چندے کی سیاست یا سیاست کا چندہ


وطن عزیز میں موسمیاتی تبدیلیوں کے تاوان میں انسانی خراج کی ادائیگی کے لیے آنے والے حالیہ سیلابوں نے جو صورت حال بنا دی ہے اس نے جہاں ایک طرف ہماری حکمران اشرافیہ کے دہائیوں پر مشتمل ترقیاتی کاموں کے دعووں پر نہ صرف پانی پھیر دیا بلکہ اس کے نتیجے میں ہماری قومی ترقی اور رویوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، وہیں مسائل کے حل کے لیے ہماری انفرادی اور اجتماعی کوششوں اور صلاحیتوں کی ناکامی کا بر ملا اظہار کر دیا ہے۔

اس پر بات ذرا ٹھہر کے، پہلے ایک اصول کی بات کہ مستقبل کے رویے بارے پیشین گوئی کرنے کے لیے جن عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے ان میں بنیادی کردار دراصل کسی بھی انسان یا گروہ کے ماضی کے رویے بارے ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور ماضی میں ان آفات سے نبٹنے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو وطن عزیز میں موجودہ قدرتی آفت سے نبٹنے کے لیے ہماری حکمران اشرافیہ اور نظام حکومت کی صلاحیت بارے سنجیدہ سوال اٹھ چکے ہیں۔ ہم گزشتہ بیس سال میں آنے والے چند واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ مستقبل بارے اپنی صلاحیت کا اندازہ ہو سکے۔

قومی تاریخ میں سنہ 2005 کا زلزلہ ہو یا سنہ 2008۔ 2002 تک کی سوات اور پھر شمالی وزیرستان کی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عوام کی اندرونی ہجرت، سنہ 2010 کا سیلاب عظیم ہو یا سنہ 2014 میں طالبان کے ہاتھوں پیش اور آرمی سکول کے بچوں کا قتل عام، لگتا ہے آفات نے وطن عزیز کا راستہ دیکھ لیا ہے۔

سب سے پہلے اکتوبر 2005 کے قیامت خیز زلزلے کا ذکر کہ جس میں حکومت پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق جہاں 73 ہزار سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے، وہیں 70 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہو گئے۔ تقریباً 28 لاکھ افراد بے گھر اور 23 لاکھ افراد مناسب خوراک سے محروم ہو گئے۔ زلزلے سے متاثرہ اضلاع میں برسر روزگار افراد کا 30 فیصد بے روزگار ہو گیا اور امداد اور دوبارہ تعمیر و ترقی کا تخمینہ 5.2 ارب ڈالر لگایا گیا (ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی 2011 کی جاری کردہ رپورٹ) ۔

اس زلزلے سے متاثرہ شہروں میں بالاکوٹ کے علاوہ آزاد کشمیر کے تمام اضلاع بری طرح متاثر ہوئے جہاں سب سے زیادہ اموات اور عمارتی نقصان ہوا۔ اس زلزلے کے نتیجے میں ملنے والی امداد ( مالی اور ٹیکنیکل) نے اس آفت سے نبٹنے میں حکومتی اداروں کی صلاحیتوں میں جہاں اضافہ کیا وہیں غیر ملکی امداد پر انحصار کی سوچ نے بھی اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے اور کسی بھی پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہاتھ پھیلانے کے رویے کو نارمل سمجھا جانے لگا۔

اسی دوران سنہ 2010 میں پارلیمنٹ نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے وفاق اور اس کی صوبائی اکائیوں میں اختیارات اور وسائل کی نئی تقسیم کے ذریعے جہاں وسائل کا ایک بڑا حصہ صوبوں کے سپرد کر دیا گیا وہیں صوبوں سے یہ توقع بھی رکھی کہ وہ ان وسائل کو اپنے اپنے عوام کے معیار زندگی کو آسان بنانے پر خرچ کریں گی۔ سنہ 2010 سے اب تک وسائل کا بڑا حصہ صوبوں کے سپرد کیا گیا اور ان سے یہ امید کرنا بالکل غلط نہیں ہو گا کہ وہ ان وسائل کے ذریعے جہاں روزمرہ کی زندگی کو آسان بنائیں گے بلکہ کسی بھی قدرتی آفت سے نبٹنے کے لیے متوقع انتظامی معاملات کو تیار رکھیں گے۔

تقریباً بارہ سال کے اس عرصے میں صوبوں اور وفاق میں مختلف سیاسی حکومتوں کی کارکردگی کا اگر جائزہ لیں تو شمال میں گلگت بلتستان ہو یا خیبر پختونخوا ہو، جنوب میں سندھ کا صوبہ ہو، جنوب مغرب میں بلوچستان ہو یا ترقی یافتہ؟ پنجاب کا جنوبی علاقہ ہو، انسانی ابتلا کی کہانی اور سوشل میڈیا پر پل پل کی تصویری رپورٹنگ نے ہمارے نظام حکومت اور اس کی ترجیحات کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ راوی اور ستلج پر بند بن چکے ہیں (جی بھارتی علاقے میں ) اور زائد پانی کے اخراج پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے وگرنہ پاکستان کے دل لاہور کی ترقی کا پول بھی کھل جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مصیبت کے اس وقت میں قومی اور بین الاقوامی سطح ہو یا انفرادی، ہر طرف سے امداد اس انسانی تکلیف کو کم کرنے کے لیے جاری ہے لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ ہم نے انفرادی اور قومی سطح پر ان آفات سے کیا سیکھا تو اس فہرست میں ہاتھ پھیلانے اور چندہ اکٹھا کرنے کے جذبے اور مواقع نے جتنی ترقی کی ہے اس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ چاہے حکومتی زعما ہوں یا حزب اختلاف، حکومتی سطح ہو یا عوامی امداد کے خیراتی ادارے، اندرون ملک ہو یا بیرون ملک سب اس وقت چندہ اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

یہی مشاہدہ سنہ 2005 کے زلزلے میں اور سنہ 2010 کے سیلاب کے دنوں میں بھی دیکھنے میں آیا۔ صدقہ ہو یا زکوۃ، ، کم رقم ہو یا زیادہ، سب کچھ قابل قبول ہے، دینے والا تو ہو۔ راقم بیرون ملک مقیم ہے اور یہاں رقم اکٹھا کرنے کیے لیے سے سے آسان طریقہ ڈنر کا انتظام ہے اور نارمل حالات میں سارا سال کوئی نہ کوئی پاکستانی ادارہ بالخصوص صحت سے متعلقہ خیراتی ادارے تیز طرار خدا ترس چیف کی زیرنگرانی یورپین، امریکہ، کینیڈا یا آسٹریلیا وغیرہ کے دوروں پر رہتا ہے جہاں پاکستانی دل کھول کر ان کی مدد کرتے ہیں، لیکن قدرتی آفات کے دنوں میں تو مقامی پاکستانی بالخصوص پڑھے لکھے طبقے میں جیسے بے چینی کی لہر دوڑ جاتی ہے، جس کے اسباب کو سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ مصیبت کے وقت تو وسائل کو اکٹھا کرنے اور امداد باہمی بات کی سمجھ آتی ہے کہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے لیکن ہماری سوسائٹی میں مانگنے کا یہ رویہ اتنا سرایت کیوں کر چکا ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اپنے نقطہ نظر کی وضاحت ضروری ہے، آج کے دور میں انسانی علم اور وسائل کے استعمال کے ذریعے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد ایک مکمل سائنس کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ حقوق انسانی بارے حکومتی جوابدہی کے بارے دنیا میں شعور کی سطح بہت بڑھ چکی ہے۔ وطن عزیز میں بھی یہ جدوجہد جاری ہے اور پچھہتر سال کے دوران، عوامی سطح پر پاکستان میں عوامی شعور نے حکومتی اداروں سے مایوس ہو کر اس ضمن میں ایک متبادل نظام قائم کر دیا۔

جی ہاں میری مراد عوامی سطح پر انسانی دکھوں کو کم کرنے کے لے ہر شہر اور قصبہ کے سطح پر غیر سرکاری ادارے وجود میں آ گئے جنہوں نے صحت ہو یا تعلیم، انسانی حقوق کا تحفظ ہویا موسمیاتی تبدیلیوں بارے آگاہی ہو، عوام کو ان کے اپنے پیسوں سے سہولتیں مہیا کرنا شروع کر دیں۔ ان میں ایدھی ٹرسٹ، شوکت خانم میموریل ہسپتال، انڈس ہسپتال، چھیپا ویلفیر ٹرسٹ صرف چند مثالیں ہیں، آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو اپنے گلی محلہ کی سطح پر آپ کو ایسے افراد اور تنظیمیں نظر آ جائیں گی۔

مروجہ طریقوں سے ہٹ کر قرض حسنہ (جو لوگوں اور اداروں کے چندے سے اکٹھا کیا گیا) کے ذریعے لوگوں کو روزگار پر لگانے کی انوکھی لیکن زبردست کاوش اخوت کے زیر اثر جاری و ساری۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ ٹھیک صحیح لیکن یہ تمام کاوشیں ایک نظام حکومت کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں، کیونکہ یہ ذمہ داری صرف ایک ریاست ہی اٹھا سکتی ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ صحت کا نظام ہو یا تعلیم کے ادارے، صفائی کا مسئلہ ٔ ہو یا بنیادی قوانین کی فراہمی جن کی بنیاد پر معاشرہ ترقی کرسکے۔

ہمارے حکمران بھی مانگنے کا انتظام سرکاری سطح پر کرنا شروع ہو گئے ہیں اور اب تو اس سلسلے میں باہمی مسابقت سیاسی مباحث کا حصہ بن گیا ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ گزشتہ حکومت میں وزیراعظم کی زیر نگرانی چندہ اکٹھا کرنے کی شام منائی گئی تھی جو تمام ٹیلی چینلز پر براہ راست دکھائی گئی۔ ترقی معکوس کے اس پاکستانی ماڈل میں انفرادی سطح پر تکلیف سے فوری نجات تو کسی حد تک ممکن ہے وہ بھی اگر آپ خوش قسمت ہیں اور امدادی افراد یا ادارے کے نظر میں آ گئے لیکن اس حکمت عملی کے انفرادی اور قومی سطح پر نقصانات پر ابھی سوسائٹی میں بات چیت شروع ہی نہیں ہوئی۔

دینے والے ہاتھ کی نفسیاتی تسکین اور دل کی سختی کے ساتھ ساتھ لینے والی ہاتھ میں عزت نفس پر سمجھوتا، خود اعتمادی میں کمی اور انفرادی ذمہ داری کے احساس سے بے شعوری کے ساتھ ساتھ مستقل بے بسی کی کیفیت، وہ قیمت ہے جو ہم نے اجتماعی سطح پر ادا کرنا شروع کر دی ہے۔ ہمارے ہاں عبدالستار ایدھی اور امجد ثاقب تو پیدا ہو رہے ہیں لیکن اروند کیجریوال کوئی نہیں۔ جی ہاں ہمسائے میں دہلی کا باسی اروند کیجریوال جو کہ ایک بیوروکریٹ تھا لیکن مسائل کو حل کرنے کے لیے خیراتی اداروں کے آسان راستے کے بجائے اس نے دہلی کے نظام حکومت کو لوگوں کی مدد سے تبدیل کر کے رکھ دیا۔

آج وہاں تعلیم خیرات نہیں بلکہ بنیادی انسانی حق ہے اور گورنمنٹ سکولوں کا معیار بلند ہو گیا ہے ۔ دہلی کے رہائشیوں کے لیے بجلی کے 200 یونٹ فری ہیں۔ صاف پانی کی فراہمی بھی فری ہے۔ ہسپتالوں میں صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی حکومتی ذمہ داری بن گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ تمام سہولتیں ریاست فراہم کر دیتی ہے تو پھر چندہ جمع کرنے اور نیکی کے ایسے ہی کاموں کی کیا ضرورت رہ جائے گے؟ کہیں بہت سے لوگ بے روزگار تو نہ ہو جائیں گے اور بیرون ملک ہم وطن اپنے اپنے جذبات کا اظہار اور کیسے کر سکیں گے؟ بات سوچنے کی تو ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments