سارہ، نور اور قندیل کی لاشیں انصاف کی منتظر ہیں


تقریبا سال قبل، نور مقدم کو قتل کیا گیا۔ کہا گیا کہ لبرل تھی، براڈ مائنڈڈ تھی، اس کے ساتھ لیونگ ریلیشن شپ میں تھی، یہ تو ہونا ہی تھا۔ جوان لڑکی کو ایک نفسیاتی مریض نے جانوروں کی طرح کاٹ کر رکھ دیا، ہم نے اس کی مزاحمت کی بجائے، اس لڑکی کے کریکٹر پر سوال اٹھائے، مرنے کے بعد بھی اس پر تہمتیں لگائیں۔

دو دن قبل، سارہ کو اس کے نفسیاتی شوہر نے اسلام آباد میں قتل کر دیا، اب اسے کیسے ڈیفینڈ کرو گے؟ سارہ تو شادی شدہ تھی، تین بار اس نے قبول ہے قبول ہے قبول ہے کہا تھا۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، پاکستانی نژاد کینیڈین شہری، اعلی پائے کی فرموں میں کام کرنے والی، جب اپنی زندگی کو سیٹل کرنا چاہتی تھی، اسی کوشش میں ماری گئی، مارنے والا کا باپ ہمیں ٹی وی پر بھاشن دیتا نہیں تھکتا، اس کا عیاش بیٹا، جو پہلے دو بیویوں کو طلاق دے چکا تھا، اب بیچاری سارہ کو پتا نہیں اس جہنم میں کس نے دھکیلا، گھر کیا خاک سیٹل کرتی، وحشیوں کی طرح قتل کر دی گئی۔ اب سارے ایک ہی سوال کی کھوج میں لگے ہیں کہ سارہ نے اس سے شادی کی تو کی کیوں؟

اس سے پانچ سال پیچھے چلے جائیں، ایک مڈل کلاس عورت قندیل بلوچ غربت سے اٹھ کر ایلیٹ کلاس میں قدم رکھ چکی تھی، بھائی نے غیرت کے نام پر بہن کو قتل کر دیا، باپ نے بیٹے کو معاف کر دیا، تب ان بے غیرتوں کی غیرت نا جاگی جب اس کی کمائی سے جائیدادیں بنا رہے تھے۔

ہمیں شروع سے ہی ایک لالی پاپ دیا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں سب سے اچھا خاندانی نظام پاکستان کا ہے، یہ سب بکواس ہے، ہمارے بزرگوں کی من گھڑت کہانیاں ہیں، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر یہ بزرگ حیات ہوتے تو آج لازماً شرمندہ ہوتے۔

مڈل کلاسیے تو کسی حد تک رشتوں کو نبھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہاں ہمیشہ قربانی کا بکرا لڑکی کو بنایا جاتا ہے کہ رشتے بچانا اور گھر بسانا صرف عورت کی ذمہ داری ہے، وہ بیچاری کسی حد تک اس کو بچانے کی کوشش بھی کرتی ہے۔

لیکن ہماری ایلیٹ کلاس، میں خاندانی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے، آپ مانیں یا نا مانیں یہ حقیقت ہے۔ یہاں وسائل کی ریل پیل میں، نفسیاتی مریض اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ گھن آنا شروع ہو چکی ہے۔ نور مقدم اور سارہ جیسی کتنی لڑکیاں ہوں گی، جو ایسے کرب سے گزری ہوں گی، کیا کبھی ہم نے اس بارے میں سوچا ہے؟ ہمارا جواب یقیناً نفی میں ہو گا۔

طلاق یافتہ زندہ بیٹی، بنا طلاق کے مری ہوئی بیٹی سے کروڑ درجے بہتر ہے۔ یہ بات پاکستانی والدین کو سمجھ کیوں نہیں آتی؟ یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ بیٹی قتل کروا لیں گے، لیکن اسے طلاق نہیں لینے دیں گے۔ گھر بچانے کے چکر میں، ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا شکار بننے والی اپنی بیٹی پر رحم کریں۔ جب اسے رخصت کرنے لگیں تو اسے کہیے کہ ہم نے تو ایک انسان کے ساتھ تمہاری شادی کی تھی، اگر جانور نکل آئے، اگر تم پر ہاتھ اٹھانے کی جرات بھی کرے، فوراً لوٹ آنا، گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلیں رہیں گے، جب آپ ایسا کہہ کے بھیجیں گے تو اسے صحیح معنی میں تحفظ کا احساس ہو گا۔

والدین کو یہ بھی چاہیے کہ جب کسی سے اپنی بیٹی کا رشتہ طے کریں تو اس کی اور اس کے پورے خاندان کی لازمی تحقیقات کروائیں۔ ”لوگ کیا کہیں گے“ کے کلچر سے باہر آئیں، اپنی طرف سے پوری کوشش کریں، ہاں اگر وہ انسان بعد میں جانور بن جائے تو بیٹی کو کبھی بھی رشتہ نبھانے کا مت کہیں۔

نور مقدم، سارہ انعام اور قندیل بلوچ کی لاشیں انصاف کی منتظر ہیں۔ نور مقدم کے قاتل کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی ہے، اس پر کب عملدرآمد ہو گا، کسی کو نہیں معلوم۔ قندیل بلوچ کیس پاکستانی عدالتوں میں کہیں الجھ کر رہ گیا ہے، باپ کی طرف سے بیٹے کو معاف کرنے کے بعد ، ریاست اس کیس میں مدعی ہے، وہ کیس بھی کب منطقی انجام تک پہنچے گا، کسی کو نہیں معلوم۔ اب سارہ کیس میں اس کے نامزد قاتل، ملزم شاہ نواز میر پولیس کی گرفت میں ہے، کیا اس کیس میں جلدی فیصلہ ہو پائے گا، کسی کو نہیں معلوم۔

سنا تھا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، کیا ریاست اپنی ان تینوں بیٹیوں کو انصاف دے سکے گی؟ یہ سوال ہر ذی شعور پاکستانی پوچھ رہا ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح ریاست سے انصاف کی توقع نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments