سعودی عرب میں انڈین مزدور کی موت: ’بیٹے کو قرض لے کر سعودی عرب بھیجا اور اب اس کی لاش لانے کے لیے قرض جمع کر رہے ہیں‘

سرتاج عالم - بی بی سی ہندی


سعودی عرب میں اگر کسی مزدور کی موت واقع ہو جائے تو بعض اوقات غریب خاندانوں کے لیے اپنے پیارے کی میت وطن واپس لانا اُتنا ہی مشکل ہے جتنا اسے کسی خلیجی ملک مزدوری کے لیے بھیجنا۔

پاکستان ہو یا انڈیا، بنگلہ دیش ہو یا سری لنکا۔۔۔ اس حوالے سے مشکل سب کی ایک ہی جیسی ہے۔

یہ مزدور خلیجی ممالک جاتے تو مستقبل کے سہانے خواب دیکھ کر ہیں اور یہ سوچ کر کہ پیسا کما کر وہ اپنی، اپنے بچوں اور اہلخانہ کو بہتر زندگی مہیا کر سکیں گے، مگر سارے خواب تھوڑے ہی پورے ہوتے ہیں۔

انڈیا سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ رام ملن کو سعودی عرب بھیجنے کے لیے گھر والوں نے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ اُن کی بیگم نے اپنے زیورات بیچ ڈالے، ماں نے گھر گھر جا کر پیسے جمع کیے۔ 70 برس کے معمر باپ نے اپنے رکشے کی مزدوری سے حاصل ہونے والی جمع پونچی سے اپنے اس بیٹے کی پرورش کی تھی۔

رام ملن کے دو بچوں نے اپنے باپ کی کامیابی کے لیے کیا کیا منتیں نہیں مانگی ہوں گی، جن کی بہتر تعلم کے خواب آنکھوں میں سجائے رام اپنے گھر سے سعودی عرب کے لیے روانہ ہوئے۔

مگر روانگی کے چند ہی دن بعد گھر والوں کو ایک ایسی بھیانک خبر ملی جو اُن پر جیسے بجلی بن کر ٹوٹی اور سب خواب چکنا چور ہو گئے۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ رام ملن کے گھر والے اُن کی میت سعودی عرب سے واپس گھر لانے کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔

رام ملن کی لاش کا ان کے اہلخانہ کو کئی ہفتوں سے انتظار ہے۔ رام ملن کی موت گذشتہ ماہ سعودی عرب کے شہر دمام میں ہوئی، جہاں رام ملن شہزادہ محمد بن فہد یونیورسٹی میں صفائی کا کام کرتے تھے۔

مزدور باپ کا مزدور بیٹا

رام ملن کی والدہ نتھی دیوی کے مطابق ’بیٹے کی موت کی خبر کے بعد دس دن تک گھر میں چولہا تک نہیں جلا۔ پڑوسی اور رشتہ دار دو وقت کے کھانے کا انتظام کرتے تھے۔‘

اپنے بیٹے کی موت کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے آنسو رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور وہ ایک ہی جملہ دہراتی جا رہی تھیں ’کسی طرح مجھے ایک بار میرے بیٹے کا چہرہ دِکھا دو۔‘

رام ملن کی دو بیٹیاں ہیں، سنجنا کی عمر صرف چھ ماہ ہے جبکہ سب سے بڑی بیٹی سندھیا تین برس کی ہیں۔

رام ملن کی اہلیہ راجونتی نے بتایا کہ اُن کے شوہر چاہتے تھے کہ ان کی دونوں بیٹیاں بہتر تعلیم حاصل کر سکیں اور یہی سوچ کر وہ سعودی عرب گئے تھے۔

دھیمی آواز میں انھوں نے کہا کہ ’سعودی عرب جانے سے پہلے وہ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے تھے، کبھی کھیتوں میں، کبھی دلی میں اور کبھی ممبئی میں۔۔۔ اس طرح وہ سال بھر میں صرف 20 سے 30 ہزار روپے کی بچت کر سکتے تھے۔ اس کا بڑا حصہ میری ساس اور سُسر کے علاج پر خرچ ہوتا تھا۔ اسی لیے رام ملن نے فیصلہ کیا کہ سعودی عرب جایا جائے۔‘

اُن کی والدہ نتھی دیوی نے بتایا کہ بیٹے کو سعودی عرب بھیجنے پر ایک لاکھ تیس ہزار روپے خرچ ہوئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس میں سے میں نے رشتہ داروں سے تقریباً 85 ہزار روپے کا قرض لیا تھا، جو ابھی تک ادا نہیں کیا گیا۔ جب کہ کچھ رقم میری بہو نے اپنے زیورات بیچ کر اکٹھی کی تھی۔‘

’اب بچوں اور سسرال کے نان نفقے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہے‘

رام کی اہلیہ راجونتی بتاتی ہیں کہ ’میں نے زیورات یہ سوچ کر فروخت کیے تھے کہ کل جب میرے پاس پیسے ہوں گے تو میں زیورات دوبارہ خرید لوں گی۔ لیکن مستقبل کون جانتا ہے، اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، دو بیٹیوں اور ساس کے نان نفقے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہے۔ اب میرے پاس زیورات بھی نہیں ہیں، جنھیں میں بیچ سکوں۔‘

رام ملن کے 70 برس کے والد اندرجیت سروج دمہ کے مریض ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب: ’غیر ملکی ملازمین بلااجازت ملازمت تبدیل کر سکیں گے‘

خلیجی ممالک میں گھریلو ملازمین کی خرید و فروخت

سعودی عرب میں نصف تنخواہ اور قید کا ڈر

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے رکشہ چلا کر چار بیٹوں کی پرورش کی۔ میں دمہ کی وجہ سے آٹھ سال سے گھر پر ہوں۔ تین بیٹے الگ رہتے ہیں۔ میں رام ملن کے خاندان کے ساتھ رہتا ہوں۔ پانچ سال پہلے مجھے وزیر اعظم ہاؤسنگ سکیم میں یہ چھوٹا سے گھر مل گیا، پھر سر ڈھانپنے کے لیے چھت نصیب ہوئی، بیٹا سعودی عرب گیا تو لگا کہ اب حالات بدل جائیں گے، مگر مقدر میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔‘

بیٹے کے بارے میں باپ کا کہنا ہے کہ ’رواں برس 27 فروری کو میرا بیٹا مین پاور سپلائی کمپنی میں ایک ہزار ریال کی تنخواہ پر جدہ گیا تھا، پہلے مہینے میں اسے صرف پندرہ دن کام ملا اور تنخواہ بھی ملی۔ لیکن پھر تین ماہ تک اس کا کام بند رہا تاہم اس دوران کمپنی اسے کھانے کے لیے تین سو ریال دیتی رہی۔‘

’جون میں رام ملن کی کمپنی نے اسے دمام بھیجا اور 18 اگست کو اس نے کہا کہ وہ جون، جولائی اور اگست کی ادائیگیاں پانچ ستمبر کو ایک ساتھ بھیجیں گے تاکہ قرض کا کچھ حصہ ادا ہو جائے‘۔

اب سوال یہ بھی ہے کہ بیٹے کی موت کے بعد اس کی ادائیگی کب اور کیسے ہو گی؟

رام ملن کی بقایا تنخواہ پر دمام میں موجود ان کے سپروائزر سوریہ نارائن نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے ادائیگی کا عمل مکمل کر لیا ہے، جسے جلد ہی رام ملن کے گھر والوں کو بھیجا جائے گا۔

غیرملکی مزدوروں کے ساتھ کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق معاوضے کا عمل موت کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کام کے دوران حادثے پر الگ معاوضہ ہے جبکہ قدرتی موت پر یہ بہت کم ہے۔ جبکہ معاوضے کے دعوے کو طے کرنے میں لگنے والا وقت کیس کی پیچیدگی کے لحاظ سے ہر کیس میں مختلف ہوتا ہے۔

وزارت خارجہ کے مطابق ویب لنک کے ذریعے درخواست داخل کرنے کے بعد متعلقہ ہندوستانی سفارتخانہ میت کو ہندوستان واپس لانے اور موت کا معاوضہ حاصل کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا ہے۔

معیاری پریکٹس کے مطابق اسے سفارت خانے کے ذریعے انڈیا میں متعلقہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔ متبادل طور پر آجر اس رقم کو براہِ راست خاندان کو بھی منتقل کر سکتا ہے۔

’آخری ویڈیو کال پر بیٹے نے کہا مجھے سینے میں درد ہو رہا ہے‘

اس سوال پر کہ رام ملن کے ساتھ آخری بات چیت کیا تھی؟ رام ملن کی والدہ نتھی دیوی نے کہا کہ 18 اگست کی صبح بیٹے سے آخری بات ہوئی تھی۔ رام ملن نے اس دن ڈیوٹی پر جانے سے پہلے ویڈیو کال کی تھی۔

دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ ’اماں مجھے سینے میں درد ہو رہا ہے، اس کے بعد انھوں نے اپنی قمیض اتار کر دکھایا کہ اماں دیکھیں کتنا پسینہ آ رہا ہے۔‘

نتھی دیوی نے بتایا کہ ’میں نے رام ملن سے کہا کہ تم آج کام پر مت جانا۔ اپنے کمرے میں آرام کرو۔ اگر ضروری ہو تو ڈاکٹر کو دکھاؤ۔ اس کے بعد رام ملن نے کال منقطع کر دی۔‘

راجونتی نے کہا ’میں اپنے شوہر کے سینے میں درد سے بہت پریشان تھی۔ اس لیے کھانا پکانے کے بعد میں نے انھیں تقریباً 11 بجے سے فون کرنا شروع کیا۔ لیکن انھوں نے بات نہیں کی۔ اس کے بعد پونے میں رہنے والے میرے بھائی نے شام کو فون کیا۔ بتایا کہ رام ملن کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی، اس نے یہ خبر فیس بُک پر ایک دوست کی ٹائم لائن پر پڑھی تھی۔‘

راجونتی نے کہا ’ہم سب اس پر یقین نہیں کر سکتے تھے کیونکہ چھ سال کی اپنی شادی شدہ زندگی میں ہم نے کبھی رام ملن کو بیمار نہیں دیکھا۔‘

رام ملن کے بھائی 28 برس کے امیش کمار سروج کا کہنا ہے کہ ’میں نے فوری طور پر سپروائزر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ آپ نے میرے بھائی کا ڈاکٹر سے علاج کیوں نہیں کروایا، انھوں نے کہا کہ رام ملن نے بروقت نہیں بتایا کہ ہم کچھ کر سکتے۔‘

بتایا گیا کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی

دمام میں رام ملن کے نگران سوریہ نارائن نے رام ملن کے بارے میں بتایا کہ ’رام ملن موت کے دن یونیورسٹی میں ڈیوٹی پر جانے کے لیے تیار تھے، بس میں سوار ہونے سے پہلے انھیں سینے میں درد محسوس ہوا، تو انھوں نے ساتھی چندرا بابو کو اس بارے میں آگاہ کیا کہ وہ کام پر نہیں جا سکے گا۔‘

’بیس منٹ بعد چندرا بابو یونیورسٹی پہنچے اور مجھے بتایا کہ رام ملن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، وہ آرام کر لیں گے۔ کچھ ہی دیر بعد رام ملن کے کمرے میں رہنے والے محمد غالب نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔‘

رام ملن کی موت کو 40 دن گزر چکے ہیں۔ لیکن ان کی میت ابھی تک انڈیا نہیں لائی جا سکی ہے۔ رام ملن کے گاؤں ‘امورا’ میں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ 20 گھر یادو، 45 گھر لودھی برادری کے، 20 گھر مسلمانوں کے ہیں جبکہ اسی طرح دیگر برادریوں کے لوگ آباد ہیں۔ اس گاؤں کے نوجوانوں میں خلیجی ممالک جا کر کام کرنے کا رجحان ہے۔

اس لیے بلاتخصیص مذہب اور ذات گاؤں کے تمام لوگ رام ملن کے خاندان کے اس دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ہر صبح وہ رام ملن کے گھر اس امید کے ساتھ آتے ہیں کہ آج لاش کی خبر ضرور آئے گی۔

مقامی سماجی کارکن امان رضوی ان کی میت انڈیا سے واپس لانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔

امان رضوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’20 اگست کو میں متوفی کے اہلخانہ کے ساتھ کوشامبی کے ڈی ایم کی رہائش گاہ پر گیا، وہ وہاں نہیں تھے، انھوں نے فون پر ایس ڈی ایم سے ملنے کو کہا۔ ہم نے تمام کاغذی کارروائی اسی طرح کی جس طرح ایس ڈی ایم نے کہا تھا۔‘

امان رضوی

ابھی تک لاش کیوں نہیں آئی؟

موت کے دس دن بعد ان کے اہلخانہ کو سعودی عرب میں انڈین سفارت خانے سے این او سی بنانے اور بھیجنے کے لیے کال آئی۔

’اگلے دن این او سی بنوانے کے بعد ہم اے ڈی ایم آفس گئے لیکن وہاں سے جواب ملا کہ ’اگر انھیں این او سی چاہیے تو اس کے لیے وہ درخواست دائر کریں۔ این او سی کے لیے میں نے جو خط بھیجا ہے اس کا جواب ملا کہ ہم ایسے فون پر بات کر کے این او سی نہیں بھیج سکتے۔‘

امان رضوی نے کہا کہ ’اس کے بعد میں نے ریاض میں انڈین سفارت خانے کو فون کیا اور معاملے سے آگاہ کیا، انھوں نے ایک ای میل ایڈریس دیا، جس پر این او سی اور درخواست بھیجی گئی۔ مگر اس کے بعد پھر ہفتے گزر گئے اور کچھ نہ ہوا۔‘

’میں نے مقامی ایم پی ونود سونکر سے ملاقات کی۔ انھوں نے خارجہ سیکریٹری سے میل کے ذریعے رام ملن سے متعلق تمام معلومات مانگیں، وہاں سے جواب آیا کہ این او سی سے متعلق تمام دستاویزات مل چکی ہیں۔ کمپنی کی طرف سے کچھ ضابطے کی کارروائی باقی ہے، مزید کارروائی اس کے بارے میں مطلع کیا جائے گا۔ یہ 11 واں دن ہے لیکن ابھی مزید کوئی اپڈیٹ نہیں ہے۔‘

’جب 40 دن گزرنے کے بعد بھی ان کی لاش نہیں ملی تو کوشامبی کے ڈی ایم سوجیت کمار نے کہا کہ میں تلاش کر کے بتاؤں گا۔ لیکن ابھی تک کوئی اپڈیٹ نہیں ملی۔‘

جب کوشامبی کی ضلعی انتظامیہ سے معلومات موصول نہیں ہوئیں تو بی بی سی نے ریاض میں انڈین سفارت خانے کے کمیونٹی ویلفیئر کے کونسلر ایم آر سنجیو سے رابطہ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’رام ملن کا انتقال 18 اگست کو ہوا تھا اور موت کی اطلاع ملنے پر سفارت خانے نے لاش کو 14 ستمبر کو انڈیا بھیجنے کے لیے این او سی سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ اب یہ اطلاع دی گئی ہے کہ کارگو بکنگ کا عمل جاری ہے اور توقع ہے کہ لاش دو سے تین دن میں بھیج دی جائے گی۔‘

انڈیا کی میت تک پہنچنے کا معاملہ صرف رام ملن کا نہیں ہے۔ اس مشکل کا سامنا انڈیا اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کے شہریوں کو بھی ہوتا ہے۔

زیادہ وقت لگنے کی ایک وجہ ضروری کاغذی کارروائی مکمل کرنے کے علاوہ گارنٹر یا ضامن کی طرف سے رقم جمع کروانے میں تاخیر بھی بن جاتی ہے۔

رام ملن کی ماں کے مطابق ’بیٹے کو قرض لے کر باہر بھیجا تھا اور اب ان کی لاش گھر لانے کے لیے قرض جمع کر رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments