کیا آپ خدا اور فرشتوں سے باتیں کرتے ہیں؟ پہلی قسط


 

جب ہم ان لوگوں کا نفسیاتی و سائنسی تجزیہ کرتے ہیں جن کا دعوہ ہے کہ ہم خدا اور فرشتوں سے ہمکلام ہوتے ہیں تو ہم انہیں چار گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں

پہلا گروہ۔ ذہنی مریض
دوسرا گروہ۔ سنت سادھو اور صوفی
تیسرا گروہ۔ مرگی کے مریض
چوتھا گروہ۔ عام انسان

پہلا گروہ۔ ذہنی مریض

پچھلی چند دہائیوں میں مختلف کلینکوں اور ہسپتالوں میں ماہر نفسیات کے طور پر کام کرتے ہوئے میری کئی ایسے ذہنی مریضوں سے ملاقات ہوئی جن کا کہنا تھا کہ وہ خدا اور فرشتوں سے باتیں کرتے ہیں۔ وہ کئی مذہبی توہمات کا شکار تھے جو نفسیات کی زبان میں ڈیلوژن کہلاتے ہیں۔

ایک مرد نے کہا۔ میں عیسیٰ ہوں
ایک عورت نے کہا۔ میں عیسیٰ کی ماں بی بی مریم ہوں۔

مجھے کئی ایسے مریضوں کا علاج کرنے کا موقع ملا جو کہتے تھے انہیں خدا اور فرشتوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جنہیں ہم نفسیات کی زبان میں

ہلوسینیشن کہتے ہیں۔ وہ آوازیں انہیں کچھ کرنے کا حکم دیتی تھیں جن پر وہ بغیر سوچے سمجھے عمل کرتے تھے۔ یہ احکام مریضوں کے رشتہ داروں کے لیے بہت پریشان کن تھے۔

پاکستان میں میرے ایک مسلمان مریض نے نرس کو بتایا کہ اسے خواب میں خدا نے بتایا ہے کہ وہ ابراہیم ہے اور اسے اپنے بیٹے کی قربانی دینی ہے۔ ہم نے اس کے گھر والوں سے کہا کہ وہ اس کے بیٹے کو گاؤں لے جائیں تا کہ وہ محفوظ رہے۔ وہ شخص سکزوفرینیا کی ذہنی مرض کا شکار تھا۔ ہم نے اس کا علاج ادویہ اور تھراپی سے کیا۔ جب وہ صحتمند ہو گیا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ ذہنی مرض کا شکار تھا اور وہ خواب بھی اس کے مرض کا حصہ تھے۔ صحتمند ہونے کے بعد اس نے اپنے بیٹے سے معافی مانگی۔

سکزوفرینیا کے مریضوں میں مذہبی توہمات کے علاوہ ذہنی مرض کی اور علامات بھی موجود ہوتی ہیں۔ نہ وہ کھانا کھا سکتے ہیں نہ وہ سو سکتے ہیں۔ وہ دن بھر حیران و پریشان رہتے ہیں۔ بعض کا ذہنی دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اگر ان کا بروقت اور مناسب علاج نہ ہو سکے تو وہ خودکشی کر لیتے ہیں۔ وہ لوگ جو ماہرین نفسیات سے اپنا علاج کرواتے ہیں وہ علاج سے اپنی بیماری کو کنٹرول کر لیتے ہیں۔ صحتمند ہونے کے بعد انہیں خدا اور فرشتوں کی آوازیں آنی بند ہو جاتی ہیں۔

جب ہم ذہنی امراض کی شماریات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں ایک فیصد لوگ سکزوفرینیا کا شکار ہوتے ہیں جن بچوں کی ماں یا باپ ذہنی مرض کا شکار ہوں ان کے ذہنی مرض کا شکار ہونے کے امکانات ایک سے دس فیصد ہو جاتے ہیں۔ اگر ایک جڑواں بچہ ذہنی مرض کا شکار ہو تو دوسرے جڑواں بچے کے مریض ہونے کے امکانات پچاس سے ستر فیصد ہو جاتے ہیں۔ اس تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ذہنی مرض موروثی مرض ہے۔

ایسے بچوں کے دماغ میں ڈوپامین ’نور ایڈرینالین اور سیروٹوتن جیسے کیمیائی مادوں کی کمی ہوتی ہے اور جب وہ جذباتی الجھنوں اور نفسیاتی مسئلوں کا شکار ہوتے ہیں تو ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو ماہر نفسیات سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ اپنے ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل کا علاج کروا سکیں۔

دوسرا گروہ۔ سنت سادھو اور صوفی

پچھلی چند دہائیوں میں میں نے بہت سے سنتوں سادھوؤں اور صوفیوں کی سوانح عمریاں پڑھی ہیں جن میں انہوں نے اپنے روحانی تجربات کا ذکر کیا تھا۔ ایسے تجربات جن کی وجہ سے انہوں نے سلوک کی منزلیں طے کر کے معرفت حاصل کی تھی۔ میں یہاں بیسویں صدی کے ایسے دو انسانوں کا ذکر کروں گا جنہوں نے اپنے روحانی تجربات کو بیان کیا ہے۔

میتریا بیسویں صدی کے سادھو تھے جن کا دعوہ تھا کہ وہ بدھا کا نیا جنم ہیں۔ وہ اپنی کتاب۔ امن کے صحیفے۔ گوسپل آف پیس۔ میں لکھتے ہیں

’ جب کوئی شخص صحیفہ لکھتا ہے تو وہ صحیفہ اسے ایک نئی زندگی دیتا ہے اور وہ شخص روحانی طور پر دوبارہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہ تجربہ ہے جو مختلف روایتوں میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ کوئی اسے معرفت کوئی ستوری۔ کوئی انالحق۔ اور کوئی آفاقی شعور کا نام دیتا ہے۔ ‘

میتریا اپنے ایک روحانی تجربے کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں
’ تقریبا چار بجے صبح مجھے ایک یزدانی قوت نے جگا دیا اور پھر مجھے ایک غیبی آواز آئی جس نے کہا
اپنا قلم اٹھاؤ اور لکھو
میں تمہیں آخری صحیفہ دینا چاہتا ہوں
جو امن کا صحیفہ گوسپل آف پیس کہلائے گا
اس کائنات کا نہ کوئی آغاز تھا نہ کوئی انجام ہو گا
نہ اس کی پیدائش ہے نہ موت
میں نے اپنے سوا کچھ تخلیق نہیں کیا ’

میتریا کا دوسرا نام پروفیسر ہونڈا تھا۔ وہ ٹورانٹو یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر تھے۔ ان کا انتقال 1990 میں ہوا۔ ان کے بہت سے طالب علم اور پیروکار ان کا بہت احترام کرتے ہیں۔

بیسویں صدی کے ایک اور رہنما کرشنا مورتی تھے۔ وہ ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی جب ملاقات
THEOSOPHICAL SOCIETY OF INDIA

کی دانشور این بیسنٹ سے ہوئی تو این کو اس بچے میں روحانیت کی جھلک نظر آئی چنانچہ وہ کرشنا مورتی اور ان کے بھائی کو انگلستان لے آئیں تا کہ اس بچے کی روحانی خطوط پر تربیت کی جا سکے۔

سنہ 1922 میں کرشنا مورتی ایک کانفرنس میں شرکت کرنے سڈنی آسٹریلیا گئے جہاں ان کی ملاقات روحانیت کے استاد لیڈبیٹر سے ہوئی پھر کرشنا مورتی کیلی فورنیا آئے جہاں ان کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا۔ وہاں انہوں نے روحانیت کی ریاضت کی تا کہ انہیں نروان حاصل ہو سکے۔

وہ اس راستے پر چل پڑے جس کی معراج کنڈالنی کا روحانی تجربہ ہے۔ اس تجربے میں انسان کا شعور اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں عام انسانوں کی رسائی نہیں ہوتی۔ اپنے ایک ایسے ہی تجربے کا ذکر کرشنا مورتی این بیسنت کے نام اپنے ایک خط میں ان الفاظ میں کرتے ہیں

’ انیس تاریخ کو میں روحانی معراج پر پہنچا۔ میری سوچ معطل ہو گئی اور میں سارا دن بستر پر لیٹا رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں بیہوش ہو رہا ہوں لیکن میں اس بیہوشی میں بھی پوری طرح ہوش میں تھا۔ اس دن مجھے ایک غیر معمولی تجربہ ہوا۔

میں گھر کے باہر بیٹھا تھا۔ مجھے ایک مزدور نظر آیا جو سڑک کی مرمت کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ہتھوڑی تھی جس سے وہ پتھر توڑ رہا تھا۔ اس کے ایک طرف گھاس تھی اور دوسری طرف درخت جس پر پرندے بیٹھے تھے۔ قریب سے ایک کار گزر رہی تھی۔

مجھے یوں لگا جیسے میں بیک وقت مزدور بھی تھا پتھر بھی اور ہتھوڑی بھی۔ میں گھاس بھی تھا اور پرندہ بھی اور درخت بھی۔ میں گاڑی بھی تھا اور سڑک بھی۔ میں اپنے ماحول کی ہر چیز میں موجود تھا اور ہر چیز مجھ میں موجود تھی۔ میں اس جذب کا عالم میں سارا دن رہا۔ اس دن میرے اندر سے روشنی پھوٹنے لگی۔ اس دن میں خدا میں اور خدا مجھ میں تحلیل ہو گیا۔ ’

کرشنا مورتی کو کئی مہینوں تک ایسے روحانی تجربات ہوتے رہے۔ کئی دفعہ تو کرشنا مورتی کی حالت اتنی ناگفتہ بہہ ہوئی کہ ان کے بھائی اور دوستوں کو فکر ہوتی کہ کہیں وہ مجذوب نہ بن جائیں پاگل نہ ہو جائیں۔

کئی مہینوں کی ریاضت اور تپسیا کے بعد کرشنا مورتی پر ان کی زندگی کا مقصد منکشف ہو گیا۔ انہوں نے فروری 1927 کو لیڈ بیٹرکو خط میں لکھا۔

’مجھ پر میری زندگی کا راز واضح ہو گیا ہے۔ میں شعور کی ایک نئی منزل سے متعارف ہوا ہوں‘ پھر 1929 میں ایک خط میں لکھا ’خواب مکمل ہو گیا ہے۔ میں آزاد ہو گیا ہوں‘ جب انہیں معرفت مل گئی تو انہوں نے تھیوسوفیکل سوائٹی سے استعفیٰ دے دیا اور ایک درویشانہ زندگی گزارنا شروع کر دی۔

انہوں نے اپنے فلسفے کو ان الفاظ میں بیان کیا

’سچ تک پہنچنے کے لیے کسی راستے کسی مسلک اور کسی مذہب کی ضرورت نہیں۔ سچ بے پایاں اور بیکراں ہے۔ سچ آزاد ہے۔ اسے کسی روایت میں قید نہیں کیا جا سکتا‘ ۔ معرفت حاصل کرنے کے بعد کرشنا مورتی ایک درویش کی طرح نصف صدی تک ساری دنیا میں گھومے اور اپنے علم ’تجربے اور دانائی سے لوگوں کے دلوں میں آگہی کی شمعیں جلائیں۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ انہیں روایتی مذہب کی شاہراہ کو چھوڑ کر اپنے من کی پگڈنڈی پر چلنا چاہیے۔

کرشنا مورتی کے پرستاروں میں ہندوستان کے تین نسلوں کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی شامل تھے جو ان سے مختلف مسائل کے بارے میں مشورے کرتے تھے۔ ان کے چاہنے والوں اور ان سے فیض حاصل کرنے والوں میں تبت کے بزرگ دالائی لامہ‘ برطانیہ کے ماہر نفسیات آر ڈی لینگ اور امریکہ کے فلاسفر جوزف کیمبل بھی شامل ہیں۔

کرشنا مورتی بیسویں صدی کے کے معتبر ’موقر اور معزز ماہرین روحانیات میں شامل ہیں۔

ذہنی مریضوں اور روحانی پیشواؤں کا مقابلہ

جب ہم جدید سائنس اور سیکولر نفسیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں مغربی ماہرین نفسیات یہ بتاتے ہیں کہ ایک سادھو اور ایک ذہنی مریض کے تجربات میں بہت فرق ہے۔ ذہنی مریض اپنے مذہبی تجربات کے بعد ذہنی بحران کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی شخصیت میں شکست و ریخت ہونے لگتی ہے۔

وہ اندر سے ٹوٹنے پھوٹنے لگتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سنت سادھو اور صوفی کی شخصیت میں اس کی روحانی تجربات سے نشوونما ہوتی ہے اور وہ ایک بہتر انسان بن جاتا ہے۔ روحانی تجربات اس کی زندگی کو نئے آدرش دیتے ہیں اور اس کی زندگی میں ایک نیا مقصد پیدا ہو جاتا ہے۔

ایک امریکی ماہر نفسیات سلوانو ایرئیتی  ایک سکزوفرینیا کے ذہنی مریض اور صوفی کے روحانی تجربات کا نفسیاتی مقابلہ ان الفاظ میں کرتے ہیں

’ صوفی کے روحانی تجربات سے اس میں خود اعتمادی کو بڑھاوا ملتا ہے۔ ان تجربات سے اس کی زندگی میں نئے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اسے اپنی قوم کو سنوارنے اور خدمت خلق کرنے کا نیا مشن ملتا ہے۔

صوفی کا روحانی تجربہ نفسیاتی طور پر خودساختہ اوٹو ہپناسس  کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس تجربے میں صوفی شعور کی ایک اعلیٰ کیفیت سے روشناس ہوتا ہے اور اپنے ذہن کا تعلق یزداں سے جوڑتا ہے۔ یہ تعلق مختصر وقفے کا ہوتا ہے جس کے بعد وہ صوفی عام شعوری کیفیت میں پوری طرح لوٹ آتا ہے۔ صوفی کے روحانی تجربے کے مقابلے میں ذہنی مریض کا ذہنی تجربہ اس کی شخصیت کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے۔

صوفی کا تجربہ نفسیاتی حوالے سے مثبت جبکہ ذہنی مریض کا تجربہ صحت کے حوالے سے منفی تجربہ ہے۔

مغرب کے سائنسدانوں اور ماہرین نفسیات صوفی کے تجربات اور ذہنی مریض کے تجربات کو دو مختلف خانوں میں بانٹتے ہیں لیکن مشرق کے روحانی ماہرین ان کے تجربے سے اتفاق نہیں کرتے۔

جون وائٹ اپنی کتاب۔ معرفت کیا ہے۔
WHAT IS ENLIGHTENMENT؟
میں لکھتے ہیں ’انسانی شعور کے تین درجات ہیں
پہلا درجہ ارتھونایا ARTHONOIAکہلاتا ہے جو عام انسانوں کا شعور ہے
دوسرا درجہ پیرانویاPARANOIAہے جس میں انسانی شعور اپنا توازن کھو سکتا ہے اور ذہنی مریض بن سکتا ہے

تیسرا درجہ میٹا نویا METANOIA کہلاتا ہے جو انسانی شعور کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ جہان تک رسائی صرف سنت سادھو اور صوفی کو ہوتی ہے۔

جون وائٹ کا خیال ہے کہ مغربی نفسیات دان چونکہ روحانی تجربات سے نابلد ہیں اس لیے وہ پیرانویا کو ذہنی مرض سمجھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ پیرانویا آرتھو نویا اور میتانویا کے درمیان ایک پڑاؤ اور ایک پل ہے۔

مشرق کے روحانی پیشوا اس خطرے سے واقف ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنے شاگردوں اور پیروکاروں اور مریدوں کی مدد کرتے ہیں کہ وہ اس پل پر زیادہ دیر نہ ٹھہریں اور جلد از جلد روحانیت کی اگلی سطح پر پہنچ جائیں اور معرفت حاصل کر لیں۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اکثر مغربی ماہرین نفسیات مشرقی روحانی روایات سے واقف نہیں اور اکثر مشرقی روحانی پیشوا مغربی سائنس اور نفسیات کی روایات سے واقف نہیں۔ اس لیے ان کے درمیان مکالمہ نہیں ہو پاتا۔

وہ لوگ جو مشرقی روحانی روایت اور مغربی سائنسی روایت۔ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ دونوں روایات بعض دفعہ ایسے الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرتی ہیں جن کے معنی دونوں روایات میں بہت مختلف ہیں جس کی ایک مثال ایگو ہے۔

ایگو EGO

مشرقی ماہرین روحانیات اور مغربی ماہرین نفسیات دونوں اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں لیکن دونوں روایات میں اس کے معنی جدا جدا ہیں۔

جیمز فریڈمین اور رابرٹ فریگر اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں
’ روحانی روایات میں ایگو شخصیت کے کمزور حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔

یہ وہ حصہ ہے جو جذباتی فیصلے کرتا ہے اور انسان کی شخصیت میں غرور و تکبر پیدا کرتا ہے۔ اس ایگو کو جتنا مٹایا جائے اتنا بہتر ہے۔ ایک درویش اس ایگو کو ختم کر کے عاجزی حلیمی اور کسر نفسی پیدا کرتا ہے۔

اس کے مقابلے میں جیمز گارڈن اس اصلاح کا نفسیات کی روایت میں مطلب یوں بیان کرتے ہیں۔ ’فرائڈ نے انسانی ذہنی کے تین حصے بتائے ہیں

اڈ۔ جو انسانی جبلتوں کی نمائندگی کرتا ہے
ایگو۔ جو انسانی شخصیت کے صحتمند پہلو کی نمائندگی کرتا ہے اور
سوپر ایگو۔ جو انسانی اور سماجی شعور اور ضمیر کی نمائندگی کرتا ہے

مشرقی روحانی روایت کا ایگو مغربی نفسیاتی روایت کا اڈ ہے جو انسانی شخصیت کا منفی او غیر صحتمند پہلو ہے جبکہ مغربی نفسیاتی روایت کا ایگو انسانی شخصیت کا مثبت اور صحتمند پہلو ہے۔

اس مثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک ہی لفظ یا اصطلاح کا مختلف روایات میں مختلف یا متضاد استعمال کس طرح کس کسی مکالمے میں کنفیوژن اور الجھاؤ پیدا کر سکتا ہے۔

مشرق کے روحانی پیشوا ایگو کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور مغرب کے نفسیاتی معالج ایگو کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں کیونکہ دونوں کی نگاہ میں ایگو شخصیت کے مختلف حصوں کے نام ہیں۔

(جاری ہے )

نوٹ: دوسری قسط میں ہم مرگی کے مریضوں اور روحانی تجربات کے ٹمپورل لوب سے رشتے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔

۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments