کیوبا کے سفر سے جڑی یادیں اور نظام تعلیم


گزشتہ کالم میں میں نے پاکستان میں سیلاب کے تناظر میں کیوبا کے سیلاب سے جڑی یادوں کا تذکرہ کیا تھا۔ میں نے کیوبا کے چند ایک سفر کیے ہیں، اور ان سفروں کا مقصد صرف تفریع کبھی نہیں رہا۔ یہ سفر بنیادی طور پر مطالعاتی مقصد کے لیے رہے ہیں۔ سفر کے دوران میری مکمل توجہ کا مرکز یہ سوال رہا ہے کہ کیوبا کا سیاسی و معاشی نظام کیسے کام کرتا ہے؟ یہ نظام اپنانے کی وجہ سے کیوبا نے اپنے گرد و نواح کے ممالک کی نسبت کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

اور دنیا میں اپنی سطح کے ممالک کے مقابلے میں کیوبا کہاں کھڑا ہے۔ اس مقصد کے لیے میری کیوبا کے دوستوں، شناساؤں اور عام لوگوں سے گفت و شنید ہوتی رہی۔ اکثر موضوعات ایسے رہے ہیں، جن پر دو لوگوں میں اختلاف رائے سامنے آتا رہا ہے۔ میں نے اس طرح کی صورت حال میں غیر جانبدار تحقیق کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ میرا ایک طویل عرصے سے کینیڈا کیوبا فرینڈ شپ سوسائٹی سے قریبی تعلق رہا ہے۔ اس تعلق کی وجہ سے کئی لوگوں کے ساتھ دوستی اور شناسائی کے رشتے پیدا ہوئیے۔

میں نے ان دوستوں کی مدد سے کیوبا کے کچھ ماہرین تعلیم، اساتذہ اور طلبا سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن ان لوگوں پر تکیہ کرنے کے بجائے میں نے اپنی دلچسپی کے موضوعات پر ”فرسٹ ہینڈ نالج“، براہ راست معلومات اور زمینی حقائق کو خود جاننے کو ترجیح دی۔ ایک سفر کے دوران کینیڈا کیوبا فرینڈ شپ سوسائٹی کے دوستوں نے ایک سکول ٹیچر ایلیسیا سے میرا تعارف کروایا۔ ان دوستوں کا خیال تھا کہ ایلیسیا رضا کارانہ طور پر مختلف تعلیمی اور تحقیقی اداروں کی سیر و سیاحت کے علاوہ اس موضوع سے جڑے سوالات کا جواب تلاش کرنے میں میری مدد کر سکتی ہے۔

فرینڈ شپ سوسائٹی کے دوستوں سے بات کرنے کے ایک دن بعد ہی مجھے ایلیسیا کا فون آ گیا۔ بھاری ہسپانوی لہجے میں انگلش بولتے ہوئیے اس نے مجھے بتایا کہ اس نے اگلے دن مجھے ہوانا یونیورسٹی دکھانے کا پروگرام بنایا ہے۔ ہماری ملاقات کا وقت اور مقام طے ہو گیا۔ دوسرے دن دس بجے ایلیسیا ہوٹل کی لابی میں میرا انتظار کر رہی تھی۔ ہم باہر نکلے تو موسم ہمیشہ کی طرح کافی خوشگوار تھا۔ یونیورسٹی زیادہ دور نہیں تھی، اس لیے ہم نے بس کے بجائے تانگے کے ذریعے جانے کا فیصلہ کیا۔

تانگے میں بیٹھ کر ہم خوبصورت موسم سے لطف انداز ہوتے ہوئیے بیس منٹ میں یونیورسٹی پہنچے۔ ہوانا یونیورسٹی جسے یونیورسٹی آف حبانا بھی کہتے ہیں شہر کے ویڈادو ڈسٹرک میں واقع ہے۔ یہ درس گاہ پانچ جنوری سترہ سو اٹھائیس میں قائم کی گئی تھی۔ یہ کیوبا کی سب سے پرانی یونیورسٹی ہے۔ بلکہ یہ پورے بر اعظم امریکہ کی قدیم ترین درس گاہوں میں سے ایک ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ابتدا میں یہ محض ایک مذہبی درس گاہ تھی۔ لیکن آج یہ ایک جدید یونیورسٹی ہے، جس کی پندرہ سے زائد قدرتی سائنس اور سماجی علوم کی فیکلٹیز ہیں۔

شروع شروع میں اس یونیورسٹی میں صرف قانون، آرٹ، فلسفہ، اور مذہب پڑھایا جاتا تھا۔ سنہ 1842 میں اس یونیورسٹی کی حیثیت بدل کر اس کو ایک سیکولر قومی ادارہ بنا دیا گیا، اور کیوبا جب ریپبلک بنا تو اس یونیورسٹی کا نام نیشنل یونیورسٹی رکھ دیا گیا۔ اس یونیورسٹی کا ملک کی تعلیم اور سیاست میں بڑا اہم کردار رہا ہے۔ انیس سو باون میں جب بتیستا نے حکومت پر قبضہ کیا تو یہ درسگاہ حکومت مخالف سرگرمیوں کا گڑھ بن گئی، جس کی وجہ سے بتیستا نے اس یونیورسٹی کو بند کر دیا تھا۔

کاسترو کے دور میں اس یونیورسٹی سے انقلاب دشمن خیالات کو بے دخل کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔ یونیورسٹی ایک وسیع و عریض عمارت میں واقع ہے، جس کا پوری طرح جائزہ لینے کے لیے بہت وقت درکار ہے۔ تنگی وقت کے پیش نظر ہم نے صرف فیکلٹی آف آرٹ اینڈ لٹریچر اور بیالوجی کی تفصیلی سیر کی۔ ان فیکلٹیز میں گھومنے کے بعد ہم یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھ گتے۔ یہاں ہمارے ساتھ کیوبن لٹریچر کے ایک پروفیسر بھی شامل ہو گئے، جن کو ایلیسیا نے دعوت دے رکھی تھی۔

پروفیسر نے ہمیں بتایا کہ یونیورسٹی آف ہوانا کے علاوہ کیوبا میں تقریباً تیس سرکاری اور سترہ پبلک یونی‌ورسٹیز ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کا ذریعہ تعلیم ہسپانوی زبان ہے۔ کیوبا کی یونی‌ورسٹیز میں بیس ہزار کے قریب انٹر نیشنل اسٹوڈنٹ بھی زیر تعلیم ہیں۔ کیوبا کی یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں یونیورسٹی آف ہوانا کا پہلا نمبر ہے۔ یونیورسٹی آف اورینٹ، اور پولی ٹیکنک یونیورسٹی دوسرے اور تیسرے نمبر پر آتی ہیں۔ لانچ کے دوران ہم نے پروفیسر سے کیوبا کے تعلیمی نظام اور اس کی کامیابیوں پر گفتگو جاری رکھی۔

پروفیسر نے بتایا کہ انقلاب کے بعد تقریباً انیس سو اکسٹھ سے لے کر کیوبا کا نظام تعلیم ریاست چلاتی ہے۔ تعلیم بالکل مفت ہے۔ قاعدے سے لے کر یونیورسٹی تک طلبا مفت تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق لاطینی امریکہ اور کریبین میں کیوبا کا نظام تعلیم سب سے بہترین قرار دیا گیا ہے۔ اس کے نظام تعلیم کو ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ کیوبا دنیا میں تعلیم پر سب سے زیادہ بجٹ خرچ کرنے ولا ملک ہے، جس کی شرح تیرہ فیصد سے زائد ہے۔

چھ سال سے لے کر سولہ سال کے بچوں کے لیے تعلیم لازم ہے، اور اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے داخلی ٹیسٹ کے علاوہ امیدوار کی جنرل نالج اور سیا سی خیالات کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ میڈیکل کی تعلیم کیوبا کی ایک خاص سپیشیئلیٹی ہے۔ اس سلسلے میں کیوبا کا لاطینی سکول آف میڈیسن بہت مشہور ہے۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ داخلے کی تعداد کے اعتبار سے شاید یہ دنیا کا سب سے بڑا میڈیکل سکول ہے۔ دو ہزار تیرہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے ایک سو دس ممالک کے بیس ہزار کے قریب طلبہ اس میڈیکل سکول میں زیر تعلیم تھے۔

کیوبا اس سلسلے میں تیسری دنیا کے غریب طلبہ کو سکالر شپ بھی دیتا رہا ہے۔ دو ہزار پانچ کے زلزلے بعد کیوبا نے پاکستان سے ایک ہزار طلبہ کو سکالر شپ کی پیشکش کی تھی۔ اس اسکالر شپ پر داخلے کا عمل ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے سپرد تھا۔ اب تک اس سکالر شپ پر پاکستانی طلبہ کے چند بیج اپنی تعلیم اور اس کے بعد کی انٹرن شپ مکمل کرنے کے بعد پاکستان جا چکے ہیں۔ کیوبا کے میڈیکل سکولوں سے نکلے ہوئے طلبہ پوری دنیا میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک میں تیس ہزار کے قریب طلبہ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ایسا صرف آج سے نہیں، بلکہ ساٹھ کی دہائی سے ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انیس سو تریسٹھ سے لے کر آج تک چھ لاکھ سے زائد کیوبن ہیلتھ ورکرز دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ دنیا بھر میں جنگ زدہ علاقوں اور قدرتی آفات سے متاثرہ لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے میں کیوبا کے ڈاکٹروں کا بہت ہی نمایاں کردار رہا ہے، جس کا مقابلہ کوئی اور ملک نہیں کر سکتا۔

یہ قابل رشک خدمات بنیادی طور پر کیوبا کے نظام تعلیم کی مرہون منت ہیں، جہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے تمام ذہین طلبہ کو مساوی مواقع میسر ہیں، اور کوئی طالب علم غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں رہتا۔ کیوبا کوئی امیر ملک نہیں ہے، لیکن اس نے عوام کو وسائل کو حکمران اشرافیہ کی عیش و عشرت پر نہیں، بلکہ عوام پر خرچ کیا ہے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام اپنایا ہے، اور آج یہ ملک تعلیم اور صحت کے شعبے میں ترقی یافتہ دنیا کے مقابل کھڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments