آڈیو لیکس اور آزاد کشمیر


پاکستان میں شاید آج کل آڈیو لیکس کا سیزن چل رہا ہے جیسے عید الفطر پر اچانک پانچ سات اکٹھی لالی وڈ کی فلمیں ریلیز ہوتی ہیں یا گرمی میں آم آتے ہیں۔ پھر جیسے ہی عید ختم فلموں کا بخار اور گرمی ختم ہوتے ہی آم بھی مارکیٹ سے غائب ہو جاتے ہیں۔ جیسے سردی کے آغاز میں کینو مارکیٹ میں آتے ہیں۔ حالیہ چار پانچ سامنے آنے والی آڈیو لیکس میں مسلم لیگ نون کی نسبت پی ٹی آئی کی آڈیو لیکس زیادہ خوفناک اور خطرناک ہیں۔

سب سے پہلے بشریٰ بی بی کی پنجاب کے موجودہ وزیر آئی ٹی اور عمران خان کے سوشل میڈیا کے ہیڈ ارسلان خالد کی آڈیو آتی ہے جس میں بشری بی بی ارسلان خالد کو عمران خان کو چھوڑنے والوں اور ان کے مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر غداری کی مہم چلانے کی ہدایات جاری کر رہی ہیں۔ دوسری آڈیو کال شوکت ترین کی لیک ہوتی ہے جس میں وہ محسن لغاری اور تیمور جھگڑا کو آئی ایم ایف معاہدے کے متعلق وفاق کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا کہہ رہے ہیں۔ اس کے بعد مسلم لیگ نون کی دو آڈیو کالز آتی ہیں جن میں پہلی وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے سیکرٹری توقیر شاہ کی ہوتی ہے جس میں وہ مریم نواز کے داماد راحیل منیر کی ہاؤسنگ سکیم کے لئے پاور پلانٹ کی باقی مشینری بھارت سے منگوانے کا کہتے ہیں۔ راحیل منیر اور ڈسکو کا یہ معاملہ 2019 سے چل رہا تھا۔ عمران خان کے دور میں ہی اس پلانٹ کے لئے باقی مشنری چین سے منگوانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جبکہ راحیل منیر نے کمپنی خلاف لاہور ہائیکورٹ سے کیس بھی جیت لیا تھا۔

مسلم لیگ نون کی دوسری آڈیو وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی سامنے آتی ہے جو تحریک انصاف کے استعفوں کے متعلق ہوتی ہے۔ جبکہ حال ہی میں عمران خان اور ان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی آڈیو کال سامنے آئی ہے جس میں وہ امریکی خط کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں کہ صرف سائفر کا ذکر کرنا ہے جبکہ امریکہ کا نام نہیں لینا۔

آپ اپنے ایمان سے بتائیں ان پانچ آڈیو کالز میں مسلم لیگ نون کی آڈیو خطرناک ہیں یا تحریک انصاف کی؟ ایک طرح پاکستان میں یہ سب کچھ چل رہا ہے تو دوسری جانب آزاد کشمیر میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کی رخصتی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ پچھلے دنوں عمران خان کی چھٹی کے بعد آزاد کشمیر میں بھی حکومت تبدیلی کی مہم چلی لیکن اس سے قبل ہی عمران خان نے خود ہی کشمیر والے نیازی صاحب کی چھٹی کرا کے ان کی جگہ اپنی نئی اے ٹی ایم تنویر الیاس کو وزیر اعظم بنا دیا کیونکہ عمران خان کو پتہ چل گیا تھا کہ کشمیر میں بھی ان سے حکومت چھین لینے کی تیاری ہو رہی ہے پھر اس کے بعد اپوزیشن بھی سکون سے بیٹھ گئی۔

اب آزاد کشمیر میں اپوزیشن پھر حکومت تبدیلی کے لئے متحرک ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ نون نے پہلے پیپلز پارٹی کو آفر کی لیکن پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کی جانب سے اس معاملے میں کوئی خاطر خواہ رسپونس نہیں دیا تو آزاد کشمیر مسلم لیگ نون کے صدر شاہ غلام قادر اس حوالے سے کافی متحرک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز اس معاملے پر میری ان سے گفتگو کوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ سنا ہے کہ آپ کشمیر میں کوئی سیاسی ہلچل مچانے لگے ہیں۔

شاہ صاحب نے کہا ہم نے پیپلز پارٹی کو آفر کی تھی کیونکہ ان کی بارہ سیٹیں اور ہماری سات سیٹیں ہیں لیکن پیپلز پارٹی فیصلہ نہیں کر پائی۔ آزاد کشمیر میں اب مسلم لیگ نون دوبارہ اپنی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ پارٹی کے جو ناراض لوگ تھے ان کو بھی واپس لے آئیں ہیں۔ اس وقت آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نون دوبارہ 2016 والی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ راجہ فاروق حیدر سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے وہ بھی ہمارے ساتھ چل رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے لئے کشمیر کی پوری قیادت متحد ہے۔

جن لوگوں کے ذاتی مسائل ہیں ان کا کچھ نہیں کر سکتے۔ فی الحال میں کشمیر میں پارٹی کو مضبوط کرنے پر فوکس کر رہا ہے۔ میرے اسی کام کو دیکھ کر میاں نواز شریف نے مجھے دوسری بار لندن بلایا ہے۔ انشاء اللہ آزاد کشمیر سے جلد عوام کو خوشخبری دیں گے۔ میں نے پوچھا اگر پیپلز پارٹی نے آپ کی آفر پر کوئی فیصلہ نہیں کیا تو پھر عدم اعتماد کے بعد اگلے وزیر اعظم آپ ہوں گے ؟ شاہ صاحب نے کہا وزیراعظم شپ کا فیصلہ پارٹی قائد میاں نواز شریف نے کرنا ہے یہ میرا اختیار نہیں۔

میں بطور کارکن آج بھی پارٹی کے لئے کام کر رہا ہے۔ میری کوشش ہے کہ بس کشمیر میں بھی نوجوانوں کو صحت اور تعلیم کی اچھی سہولیات ملنی چاہیے۔ یہاں نوجوانوں کو روزگار ملنا چاہیے۔ کشمیر میں سب سے اہم مسئلہ روڈز کا ہے اگر مسلم لیگ نون کو دوبارہ خدمت کا موقع ملا تو ان شعبوں میں ترجیحی بنیادوں پر کام ہو گا۔ کل میں لندن جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف سے پارٹی کی ورکنگ اور تحریک عدم اعتماد سے متعلق تفصیل سے گفتگو ہو گی۔ اپوزیشن متحد ہے جبکہ حکومتی لوگوں سے بھی ہمارے رابطے جاری ہیں۔ میاں نواز شریف جیسے ہدایت کریں گے میں تنویر الیاس کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments