شیخ کرکٹ ثقلین مشتاق نے ٹیم کی ناقص کارکردگی کی وجہ دریافت کر ڈالی


ملتان کے ایک مخدوم گزرے ہیں جنہیں سرکار کے ایک اہم عہدے پر رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ ان کا ڈیرہ ہر وقت لوگوں سے آباد رہتا تھا، لوگ جوق در جوق اپنے مسائل لے کر حاضر ہوتے تاکہ مخدوم صاحب اپنے وسیع ترین روحانی و دنیاوی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ان کے مسائل و دکھوں کا مداوا یا تدارک کر دیں۔ اس ہجوم میں اکثریت غرباء کی ہوا کرتی تھی، ازل سے ایسا ہی ہوتا آ یا ہے بس کردار بدل جاتے ہیں، جن کا پہلا سہارا آسمانی خدا اور دوسرا سہارا زمینی خدا ہوتے ہیں جنہیں وہ خود اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے سروں پر مسلط کرتے ہیں، جب کہ اشرافیہ و جاگیر دار طبقہ کی دونوں خداؤں سے خوب بنی رہتی ہے کیونکہ ان کے ”وچولے“ بہت تگڑے ہوتے ہیں جو انہیں ہرگز رسوا نہیں ہونے دیتے۔

جیسے مولوی یا پیر فقیر کی ڈائریکٹ آسمانی خدا سے لائن ملی ہوتی ہے بالکل اسی طرح سے طبقہ اشرافیہ کی بھی ڈائریکٹ لائن زمینی خداؤں سے ملی ہوئی ہوتی ہے۔ پیچھے رہ گئے غرباء، مساکین و نادار یا کھلے لفظوں میں کہیں انتہائی بے بس لوگ جن کے ذہنوں میں صدیوں سے یہ بات نقش کر دی گئی ہے کہ ان ”وچولوں“ کے سامنے تمہاری قابلیت و ذہانت کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور جو کچھ بھی ملے گا یا حاصل کرنے کی آرزو ہوگی انہی کے فیضان نظر سے ملے گا ورنہ نامراد رہو گے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ایلیٹ طبقے کا آپس میں نیٹ ورک انتہائی مضبوط ہوتا ہے ضرورت پڑنے پر ہاٹ لائن کی صورت میں ”سیف ٹاک“ کی سہولت بھی میسر رہتی ہے اور اپنے اپنے حصے کے ”کمیوں“ کو ٹکے ٹکے پر بہلائے رکھتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی مخدوم صاحب کی کہ جب لوگ اپنے مسائل لے کر حاضر ہوتے تو مخدوم صاحب انتہائی صبرو تحمل اور انہماک کے ساتھ ہر ایک کی دکھ بھری داستان سننے کے بعد مداوا کے طور پر صرف یہی ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ

”اللہ کریسی“

مطلب اللہ آپ کے مسائل حل کرے، اتنا کہہ کر منظر سے غائب ہو جاتے۔ سننے والوں کو اتنی توفیق و جرات بھی نہ ہوتی کہ وہ اتنا تو کہہ سکتے کہ

”جناب اگر اللہ نے ہی کرنا ہے تو آپ اتنے بڑے عہدے پر پھر کیوں براجمان ہیں؟“

درمیان میں سے ہٹ جائیں اور گھر جا بیٹھیں مگر صدیوں کی ذہنی غلامی تمام دم خم ختم کر دیتی ہے اور امید کے تمام دریچوں پر قفل ڈال دیتی ہے۔ بالکل یہی رویہ و جھلک ہمیں ثقلین مشتاق کے بیان میں دکھائی دی۔ موصوف نے بھی کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی کو قدرت کے کھاتے میں ڈالا اور ہنستے مسکراتے چلتے بنے۔ نہ کوئی ندامت نہ کوئی شرم دوران گفتگو اتنا وقفہ بھی نہیں لیا کہ سیکنڈ تھاٹ کا تکلف کر کے نپے تلے لفظوں میں ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کرتے۔ فرماتے ہیں کہ

”رات دن سردی گرمی بارش اور گھٹا قدرت کے نظام کے تحت چلتے ہیں۔ کھیل بھی کچھ اسی طرح سے ہوتا ہے ہار جیت ہوتی رہتی ہے ہمیں قبول کرنا چاہیے۔ اب قدرت کا نظام ہی ایسا ہے تو اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں ہم تو بے بس ہیں“

واہ کیا کمال کا ہمارا ہیڈ کوچ ہے یار؟ ایسے کمال کے کوچ دنیا کے حصہ میں کہاں؟ وہ تو بیچارے ان جیسے نابغوں سے محروم ہیں، بلاوجہ سخت قسم کی جسمانی کثرت میں اپنا ٹائم برباد کرتے رہتے ہیں ہم سے رابطہ کر لیں ہم تو ان جیسے نابغوں میں پہلے ہی بہت خود کفیل ہیں، بھیج دیں گے ان کی خواہ مخواہ کی ہارڈ قسم کی پریکٹس سے جان چھوٹ جائے گی اور ہمارے فارغ البال نابغین کا روزگار بھی لگ جائے گا۔ ہم کتنے ایزی ٹائپ کے لوگ ہیں یار نہ کوئی ہار جیت کی اسٹریٹجی، نا کوئی جامع حکمت عملی و پریکٹس اور خالص انسانی کھیل کو قدرت کا کھیل ثابت کر کے انتہائی ڈھٹائی سے چلتے بنتے ہیں۔

سوال کرنے والے پوچھنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے کہ اگر سب کچھ قدرت کرتی ہے تو پھر آپ کن بنیادوں پر کروڑوں روپے بٹورتے ہو؟ گھر جائیں ٹیم جانے یا قدرت جانے مگر نہیں چپڑی بھی چاہیے اور وہ بھی دو دو۔ ویسے آپ تصور تو کریں کہ کیسا منظر ہو گا کہ میچ جیتنے یا ہارنے کے بعد کھلاڑی آپس میں بیٹھے ہوں اور سامنے سابقہ کرکٹر اور موجودہ تبلیغی مشائخ انضمام الحق، ثقلین مشتاق اور سعید انور وغیرہ بیٹھے ہوں اور وہ کھلاڑیوں سے کچھ اس انداز میں مخاطب ہوں کہ

”ہم آج کا میچ اس وجہ سے ہارے کہ فلاں نے فجر کی نماز نہیں پڑھی، دوسرے نے تسبیحات کا ورد نہیں کیا یا فلاں فلاں نے اشراق، چاشت یا اوابین نہیں پڑھی اور جب میچ جیت جائیں تو اس قسم کی باتوں کا دور چل رہا ہو کہ آج کا میچ ہم اس وجہ سے جیتے چونکہ سب نے دینی مشاغل پورے اہتمام و خشوع خضوع سے پورے کر لیے تھے“

اب اس قسم کے روحانی ماحول میں کرکٹ جیسے گندے کھیل پر بھلا بات کون کرے گا؟ جب سارا فوکس کہیں اور منتقل ہو چکا ہو تو پھر زمین پر قدم کہاں ٹکتا ہے؟ جب ہم روحانی طور پر دنیا میں موجود ہی نہ ہوں تو ظاہر ہے میچ تو وہی جیتیں گے جو حقیقی طور پر خود کو جیتی جاگتی دنیا کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے گراؤنڈ میں جان توڑ قسم کی کاوشوں میں مصروف ہوں گے۔ جن کے قدم زمین پر مضبوطی سے ٹکے رہتے ہیں وہی میدان کے شہسوار ہوتے ہیں اور جو روحانی طور پر اپنا مقام بدلتے رہتے ہیں ان کا حشر یہی ہوتا ہے جو آج ہو رہا ہے۔ دنیاوی فیوض و برکات کو سمیٹنے کے لیے آپ کا باہوش طریقے زمین پر موجود ہونا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ہم یہی کہتے ایک دن صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے کہ جو کروا رہا ہے سب امریکہ کروا رہا ہے اور یہود و نصاریٰ کو ہماری خوشیاں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments