غصیلا درویش


گول باغ کے کسی چائے خانے میں اگر آپ ایک بھاری بھر کم شخص کو بیٹھا دیکھیں، جس نے کاٹن کے کھلے پاجامے پر ٹی شرٹ پہنی ہو، اس کی انگلیاں طرح طرح کے نگینوں والی انگوٹھیوں سے بھری ہو اور کسی انگلی میں تو دو انگوٹھیاں ہو، اور وہ کبھی اپنے یاقوت کو سیدھا کرے اور کبھی فیروزہ کی سمت درست کرے، پھر اپنی کلائیوں میں ایسے ہی نگینوں سے بھرے چاندی کے کڑے سیدھے کرے، ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے اور جھولتے جھولتے سگریٹ کو سختی سے پکڑے کش کھینچے اور ہوں، ہوں کی آوازوں سے سماں باندھ دے تو آپ آنکھیں بند کر کے یقین کر لیجیے گا یہ ہمارے اپنے مبشر مہدی ہوں گے۔

میں نے پہلی دفعہ انہیں دیکھا تھا جب وہ ملتان آرٹس فورم سے ایک لمبی غیر حاضری کے بعد خالد سعید کی جوشیلی فول کال پر ڈانٹ سن کر فوراً حاضر ہو گئے تھے اور استاد محترم، استاد محترم کا ورد کرتے ان کی بغل میں تشریف فرما ہو گئے۔ ان کی عادت تھی وہ تمام حاضرین پر مڑ مڑ کر ایک نگاہ ڈالتے اور ہاتھ اٹھا کر اشاروں سے سلام دعا لے لیتے۔ پہلی دفعہ ان کی تھیٹریکل آواز سن کر میرا شمار ان کے متاثرین میں ہو گیا۔ ان دنوں وہ فورم پر پیش کی جانے والی تخلیقات پر سخت تنقید کیا کرتے، اپنی مخصوص بھاری آواز میں وہ مخاطب ہوتے، ”صاحب صدر“ اور پھر ایک لمبا سا وقفہ لیتے، ایک ٹانگ کو تقریباً پکڑ کر دوسری ٹانگ پر رکھتے اور پھر سے بات شروع کرتے، ”بات کچھ یوں ہے، نوجوان نے۔“ پھر نوجوان کے کان اور گالیں سرخ ہوتی ہوئی نظر آتیں۔ فورم کے کئی دوستوں کو گلہ رہتا کہ ان کی تنقید سے کئی نئے لوگ فورم ہی چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ مگر انہوں نے کبھی پروا نہیں کی بلکہ دھڑلے سے وہ کہا جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔

مہدی صاحب انجینئرنگ کے طالب علم تھے جب ادب سے دلچسپی اپنی بڑھی کہ انہوں نے یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور کو خیر باد کہا اور ملتان واپس آ کر انگریزی ادبیات میں بی اے، پھر ایم اے اور ایم فل مکمل کر کے بہت سارے بین الاقوامی ادب سے اپنا تعلق جوڑ لیا۔ انجینئرنگ کو چھوڑ کر ادب کی طرف آنے اور بعد میں انگریزی ادب کی پروفیسری کا ملال کبھی ان کے کسی رویے سے ظاہر نہیں ہوا، بلکہ ان کی اپنی شخصیت کی کئی تہیں نہ صرف ان پر بلکہ کئی رفقاء پر کھلتی چلی گئی۔

میری ان سے قربت ملتان آرٹس فورم کی سیکریٹری شپ اور ’سطور‘ (ملتان آرٹس فورم کا کتابی سلسلہ) مرتب کرتے ہوئے ہوئی۔ سطور کا انگریزی حصہ انہی کی معاونت سے ترتیب دیا جاتا تھا۔ کسی شمارے کے لئے وہ اپنی جو تحریر جمع کراتے تو کچھ دنوں بعد اسے ایک نئی تحریر سے بدلنے کا مطالبہ کرتے۔ لفظوں اور جملوں کے بارے میں اس قدر حساسیت پائی جاتی ہے کہ کئی دفعہ پروف پڑھتے، سقم دور کرتے پھر بھی آخری پرنٹ گھر لے جاتے اور اپنی تسلی کے بعد واپس کرتے۔

جہاں وہ اپنی لیکھتوں کے بارے اتنے باریک بین ہیں تو وہیں یہ تحریریں محفوظ کرنا ان کے لئے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اکثر تحریریں تو شماروں میں چھپ کر محفوظ ہوئی اور بقایا کچھ فورم کے ہفتہ وار اجلاسوں کی رودادوں میں۔ اکثر مجھے ان کا فون آتا تو میں پہلے ہی سمجھ جاتا کسی نظم یا ترجمے کا اصل نسخہ کھو گیا ہے اور مبشر صاحب شدید پریشانی میں ہیں۔

ان کی پریشانی بھی غیر معمولی طور پر اہم ہے۔ وہ بظاہر کسی پریشان ہونے والی چیز پر پریشان نہیں ہوتے۔ نہ ہی کسی ایسی بات پر توجہ دیتے ہیں۔ مگر ان کا غصہ اور ناراضی کسی بھی معمولی اور عام سے بات پر متوقع ہے۔ ایسے ہی کسی دن میں اور شوکت قادری ان کے گھر تھے کہ اجلال زیدی بھی آ گئے۔ ہم باہر صحن میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور مہدی صاحب ڈرائنگ روم کی چوکھٹ پر سر رکھے پورچ کے فرش پر دراز تھے۔ انہیں کالج سے چھٹی چاہیے تھی اور ان دنوں چھٹیوں پر پابندی تھی۔ بات ہوتے ہوتے مہدی صاحب کا پارا چڑھا اور پرنسپل پر برس پڑے، برستے برستے انہوں نے نہ فون کی پروا کی اور نہ پورچ کی اور وٹ دا فک، وٹ دا ہل کہتے کہتے جھنجھلا گئے۔ یہ تو اچھا تھا کہ قادری صاحب اور زیدی صاحب موجود تھے، پانی اور سگریٹ کے دھوئیں نے معاملہ کچھ ٹھنڈا کیا مگر مہدی صاحب دوبارہ کال ملانے پر رضا مند نہ ہوئے۔

کچھ ایسی ہی صورت ان کی ناراضی کی ہے، فورم کے اجلاس میں نظم پیش کرتے، خوب توجہ سے گفتگو سنتے سنتے اکتا جاتے اور کسی بہت ہی معمولی سی بات پر ناراض ہو جاتے، اجلاس کے اختتام پر وہ اپنے کسی دیرینہ دوست کے بارے میں کہہ رہے ہوتے، ”ارے قاضی انہیں کہاں پتہ بھائی نظم کیا ہوتی ہے، کچھ نہیں پتہ انہیں“ اور اگلے دو تین دنوں میں سارا غصہ اور ناراضی دور ہو جاتی۔

اپنے شوق پر انہوں نے سمجھوتا کم ہی کیا ہے، ایک زمانے میں انہیں لٹریری تھیوری اور نیا امریکی ادب پڑھنے کا موڈ ہوا، تو انہوں نے سافٹ کاپی یا پائریٹڈ کو تو بالکل لفٹ نہیں کرائی، کئی بندے تلاش کیے ، انٹر نیٹ چھان مارا اور کئی ہزاروں روپے کی کتابیں منگوا ڈالی، ایسے ہی شوق کا نمونہ وہ پیانو کا بورڈ ہے، جو ان کی سٹڈی میں سالوں سے پڑا ہے۔ جس کا ماڈل بتاتا ہے یہ جس زمانے میں منگوایا گیا ہو گا اس زمانے میں تو اس کی زیارت کے لئے محلے والوں کا آنا بنتا تھا اور اب وہ بورڈ ان کے بیٹے باچا خان کے کھیلنے کے کام آتا ہے۔

جن دنوں وہ ’سطور‘ فیض نمبر کے لئے نظمیں ترجمہ کر رہے تھے ان دنوں میرا ان کے گھر باقاعدگی سے آنا جانا رہا، مگر میں جیسے ہی پہنچتا اور سوچتا اب ہم کام شروع کریں گے تو ان کا موڈ بدل جاتا، ”چھوڑ یار قاضی! یہ تو میں کر ہی لوں گا، چائے پیتے ہیں، کباب کھاتے ہیں۔“ اور اگلے دن ان کا پھر نظموں کو ترتیب دینے کا موڈ بن جاتا۔ اس موڈ کی تبدیلی اتنی اچانک ہوتی کہ مت پوچھئے، ابھی خواجہ صاحب کو چائے کا کہا تھا اور پھر وہ چائے کینسل کرائی اور اٹھ کھڑے ہوئی، او بھائی آؤ، فینٹا پیتے ہیں۔ شفیق پان والے پر جب ہم فینٹا چڑھا رہے تھے تو بچے دیکھ کہ مسکا رہے تھے کہ انکل کیسے مزے سے فینٹا پی رہیں ہیں اور ایک فنٹا سے کیا ہوتا ہے گرمی میں دو بوتلیں تو بنتی ہیں۔ پھر خواجہ صاحب پر واپس آ کر وہ کھلے پاجامے سے گولڈ لیف کی ڈبی نکال کر میز پر پٹختے اور چائے کے انتظار کو بیٹھ جاتے۔

انہوں نے شادی خاصے دیر سے کی اور شادی کے بعد تو دس بجتے ہی وہ کہنے لگتے بھئی چھٹی کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے۔ بیگم کی ڈانٹ سے بہتر ہے یہ پیالی چائے نہ ہی پی جائے۔

انہوں نے کبھی کسی شام کی اکیڈمی کا رخ نہیں کیا اور نہ ہی انگریزی زبان کے زمانوں کو رٹانے اور گرائمر سکھانے کے لئے کوئی فارمولا ایجاد کر کے شہرت سمیٹی ہے۔ ان کے برابر کے بے شمار پروفیسر صاحباں انگریزی سکھاتے سکھاتے اکیڈمیوں سے انگریزی طرز کے گھروں کے مالک بن گئے۔ مگر مہدی صاحب نے بس کلاس میں انگریزی پڑھائی اور ایسی کہ جس نے پڑھنی ہے تو پڑھے رونہ فارمولہ باز پروفیسروں سے نمبر حاصل کرنے کے تعویذ لکھوائے۔

ایسا ہی معاملہ لکھنے کا ہے، انہوں نے جتنا لکھا اتنا شائع نہیں ہوئے اور نہ ہی انہیں چھپنے کا اتنا شوق رہا، سادہ دلی تو ایسی ہے کہ سطور، انگارے، مٹھن اور موزیک میں شائع ہو جانے کو بھی وہ اپنے لئے بہت بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ ایک زمانے میں انہوں نے عابد عمیق کی نظمیں ترجمہ کی۔ وہ نظمیں بھی عابد صاحب کی کوششوں سے کتابی شکل میں آ گئی ورنہ مبشر صاحب کے کاغذوں میں بکھری رہتیں۔ اگر ان کی نسل کے لوگوں میں دیکھو تو اتنا صاحب مطالعہ شخص مشکل سے نظر آئے، وہ پڑھتے گئے اور اپنی پڑھت سے ادب کو سمجھنے کی پیچیدگی بڑھاتے گئے۔ اس مطالعے نے ان کے معیار کو جہاں لا کھڑا کیا وہاں ادب تخلیق کرنا ایک مشکل بن جاتا ہے۔ وہاں لکھنے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ خود آپ کے اندر بیٹھا ہوا ایک نقاد ہوتا ہے۔

اپنی عمر اور نسل کے دوست چاہے پھر وہ احمد ندیم تونسوی ہوں یا شوکت قادری ان کی سب سے بے تکلفی رہی۔ گول باغ کی ابتدائی محفلوں میں ایک روز میں نے سید عامر سہیل اور مہدی صاحب کی تکرار سنی جس میں باتیں کم اور گالیاں زیادہ تھیں، اور مہدی صاحب بات اپنے اسی آخری جملے پر ختم کرتے، ”ابے یار، تم لوگوں کو کیا پتہ۔“

فورم کی سلور جوبلی کی تقریب کے لئے میں ملتان گیا، اس دن ملتان کی گلیاں دریا بنیں تھیں، شام کو انہیں فون کیا تو معلوم ہوا ان کی گلی میں پانی بھرا ہے اور نکلنے کی کوئی صورت نہیں، پھر انہوں نے کوئی راستہ نکالنے کی صورت کا کہا اور اجلاس میں آنے کا عندیہ دیا۔ اس دن وہ سلور جوبلی کی تقریب میں نہ آ سکے۔ کچھ دنوں بعد ایک شکوہ بھرا فون کیا ”او بھائی، میں بارش میں پھنسا تھا، مجھے کوئی لینے ہی نہیں آیا، میری تو بیوی نے بھی طعنے دیے کہ جس فورم کی محبت میں ہر جمعہ میں بھاگا چلا جاتا ہوں، انہوں نے پوچھا بھی نہیں۔“ میں نے انہیں سب کی مصروفیت کا جواز دیا اور انہوں نے وہی کہا جو انہیں کہنا چاہیے تھا، ”قاضی، تو بچہ ہے ابھی، یہ سب دو نمبر لوگ ہیں۔“

مہدی صاحب اپنے معیارات اور سیدھی سیدھی باتوں سے دوستوں کو ناراض کیے رکھتے ہیں، اور اگر کوئی اس سادگی کے پیچھے چھپی معصومیت اور ایمانداری کو سمجھتا نہیں پھر وہ ان کا دوست بھی کہاں۔ وہ سماجی تعلقات کے کسی تکلف اور ضابطوں پر عمل پیرا نہیں۔ ان معصوم شکوؤں سے ایک ہی شخص مبرا ہے اور وہ جناب شوذب کاظمی ہیں۔ جنہیں مہدی صاحب اپنا استاد کلام و حیات دونوں ہی جانتے ہیں۔ شاعری کی بات ہو، عروض و بیان کی پیچیدگی ہو اور مبشر مہدی، شوذب کاظمی کا حوالہ نہ دیے ایسا کم از کم اس صدی میں ممکن نہیں لگتا۔

میں ان کی ذاتی زندگی کو زیادہ نہیں جا نتا مگر انہوں نے جب کبھی اپنے مرحوم والد کو یاد کیا، عقیدت سے کیا اور ان کے لہجے اور لفظوں سے صاف معلوم ہو گیا وہ کس قدر لاڈلے رہے ہوں گے۔ وگرنہ ان کی سختی کا تو یہ عالم ہے کہ جن دو انگلیوں سے وہ سگریٹ کے کش لیتے ہیں وہ بچاری دباؤ سے باریک ہو کر پینسل کے سکے کی شکل بنا چکی ہیں۔

مہدی صاحب نے نثر بھی لکھی مگر زیادہ ہاتھ شاعری پر چلایا۔ انگریزی سے اردو تراجم تو ہوتے رہتے ہیں مگر ان کا اہم کام اردو سے انگریزی میں شاعری کا ترجمہ ہے اور شاعری کا ترجمہ کرنا کوئی معمولی کام نہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے کلاسیک یا معروف شعراء کے ترجمہ کی بجائے اپنے قریب کے لوگوں کو ترجمہ کیا جن کی شاعری کے سفر، مزاج اور اسلوب سے وہ واقف تھے۔ یوں بہت حد تک وہ ان شاعری کی روح کو انگریزی قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔

اب تک ان کی ترجمہ نگاری پر بات نہیں ہوئی، شاید اس کی وجہ اس جگہ پر شائع نہ ہونا ہے جہاں وہ ٹھیک انداز میں پڑھی اور سمجھی جا سکے۔ مگر مجھے یقین ہے ایک وقت میں ملتان میں انگریزی پڑھنے والے ان کے تراجم کو ضرور اپنے مباحث میں شامل کریں گے۔ اور اگر ان کی اپنی نظموں پر نظر ڈالیں تو وہ جدید اردو نظم کی روایت کا ایسا تسلسل ہے جو اسے زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ان کی نظمیں راشد اور فیض کی شاعری کا سفر آگے لے کر چلے گی۔

مبشر صاحب نے انگریزی میں بھی بہت لکھا، بھلے زیادہ نان فکشن لکھا، مگر ان کے انگریزی مضامین فکشن کے قریب قریب کی کوئی چیز معلوم ہوتے ہیں۔ انگریزی زبان پر ان کی دسترس سے کوئی کافر ہی انکار کرے گا، ملتان میں جن لوگوں نے انگریزی لسانیات کو بہت قریب سے نہ صرف پڑھا بلکہ پرکھا مہدی صاحب ان میں سے ایک روشن مثال ہیں۔ سطور 9 کے انگریزی حصے میں ان کا گوشہ بنایا گیا تھا، ان مضامین کا مواد اتنا تھا کہ وہ با آسانی ایک کتابی شکل میں شائع ہو سکتے تھے، مگر انہوں نے سطور میں چھپنے کو ہی فوقیت دی۔

مجھے یاد ہے 2015 میں مہدی صاحب پر ڈپریشن کا شدید حملہ ہوا، وہ بیمار ہوئے اور خودساختہ قید میں چلے گئے۔ وہ وقت بہت مشکل تھا کئی ہفتوں بعد کسی دوست کو کہیں سے ان کی صحت کی اطلاع مل جاتی۔ کچھ مہینوں بعد وہ دنیا میں واپس پلٹے تو تنہائیوں کی ویرانی سے کچھ کشید کر آئے تھے، تب عالم یہ تھا کہ وہ نظموں پر نظم کہے جاتے تھے، حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ فورم پر ہر ہفتے نظم پڑھنے کے لئے اسرار کرنے لگے اور ان دنوں کے حاضرین ان کو سن سن کر

تھک چکے تھے۔ نظموں کا ذخیرہ ان کے پاس ہمیشہ رہتا تھا۔ جن دنوں میں فورم کا سیکریٹری تھا اور کسی ہنگامی صورت حال میں کوئی تحریر پیش کرنے والا نہ ہوتا تو میری آخری امید مبشر مہدی ہوا کرتے تھے۔

ان کے مطالعہ کی باریک بینی کا اندازہ اس بات سے ہو، جب کولاج 2 شائع ہوئی اور پھر بھلا دی گئی تو ایک دن مبشر صاحب نے اجلاس کے بعد مجھے پکڑ لیا:

”او بھئی قاضی، تم سے ایک بات کرنی ہے۔“ میرا خیال تھا وہ اگلے جمعہ کچھ پڑھنا چاہتے ہیں۔

”اوے یار! وہ کولاج 2 کی فلانی رپورٹ میں فلانے کی تحریر پر جو میری گفتگو ہے، وہ تم نے فلانے کے نام سے لکھ دی، اسے دیکھو وووو، Be careful while taking notes میری جان۔“

”ایسا ممکن نہیں سر۔“ میں نے انکساری سے گزارش کی۔
”بھئی، ایسا ہی ہے۔ Please Re-Check۔ “

میں نے انہیں دوبارہ دیکھنے کا یقین دلایا مگر مجھے یقین تھا ایسا کچھ نہیں، اس رات میں نے رجسٹر نکالے اور وہ رپورٹ ڈھونڈ نکالی، تصدیق کرنے کے بعد پہلے شرمندہ سا ہوا اور پھر ان کے نظر کی باریکی کا قائل ہو گیا۔

گرمیوں میں جب وہ ہیٹ پہن کر، کھلی شرٹوں میں ملتان کی سڑکوں پر گھومتے ہیں، اور کسی چائے خانے پر رک کر سگریٹ کی ڈبیا میز پر پٹختے ہوئے اپنی بھاری آواز کا والیم بلند کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے، ولیم ہیلے کی بزرگی ملتان کی سیر کو آئی ہے۔ اگر ان کی جنس بدل کر جثہ کچھ کم کر دیں تو ان کے نین نقش ہیلے ولیم جیسی گلوکارہ میں بدل جائے (ولیم ہیلے انگریزی کے معروف شاعر اور ہیلے دلیم نئی پود کی پوپ سنگر ہیں ) ۔ حلیہ کا شبہ بیشک ولیم ہیلے جیسا ہو مگر ان کو محبت ملٹن اور کیٹس سے ہی ہے۔ جو کہیں اس غصیلے درویش کی رگوں میں دوڑتے پھرتے ہیں۔

مبشر مہدی ایسا شخص ہے جو ایک ہی لمحے میں لوگوں کو اپنا دوست اور دشمن جانتا ہے، وہ ایسا فرد ہے جو بیک وقت رشتوں سے جڑا اور کٹا ہوا ہے اور جن سے وہ محبت کرتا ہے ان سے اتنی ہی نفرت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ ایسا قابل استاد ہے جو طالب علموں کو پڑھانے سے اکتا چکا ہے۔ وہ ایک غصے سے بھرا معصوم بچہ ہے جو خود سے بھی اتنی محبت نہیں کرتا جس کا وہ حق دار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments