انیس اشفاق کا ناول ”پری ناز اور پرندے


 

محبتوں کا قصہ ”پری ناز اور پرندے“ انیس اشفاق کا ناول ہے۔ یہ ناول واجد علی شاہ کے زمانے کے لکھنو کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ ایک طرح سے یہ نیر مسعود کے افسانے ”طاؤس چمن کی مینا“ کے قصے کو ہی آگے بڑھاتا ہے۔ اس سے پہلے اردو میں ایک تجربہ کیا گیا تھا جب سریندر پرکاش نے منشی پریم چند کے ناول ”گؤدان“ کے ایک کردار ہوری کو لے کر اس پر افسانہ لکھا تھا، لیکن افسانے پر ناول لکھنے کی یہ پہلی مثال ہے۔

ناول ”پری ناز اور پرندے“ لکھنؤ کی روایتی تہذیب کو اپنی مٹھی میں لیے داستانی رنگ کا ایک ایسا قصہ بیان کرتا ہے، جس میں پرندوں کی خوش رنگ دنیا آباد ہے۔ پرندوں کو پالنے والے شائقین، پرندوں کی نگہداشت کرنے والے افراد اور ان کی حفاظت میں اپنی زندگی تج دینے والوں کا ایک جہان گم گشتہ ہے۔ روایتی تہذیب و تمدن کا اظہار بیان، لکھنؤ کے باشندوں کے رکھ رکھاؤ کی جھلکیاں اور جان عالم کے شہر کی خصوصیات بھی نظر آتی ہیں۔

اس ناول میں کہانی کی کئی جہتیں ہیں۔ بظاہر لکھنؤ کی تہذیب و تمدن، رکھ رکھاؤ، بول چال، بادشاہوں اور اونچے گھرانوں کے شوق، پرندوں سے لگاؤ، انھیں پالنے کی چاہت اور پرندوں کی اقسام اور ان کی خصلتوں کا تذکرہ ہے، لیکن اس کے اندر کئی کہانیاں موجود ہیں۔ کالے خان جس کو بادشاہ نے اپنے پرندوں کی دیکھ بھال کے لیے مہمور کیا ہوتا ہے، اپنی بیٹی کی محبت میں آ کر بادشاہ کے قفس سے ایک مینا چوری کرتے ہیں۔ جس کی پاداش میں انھیں سزا دی جاتی ہے۔ جب بادشاہ کو اندازہ ہوتا ہے کہ کالے خان نے اپنی بیٹی کی محبت میں ایسا کیا تھا تو وہ اسے رہا کر دیتا ہے۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اور طاؤس چمن اجڑ چکا تھا۔ وہاں کوئی پرندہ کوئی جانور باقی نہیں تھا۔ یہ سانحہ کالے خان کی جان لینے کا سبب بنتا ہے۔

”پری ناز اور پرندے“ اسی تسلسل میں لکھا گیا ہے۔ جس میں اس قصے کو ترتیب دینے والے کی تلاش ہے۔ یہ تلاش کالے خان کے معاون حسین آبدار کو بھی ہے جو اب دریا کنارے ایک جھونپڑے میں رہتا ہے یا فرنگیوں کی کوٹھیوں میں پڑا رہتا ہے۔ وہ جنگلوں اور باغات میں پرندوں کو دانہ دنکا ڈالتا ہے۔ اور چڑی مار شکاریوں کا دشمن ہے۔ ان کے علاوہ فلک آرا، فرش آرا اور شاہین شہر زاد ایسے کردار ہیں جو قصہ گو کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں۔

اور بالآخر اسے تلاش کر لیتے ہیں۔ یہ سب کردار واجد علی شاہ کے لکھنو کی یاد ہیں۔ اور اپنے اندر گہری اداسی لیے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ وقت گزرنے کے ساتھ لکھنو کی ہونے والی تباہی و بربادی ہے۔ فرنگیوں کے لگائے زخم انسانوں کے دلوں پر ہی نہیں رہے بلکہ لکھنو میں موجود چرند پرند، جنگل اور دریا بھی اس کی زد میں آئے۔

ناول میں محبت کے انمول اور غیر محسوس اظہار کا ایک انوکھا انداز بھی نظر آتا ہے جو جذبوں اور چاہتوں کے فطری عمل کے ساتھ ناول کا جزو بن کر ایک خوبصورت ماحول منعکس کرتا ہے۔ پھر وہ محبت چاہے پرندوں سے ہو، لکھنو کی روایتی تہذیب سے ہو، جنگلوں سے، خالی پنجروں سے، کالے خان کی اپنی بیٹی فلک آرا سے، جس کی محبت نے اسے طاؤس چمن کی مینا چرانے کے لیے بے بس کیا۔ فرش آرا کی محبت اپنی ماں فلک آرا سے جس کی محبت میں وہ طاؤس چمن کی نقل اتارتا ہے اور اسے چالیس میناؤں سے آباد کرتا ہے۔ یا فرش آرا اور شاہین شہر زاد کی محبت، جو تہذیب اور رواداری کی چھاؤں میں پروان چڑھتی ہے۔ یہ سب محبتیں بھر پور ہیں۔ یوں یہ ناول ایک طرح سے محبتوں کا قصہ معلوم ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments