افغانستان میں طالبات کی تعلیم


افغان طالبان نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے افغان خواتین پر عائد کی گئیں سخت پابندیوں کو ختم کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی ادارے کے یہ تحفظات بے بنیاد ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے چند روز قبل متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور کی ہے جس میں طالبان کی جانب سے گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت تک رسائی کو محدود کرنے اور ان کے سفر کی آزادی سلب کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ کی جانب سے نہ صرف خواتین کو عوامی مقامات پر چہرے سمیت پورا جسم ڈھانپنے کے احکامات دیے گئے ہیں بلکہ ان کے حکم پر تادم تحریر سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سکول کی سطح پر طالبات کی تعلیم پر بھی پابندی عائد ہے حالانکہ طالبان کئی مواقع پر اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ طالبات کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں بلکہ بعض تکنیکی اور مالی مسائل کی وجہ سے وہ فی الحال طالبات کی تعلیم کی اجازت نہیں دے رہے ہیں جس پر عالمی سطح پر کافی غم و غصہ اور ناراضگی پائی جاتی ہے۔

حیران کن امر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جس کا بنیادی کام دنیا کو کسی بھی قسم کے تنازعات سے بچانے کے علاوہ موجود عالمی تنازعات کے خاتمے میں کردار ادا کرنا ہے اسے اس جنگ زدہ نیم قبائلی ملک میں بچیوں کی تعلیم کی فکر تو کھائے جا رہی ہے لیکن اسے اس جنگ زدہ ملک کے کروڑوں شہریوں کے بھوک اور افلاس سے مرنے نیز مختلف بیماریوں سے نجات کی کوئی فکر نہیں ہے البتہ اس کی نظر میں یہاں طالبات کی تعلیم شاید باقی تمام مسائل سے زیادہ اہم مسئلہ ہے۔

حیرت یہ ہے کہ اسی سلامتی کونسل کو افغانستان میں گزشتہ بیس سالوں کے دوران مغربی طاقتوں کی جانب سے روا رکھے جانے والی جنگی جرائم پر تو چوں تک کرنے کی ہمت بھی نہیں ہے لیکن اس کے پیٹ میں یہاں طالبات کے تعلیم کے حق سے محروم ہونے پر ہر روز جو مروڑ اٹھتے ہیں اس سے اس کی نام نہاد مجبوری کو سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک نے پچھلے دنوں بیک زبان طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی ان پالیسیوں اور فیصلوں کو واپس لیں جن کے ذریعے افغان خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو سلب کیا گیا ہے جب کہ عالمی ادارے نے طالبان حکومت سے لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو کھولنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے ردعمل میں افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہماری حکومت ان تحفظات کو بے بنیاد سمجھتی ہے اور ہم افغان خواتین کو حقوق دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ وزارت خارجہ نے مزید کہا ہے کہ افغانستان میں اکثریت چونکہ مسلمانوں کی ہے اس لیے افغان حکومت معاشرے کی مقامی ثقافت اور مذہبی روایات کے تناظر میں حجاب کو لاگو کرنے پر یقین رکھتی ہے اور اس پر کسی اور کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے والے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

یہاں اس امر کی جانب نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہوگی کہ طالبان کے 1996 سے 2001 تک پہلے دور اقتدار کو خواتین کے خلاف سخت ترین اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے تاہم گزشتہ برس اگست میں برسر اقتدار آنے کے بعد طالبان نے ماضی کے برعکس جہاں مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے وہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں نرم قوانین نافذ کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا لیکن مغربی دنیا کی نظر میں وہ اب بھی ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن کو عالمی برادری خواتین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔

واضح رہے کہ طالبان نے پہلے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں ہائی اسکول لڑکیوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیں گے لیکن بعد میں اپنے فیصلے کو اس وقت تک تبدیل کر دیا جب تک یہ فیصلہ نہ ہو جائے کہ لڑکیوں کے لیے مناسب یونیفارم کیا ہو گا۔ اسی اثناء اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے اس صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کا فیصلہ نہ صرف خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم کے مساوی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ یہ افغان خواتین اور لڑکیوں کی زبردست شراکت کے پیش نظر ملک کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے، مسٹر گوٹیرس نے کہا کہ بار بار وعدوں کے باوجود چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کے لیے اسکول دوبارہ کھولنے میں ڈی فیکٹو حکام کی ناکامی ایک گہری مایوسی اور افغانستان کے لیے شدید نقصان کا باعث ہے۔

تاہم دوسری جانب اقوام متحدہ میں طالبان کے نامزد سفیر سہیل شاہین نے عالمی برادری کو یقین دلایا ہے کہ اسکولوں میں لڑکیوں پر پابندی لگانے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ صرف لڑکیوں کے سکول یونیفارم کی شکل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا ایک تکنیکی مسئلہ ہے جسے جلد حل کر لیا جائے گا۔ لہٰذا اس تناظر میں طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اگر ایک جانب 40 سالہ طویل خانہ جنگ کے شکار ملک میں امن وامان کا قیام اور آبادکاری ہے تو دوسری جانب ایک اور بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی اقتصادی مشکلات اور بے روزگاری کے خاتمے کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو تعلیم اور عام افغانوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی وہ اقدامات ثابت ہوسکتے ہیں جن کے بل بوتے پر طالبان نہ صرف اپنی حکومت کو قانونی جواز فراہم کر سکتے ہیں بلکہ اس طرح وہ ان کے خلاف بننے والے کسی ممکنہ مخالف محاذ کی روک تھام کے علاوہ اپنے وجود کو بھی بین الاقوامی برادری کے لیے قابل قبول بنا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments