہی کا شمار پاکستان کے ان جرات مند سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس وقت اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کیا جب حکمرانوں کی فسطائیت کو چیلنج کرنے پر سر لگتے تھے۔ یہی وجہ ہے ان کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

چوہدری ظہور الہی نے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی کو ہمیشہ حجلہ عروسی کا مقام دیا۔ ہنستے کھیلتے جیل یاترا کرتے چوہدری ظہور الہی نے کچھ اس شان جیل آباد کی کہ اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لئے جرات و بہادری کی داستانیں چھوڑ گئے۔ جیل کا عملہ سیاسی قیدیوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔ ان کی جیل میں خوبیوں کی قدر اور کمزوریوں کا چرچا کرتا ہے۔ چوہدری ظہور الہی جرات و بہادری کا استعارہ تھے۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا تو چوہدری ظہور الہی کو سب سے پہلے نشانہ بنا یا گیا وہ اپوزیشن کے روح رواں تھے۔

چوہدری ظہور الہی کی رہائش گاہ 99 ویسٹریج راولپنڈی میرے آبائی گھر مصریال کے قریب واقع تھی۔ میں اکثر و بیشتر ان سے ملاقات کے لئے چلا جاتا ان کی رہائش گاہ حکومت مخالف تحاریک کا مرکز رہی بعد ازاں 99 ویسٹریج وراثتی تقسیم کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اب وہاں ایک پرائیویٹ سکول بن گیا ہے۔ 99 ویسٹریج میں پیر صاحب پگارا، خان عبدالولی خان، خیر بخش مری، ملک قاسم اور میاں طفیل محمد سمیت بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں کا اکٹھ ہوتا تھا۔ اپوزیشن کے اہم اجلاسوں کی وجہ سے 99 ویسٹریج راولپنڈی کو ”مہمان خانہ“ کی حیثیت حاصل ہو گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کے بعد انٹیلی جنس نے چوہدری ظہور الہی شہید کو آگاہ کر دیا تھا کہ ان پر کسی وقت بھی قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے کیونکہ دہشت گرد ان کا تعاقب کر رہے ہیں لیکن انہوں نے نہ اپنی آمدورفت ”خفیہ“ رکھی اور نہ ہی اپنی حفاظت کے لئے خصوصی انتظامات کیے جس کے باعث گجرات کا ”جٹ“ 25 ستمبر 1981 ء دن دیہاڑے لاہور میں دہشت گردی کا نشانہ بن گیا

چوہدری ظہور الہی نے ایک عام آدمی کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا 1950 ء میں میدان سیاست میں قدم رکھا اور دنوں میں ملکی سیاست پر چھا گئے ملکی سیاست میں چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الہی اور ان کی اولاد چوہدری سالک حسین و مونس الہی کو جو مقام حاصل ہوا ہے۔ وہ چوہدری ظہور الہی کی قربانیوں کے باعث ہے۔ بر صغیر پاک و ہند میں جاٹ قوم کی ذہانت اور بہادری کا ہر کوئی معترف ہے۔ چوہدری خاندان نے اس پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا چوہدری قبر تک دوستی و دشمنی نبھانے والے ہیں۔ جب تک چوہدری ظہور الہی کی ذوالفقار علی بھٹو سے دوستی رہی تو ان کی تصویر اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنی رہی۔ دونوں کے درمیان اختلاف نے ذاتی ”دشمنی“ کی شکل اختیار کر لی تو ذوالفقار علی بھٹو نے چوہدری ظہور الہی کو مبینہ طور پر کوہلو میں مروانے کی ناکام کوشش کی پھر چوہدری ظہور الہی نے بھی ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی ان کو تختہ دار پر لٹکانے تک نبھائی۔

بہادر بلوچ اکبر بگٹی نے چوہدری ظہور الہی کی اپنے خاندان کے ایک فرد کی طرح حفاظت کی۔ گجرات کے چوہدری اپنے دشمن کو نہیں بھلایا کرتے وہ مقتول کی قبر اپنے گھر کے سامنے بنواتے تاکہ قاتل یاد رہے وہ کار آج بھی چوہدری خاندان کے پاس ظہور الہی پیلس گجرات میں محفوظ ہے جسے الذوالفقار کے دہشت گردوں نے کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے۔ بے نظیر بھٹو ”سیاسی دشمنی“ ختم کرنے کے لئے ظہور پیلس گجرات آنا چاہتی تھیں جہاں چوہدری شجاعت حسین نے ان کے سر پر چادر پہنانی تھی لیکن چوہدری ظہور الہی کی صاحبزادیاں ”سیاسی صلح“ کی راہ میں حائل ہو گئیں جس کے باعث چوہدری شجاعت حسین کو بے نظیر بھٹو کا ”ظہور پیلس“ میں استقبالیہ تقریب منسوخ کرنا پڑی۔

چوہدری ظہور الہی کے پاس کونسل مسلم لیگ کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ اصل مسلم لیگ بھی یہی تھی۔ وہ کونسل مسلم لیگ کے کرتا دھرتا تھے بلکہ ملکی سیاست ان کے گرد گھومتی تھی۔ یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ (یو ڈی ایف) اور پاکستان قومی اتحاد (پی این اے ) ان ہی کوششوں سے قائم ہوئے۔ چوہدری ظہور الہی پارلیمان کی رونق تھے۔ وہ پارلیمنٹ ہاؤس کی کیفے ٹیریا میں قدم رکھتے تو رونقیں لگ جاتی تھیں یہ چوہدری ظہور الہی ہی تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا مہمان نوازی میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اپوزیشن کے کئی رہنماؤں کو ”مالی امداد“ کے لئے ان کی چوکھٹ پر حاضری دیتے دیکھا گیا ہے۔

چوہدری ظہور الہی کی کی ایوب خان اور نواب کالا باغ سے دوستی مشہور ہے لیکن جب ان سے دوستی ختم ہوئی تو ان کے عتاب کا نشانہ بنے رہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انہوں نے جہاں 1973 ء کا آئین بنانے میں جہاں اپوزیشن کی طرف سے اہم کردار ادا کیا وہاں انہوں نے اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے کی جانے والی یک طرفہ ترامیم کی راہ رکاوٹ بنے جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے ان سمیت اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کو ایوان سے باہر پھنکوا دیا (جاری ہے ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments