”مجھے سیل پیک لڑکی چاہیے“ ایک نوجوان کی خواہش


” مجھے تو سیل پیک لڑکی چاہیے بھئی۔ مجھے ایک ایسی لڑکی چاہیے جسے کسی نے ہاتھ تک نہ لگایا ہو۔ ایک ایسی لڑکی چاہیے جو آج دن تک کسی کے ساتھ ریلیشن شپ میں نہ رہی ہو۔“ یہ بات مکمل کرنے کے بعد اس نے تھوڑی دیر کے لیے خاموشی اختیار کی۔ میں ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھ رہا تھا اور اس کی باتوں کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر اس نے دور پڑی کسی چیز کو دیکھا اور پھر بڑے فلسفیانہ انداز میں کہنے لگا کہ ”زین صاحب میں نے زندگی میں لڑکیوں کے بارے میں نچوڑ نکالا ہے۔ جو لڑکی پہلی ملاقات میں کس (Kiss) کرنے پر مان جائے، وہ کبھی بھی با کردار نہیں ہو سکتی۔ اور جو لڑکی آپ کے ساتھ سیٹ ہو سکتی ہے۔ وہ کسی اور کے ساتھ بھی تو سیٹ ہو سکتی ہے۔ اس سے شادی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔“

یہ الفاظ سن کر کچھ لمحوں کے لیے تو دماغ سن سا ہو گیا۔ پھر چند لمحوں کی خاموشی۔ پھر خاموشی کو توڑتے ہوئے میں نے کہا کہ یار یہ بھی تو ہو سکتا ہے نا کہ اس لڑکی کو لڑکے سے محبت ہو۔ وہ سب کچھ اس لیے کر رہی ہو؟

اس پر کہنے لگا کہ ”محبت ہو یا پھر کچھ بھی ہو شریف گھرانے کی لڑکیاں کبھی بھی ایسے نہیں کرتیں“

میں نے کہا جناب آپ جیسے لوگ ہی انھیں یہ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر لڑکے اور لڑکی کے درمیان کس والا معاملہ ہو بھی جاتا ہے تو اس میں لڑکی بد کردار اور لڑکا با کردار۔ حالاں کہ اس عمل میں دونوں برابر کے شریک ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکے نے پتا نہیں کیسے اسے اس عمل کے لیے بلیک میل کیا ہو گا۔ یا پھر چلو مان لیا کہ اس نے بلیک میل نہیں بھی کیا ہو گا تو کیا اس چھوٹے عمل کی وجہ سے اسے عمر بھر بدکرداری کا طوق گلے میں پہن کر گھومنا ہو گا؟ اور اگر معاشرہ اسے گلے کا طوق بناتا ہی ہے تو پھر دونوں کے لئے بنائیں نا۔ اگر یہ جرم ہے تو اس کے مجرم بھی تو پھر دونوں ہی ہونے چاہئیں نا۔

دوسری بات یہ ہے کہ میں آپ کو پرسنلی اچھی طرح جانتا ہوں۔ کالج میں آپ نے کئی لڑکیوں کے ساتھ معاشقے کیے۔ کئی لڑکیوں کے ساتھ چوما چاٹیاں کیں اور یہ سارے کے سارے واقعات آپ نے خود سنائیں ہیں۔ کسی دوسرے سے بھی نہیں پتا چلیں۔ پھر آپ نے ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ کئی لڑکیوں کے ساتھ معاشقے کیے۔

کیا آپ بدکردار نہیں؟ جو پیمانہ آپ نے کردار کو دیکھنے کا سیٹ کیا ہے، اس میں تو آپ اعلی درجے کے بدکردار معلوم پڑتے ہیں۔

آپ خود کئی لڑکیوں سے معاشقے کر کے اب خود کہتے ہیں کہ مجھے سیل پیک لڑکی چاہیے۔ جسے آج دن تک کسی نے چھوا تک نہ ہو۔ تھوڑی سے زحمت اپنے گریبان میں بھی جھانکنے کی کر لیجیے۔ اور یہ یہ کہاں لکھا ہے جو لڑکی محبت کرے، وہ بدکردار ہوتی ہے۔ اس حوالے سے تو سعادت حسن منٹو صاحب بھی لکھتے ہیں کہ ”ضروری تو نہیں کہ جو لڑکی عشق کرے وہ بدکردار ہی ہو۔“

اس گفتگو کے بعد اس لڑکے کا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا۔ اس کے پاس سوائے اس بات کے کوئی دلیل نہیں تھی کہ مرد کی نیچر اور ہوتی ہے اور عورت کی نیچر اور ہوتی ہے۔ شاید میری باتیں اسے کچھ زیادہ ہی تلخ معلوم ہوئیں۔ وہ گھر پر کام کا بہانہ بنا کر ہم دوستوں کی محفل سے رخصت ہو گیا۔

اب اس مسئلے کا تھوڑا سا نفسیاتی پہلو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ چونکہ اس لڑکے نے کافی ساری لڑکیوں کے ساتھ ریلیشن شپ رکھا ہے تو شادی کے لیے یہ اب کسی لڑکی پر اعتبار نہیں کر پا رہا۔ اسے اب لگتا ہے کہ جو لڑکی اس سے باتیں کرتی رہی ہے یا جو کچھ ان کے درمیان ہوا، وہ کسی اور کے ساتھ بھی کر سکتی ہے۔ اسے اب اس بات کی ان۔ سکیورٹی ہے کہ میں جب گھر سے باہر کمانے جاؤں گا تو پیچھے سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اسی طرح کئی لڑکے زیادہ لڑکیوں سے بات کرنے کو سکور کہتے ہیں کہ جتنی زیادہ لڑکیوں سے ریلیشن شپ ہو گا، اتنا ہی سکور ہو گا اور بڑے فخریہ انداز میں بتاتے ہیں کہ تیرے بھائی کا اتنا سکور ہے۔ لیکن آئندہ زندگی میں اس سے جو نفسیاتی پہلو نکلتے ہیں، وہ تب اس سے نابلد ہوتے ہیں۔

اور ایک صورت یہی بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ جو لڑکا خود باہر لڑکیوں سے حد سے زیادہ مراسم رکھتا ہے تو وہی لڑکا گھر میں انتہا درجے کا شکی واقع ہوتا ہے۔ بات بات پر اپنی ماں اور بہنوں کو ڈانٹتا ہے کہ یہ نہیں کرنا۔ وہ نہیں کرنا یا پھر یہاں نہیں جانا، وہاں نہیں جانا۔ اس سے بات نہیں کرنی، اس سے بات نہیں کرنی۔ پھر یہی رویہ شادی کے بعد بیوی کے ساتھ بھی اپنایا جاتا ہے۔ بیوی کو قریبی رشتے داروں تک سے نہیں ملنے دیا جاتا۔ ہر معاملے میں ایک شک والی نگاہ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے کافی سارے مسائل گھر میں جنم لے لیتے ہیں۔

اس طرح کے لڑکے پہلے تو بڑے مزے لے کر لوگوں کی لڑکیوں کی خراب کرتے ہیں اور بعد میں خود ایک نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ پھر یہ پہلو یہی ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ پہلو تب بھی نمایاں ہوتا ہے جب وہ ایک بیٹی کا باپ بنتا ہے۔ جب اس کی بیٹی کالج میں تیار ہو کر جائے گی تو اس کی آنکھوں کے سامنے وہ سارے واقعات آئیں گے جو اس نے خود لوگوں کی لڑکیوں کے ساتھ کیے ہوتے ہیں۔

یہ ساری باتیں کرنے اور بتانے کا مقصد ایک نوجوان کا خود سے کئی سوال کرنا ہے کہ آیا وہ زیادہ سکور بنا رہا ہے یا پھر وہ بھی کسی چائے کے ہوٹل پر بیٹھ کر کہہ رہا ہو گا کہ مجھے تو بھئی سیل پیک لڑکی چاہیے۔ وہ ایک نارمل انسان بن کر زندگی گزارنا پسند کرے گا یا پھر عمر بھر محض ایک شکی اور نفسیاتی مریض بن کر رہ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments