طلاق ناحق قتل ہونے سے بہتر ہے


جی ہاں!
نور مقدم کا وحشت ناک قتل اور اب سارا کا بھیانک انجام۔ ظاہر جعفر اور شاہنواز۔

نام بدل جاتے ہیں۔ چہرے بدل جاتے ہیں لیکن کہانی کے کردار نہیں بدلتے۔ کہانی دوہرائی جاتی ہے۔ متواتر دوہرائی جاتی ہے، دہرائی جا رہی ہے اور اسی طرح دہرائی جاتی رہے گی۔ کہانی کوئی نئی بھی نہیں۔ صدیوں سے اس پدر سری معاشرے کا حصہ ہے۔ یہ مادر زاد منافق معاشرہ ہے جہاں کہیں بھی توازن نہیں ہے

یہ مردہ معاشرہ ہے۔ جس کے تعفن کے ہم سب اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ شاید اب اگر کہیں سے حق اور سچ کی خوشبو اتفاقاً پھوٹ نکلے تو وہ ہماری قوت شامہ کو راس نہیں آتی بری لگتی ہے۔ ہم جھوٹ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ سچ، سچ نہیں لگتا۔ اندھیروں سے اتنے مانوس ہو گئے ہیں کہ روشنی کی پہچان بھول بیٹھے ہیں۔ قتل، خودکشی، ریپ، بچوں کے ساتھ بدفعلی، تشدد روز کی کہانی ہے۔ ہمارا پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، ابلاغ کے سبھی ذرائع اسی قسم کہ خبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ جن میں نئی نئی سرخیوں سے سجا کر نت نئے انداز سے کہانی کو کسی طوائف کی طرح اس طرح بازار میں پیش کیا جاتا ہے کہ بس کسی طرح دلوں کو گھائل اور آنکھوں کو خیرہ کردے اور سنسنی پھیلا دے۔ اور ہم سب اس کے مزے لیتے ہیں۔ یہ مزہ بھی اک ایڈکشن ہے۔

حال ہی میں دعا زہرا کیس کی مثال لے لیجیے۔ ہر ابلاغ کے ذرائع ریکارڈ توڑنے کی تگ و دو میں تھے تو عوام کی حالت اس سے زیادہ دگرگوں تھی۔ انگلیاں فقط سیل فون پر سکرولنگ میں مصروف اور زبان بغیر سوچے سمجھیں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں مصروف۔ کیس ابھی تک جاری و ساری ہے لیکن چسکہ کم ہوا تو اب دوسری کہانی مل گئی۔ ایک حوا کی بیٹی کی لرزہ خیز قتل کی کہانی جو نئی ہرگز نہیں ہے۔

میں کہانی نہیں لکھوں گی کہ سب جانتے ہیں۔ یہ تو معاشرے کے نامور افراد کے گھر کی کہانی ہے۔
یہاں تو قدم قدم پر حوا کی بیٹی قتل ہوتی چلی آئی ہے۔ برباد ہوتی رہی ہے۔ ایک زینب کیس یا اس جیسے کچھ سامنے آ گئے ورنہ کتنی ہی بچیاں معاشرے کے بھیانک رویوں کی نذر ہوتی ہیں لیکن معاشرے میں بدنامی کا خوف خود لواحقین کی زبان بند رکھتا ہے۔ ”چپ رہو“ اور سب سہ جاؤ۔

کتنی ہی حوا کی بیٹیاں مردہ پائی جاتی ہیں۔ کہیں گلے میں پھندا خودکشی کا بتایا جاتا ہے حال ہی میں مشہور شاعرہ و ادیبہ سیمیں درانی کا قتل اسی صورت میں سامنے آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ خودکشی بھی مرے نزدیک قتل ہے۔ کسی بھی انسان کو اس نہج تک لانے کا ذمے دار بھی یہی معاشرہ ہے۔

اور قتل عمداً بھی معمول کی بات ہے کہ قاتل نہ صرف بربریت کے ساتھ قتل کرتا ہے بلکہ قبولتا بھی ہے اور آلہ قتل بھی برامد ہوتا ہے۔ شواہد بھی موجود ہوتے ہیں پھر بھی قانون کے ہاتھ اتنے شل کیوں ہو جاتے ہیں کہ سزا نہیں ملتی۔ اگر نور مقدم کیس میں قاتل کو عبرتناک سزا دی جاتی تو آج ایک اور حوا کی بیٹی نہیں اس درندگی کا شکار نہیں ہوتی۔

اور پھر ہر قاتل کو بچانے کے لیے اسے نفسیاتی مریض یا جنونی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پہلی بات یہ کہ قتل یا ریپ جیسا قبیح عمل کیا ہی حالت جنون میں جاتا ہے۔ جس تواتر سے ان بھیانک جرائم کی شرح معاشرے میں بڑھ رہی ہے اس کے مطابق تو پورا معاشرہ بیمار ذہنی کا شکار ہے۔ سب جنونی اور نفسیاتی مریض ہیں۔

عورت پر تشدد تو ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے۔ روز قتل ہوتی ہے۔ دن میں کئی بار قتل ہوتی ہے۔ کہیں جسمانی تشدد ہے تو کہیں ذہنی تشدد۔ ذہنی اذیت جو خودکشی یا پاگل پن تک لے جاتی ہے۔

ایک بیمار اور متشدد ذہن کا مرد اور ایک ذہنی اذیت کا شکار عورت، دونوں مل کر معاشرے کو اپنی اولاد کی صورت میں صرف ذہنی اور نفسیاتی گرہوں کا شکار افراد کا تحفہ دے سکتے ہیں جو معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا کرے۔ یہ چین بڑھتی چلی جا رہی ہے سب کہانی کے چٹخارے لیتے ہیں۔ سدباب کا کوئی نہیں سوچتا۔

ہمیں تربیت کی ضرورت ہے۔ ہمارے دلوں اور ذہنوں کو تطہیر کی ضرورت ہے۔ پیرنٹنگ کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ماؤں کی تربیت کی جائے کہ وہ بیٹوں کی تربیت کیسے کریں۔ یہی نہیں بچیوں کو سیلف ڈیفنس سکھایا جائے۔ یہاں تو پیدا ہوتے ہی ذہنی طور پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ بس جس گھر میں رخصت ہو کر جاؤ گی جنازہ بھی وہیں سے نکلے۔ عورت کو اسلام نے جو حقوق دیے وہ ادا کرنا تو دور کی بات ہے آگاہ بھی نہیں کیا جاتا۔ شادی کے وقت نکاح نامے پر سب سے پہلے کراس اسی کالم پر لگایا جاتا ہے جہاں تحریر ہے طلاق کا حق عورت کے پاس ہو۔ خدارا سوچ کو بدلیے!

طلاق، قتل ناحق ہو جانے سے بہتر ہے۔ طلاق خود کشی سے بہتر ہے طلاق منہ پر تیزاب کی اذیت سہنے سے بہتر ہے طلاق چولھا پھٹ کر زندہ جلنے اور کھولتی ہوئی دیگ میں ابلنے سے بہتر ہے۔

خود اپنے لیے بصیرت افروز فیصلے کیجیے اور اپنی اولاد کے لیے فیصلے کرتے وقت تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی نگاہ کیجیے۔ اولاد کی تربیت میں جانب داری نہ برتیں بیٹوں کو بھی اسی طرح تربیت اور اخلاقی اقدار سے آگاہ کرنے کی کی ضرورت ہے جیسے کے بیٹیوں کو۔ بیٹوں کو بھی ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جیسے کہ بیٹیوں کو۔

شادی کے فیصلے کے وقت بچیوں کو بھی بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ اس ضمن میں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی کی ذہن سازی اس طرح کی جائے کہ اگر وہ پسند کی شادی کرتے بھی ہیں اپنے لیے بہترین شریک سفر کا انتخاب کرسکیں اور والدین کو اپنے فیصلوں میں مشیر اور شریک رکھیں۔

اس سلسلے میں معاشرے کے وہ تمام افراد جو جن کے پاس قلم ہے، نطق و بیان ہے، اساتذہ، ماہر نفسیات، علما، شعرا، ادیب دانشور، مائنڈ سائنس کے ماہرین، میڈیا سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ اسکول، کالجز اور اداروں میں اخلاقی تربیت کی ورکشاپس کرائی جائیں۔ مشقیں کرائی جائیں۔ بالخصوص بلوغت کے بعد اور شادی سے پہلے اخلاقی تربیتی نشستوں کی اشد ضرورت ہے۔ باقاعدہ منظم طور پر ذہن سازی اور کردار سازی کی جائے ورنہ معاشرہ تنزلی کی آخری حدوں پر پہنچ جائے گا بلکہ پہنچ چکا ہے۔ اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔

ڈاکٹر ثروت رضوی۔ واشنگٹن ڈی سی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments