دیواروں کے صرف کان نہیں زبان بھی ہوتی ہے


کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے
یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنے پریشاں کیوں ہو

اچھا وقت تھا بات نکلنے کا خوف ہوتا تھا۔ اب تو ایسی تبدیلی آئی کہ بند کمروں میں کی جانے والی راز کی باتیں حتیٰ کہ سرگوشیاں بھی آڈیو لیک کی صورت میں بیچ بازار، چوک اور چوراہوں پر کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی پر سوال بعد میں آئے گا دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کس طرح کی گفتگو کرتی ہے کس قدر عوام سے جھوٹ بولتی ہے۔ ایک ایک پردہ سرک رہا ہے سیاست کا گھناؤنا چہرہ سامنے آ رہا ہے۔ طے ہو گیا کہ احتیاط لازم ہے کہ اب دیواروں کے کان ہی نہیں بلکہ زبان بھی ہوتی ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار دوست محمد خان کھوسہ کے مطابق ایک بار وزیراعظم نواز شریف سے وزیراعظم ہاؤس میں اہم میٹنگ کا وقت طے پایا۔ اہم حکومتی شخصیات اس میٹنگ میں شریک تھیں مگر یہ میٹنگ وزیراعظم ہاؤس کے لان میں کی گئی۔ اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ احتیاطی طور پر میٹنگ لان میں کر رہے ہیں مگر جن سے چھپا رہے ہیں ان کو پتہ لگ ہی جائے گا۔ مطلب کہ وزیراعظم ہاؤس میں کی گئی بات ہر اس کان تک ضرور پہنچتی ہے جس سے یہ بات چھپائی جا رہی ہوتی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح کا نظام ہے یہ کیسی پرائیویسی ہے۔ اس اہم مقام کی گفتگو کیوں محفوظ نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ کبھی کوئی ملکی سلامتی کے حوالے سے اہم گفتگو لیک ہو گئی تو کیا ہو گا۔ امید ہے ذمہ داران اس پر ضرور سوچیں گے۔

صد شکر کہ ابھی تک آڈیو ہی لیک ہو رہی ہیں اگر کوئی ویڈیو لیک ہو گئی تو خدا جانے کیا ہو۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو جو تھوڑا بہت بھرم بچا ہے وہ بھی چلا جائے گا۔ اس ضمن میں اگر سیاسی فریقین کشتیاں جلانے پر نا آئے تو بچت ہو جائے گی اور اگر محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کلیہ پر عمل کر لیا گیا تو یہ پھر ایک ایسی جنگ ہوگی جس میں کوئی فاتح نہیں ہو گا بلکہ ہر کوئی ہارے گا۔ اس ضمن میں کھیل میں شامل تمام سیاسی کھلاڑیوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ چراغ سب کے بجھیں گے کیونکہ ہوا کسی کی نہیں ہوتی۔

وقت کا پہیہ الٹا چل پڑا ہے۔ نون لیگ کی رہنما محترمہ مریم نواز شریف باعزت بری ہو گئیں اس فیصلے کا یقینی طور پر فائدہ میاں نواز شریف کو بھی ہو گا۔ اسحق ڈار واپس بھی آ گئے اور حلف اٹھا کر خزانے کی کنجیاں بھی سنبھال چکے ہیں اور لگے ہاتھوں عالمی منڈی میں تیل سستا ہونے کا کریڈٹ تیل سستا کر کے لے رہے ہیں۔ امید ہے کہ بجلی اور گیس کے ٹیرف، گھی، چینی اور آٹے کی قیمتوں میں بھی کمی کریں گے تاکہ عوام کے دکھوں کا کچھ مداوا ہو سکے۔ اب تو امداد بھی مل رہی ہے قرض کی ادائیگیوں میں بھی مہلت ملنا شروع ہو گئی ہے ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی میں سولہ سو ارب کا ریکارڈ ٹیکس بھی جمع کر لیا ہے تو اس کا فائدہ بہرحال عوام کو پہنچنا چاہیے

رہی بات کہ اب ہونے کیا جا رہا ہے تو فی الوقت تو عوام نومبر کی منتظر ہے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ مدت ملازمت میں مزید توسیع نہیں ہوگی اور نیا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر میرٹ پر کیا جائے گا۔ اس ضمن میں گفتگو کافی سنجیدہ مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ سیاسی فریقین سر جوڑے بیٹھے ہیں اور گارنٹی دینے والے بھی تیار ہیں چیزیں اپنے مقررہ وقت پر خوش اسلوبی سے انجام پائیں گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو کیونکہ ملک مزید کسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ اور ذمہ داران کے مطابق سب ٹھیک ہو گا بس دیکھتے جائیں۔

امید ہے کہ نومبر کی اہم تعیناتی کے بعد نئے انتخابات پر کھل کر بات ہوگی اور کوئی وقت طے کیا جائے گا مگر اس سے قبل پنجاب ایک بار پھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہو گا کیونکہ پنجاب کو فتح کیے بغیر نئے انتخابات میں جانا بے معنی ہو گا۔ گویا نومبر کے بعد سیاسی میدان جنگ پنجاب بنے گا۔ لہذا پنجاب میں کھچڑی پکنا شروع ہوگی ہے۔ شاید یہ وجہ ہے کہ کپتان پنجاب کی ممکنہ محاذ آرائی اور نئی تعیناتی کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو کال دینے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ فواد چوہدری کے مطابق سات دنوں میں عوام کو کال دے دی جائے گی۔ اگر کال دے دی جاتی ہے تو کیا رانا ثنا اللہ کی حکمت کام کرے گی، شاید اس کا فیصلہ عوام کی تعداد پر منحصر ہے کہ وہ کپتان کی کال پر کتنی تعداد میں باہر نکلتے ہیں

جنتا تو جب نکلے گی فی الوقت کپتان نکلے ہوئے ہیں اور محترمہ زیبا صاحبہ کی عدالت میں جا کر اپنے الفاظ کی معافی مانگ آئے ہیں گو کہ ان کے سیاسی حریف اس عمل پر تنقید کر رہے ہیں مگر یہ ایک مثبت عمل ہے کم سے کم کپتان نے قانون کا احترام کرنے کا اچھا فیصلہ کیا ہے۔ قانون کے سامنے سرنڈر کرنا بزدلی نہیں بڑا پن ہوتا ہے بہرحال کپتان کو بھی سوچنا ہو گا کہ پہلے تولو پھر بولو کی بات ایسے نہیں کی گئی تھی۔ امید ہے آئندہ کپتان بولنے سے پہلے بات کو تو لیں گے تاکہ پھر سے معذرت نا کرنی پڑ جائے کیونکہ اب کہے گئے الفاظ پر رعایت نہیں ملا کرے گی۔

اس سارے کھیل تماشے میں اگر سیلاب زدگان کی بات کریں تو ان کا اللہ وارث ہے کوئی پہلی بار تھوڑی ڈوبے ہیں۔ سر تا پیر مہنگائی، بدامنی، غربت، مفلسی، بے روزگاری میں ڈوبے ہوئے اگر سیلاب کے پانی میں ڈوب گئے تو کون سی قیامت آ گئی۔ ہمیشہ کی طرح یہ برا وقت بھی گزر جائے گا۔ اور اگر قومی اور صوبائی حکومتیں ریلیف کے لیے عملی اقدامات کو یقینی بناتے ہوئے سرگرمیاں تیز کر دیں تو عوام کو کافی سہولت ہو جائے گی اور پھر اس میں سیاسی اشرافیہ کا اپنا بھی تو فائدہ ہے کہ ان کو نعرے لگانے کے لیے اور حکومت کرنے کے لیے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی تو دستیاب ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments