یہ کتوں کو ٹہلانے والے


روزانہ صبح سویرے جب مرتجز کو اسکول کی بس میں سوار کرانے کے لیے نکلتی ہوں تو سب سے پہلے ڈھیر سارے خوبصورت رنگ برنگی نسل کے کتوں اور ان کے مالکان کا سامنا ہوتا ہے۔ مسکراہٹ اور صبح کے سلام کے تبادلے کے ساتھ۔

سب سے پہلے ایمی نظر آتی ہے اور بار بار نظر آتی ہے کیونکہ وہ وہیں مارننگ واک کرتی ہے اس کے پاس بہت منا سا گھونگریالے بالوں والا پپی ہے۔ پہلے دن اس نے خود تعارف میں پہل کی

کیا تم شازی کی کرائے دار ہو؟
ہاں، میں نے حیرانی سے دیکھا، تو وہ مسکرا دی، تمہاری دوست نے ذکر کیا تھا۔
سفید برف جیسا پپی اس کا چہیتا بے بی ہے اور وہ ایک ماں کی طرح خیال رکھتی ہے۔

کارٹر مرتجز کا کلاس فیلو ہے۔ اور اسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتا ہے۔ اس کے گھر کے عین سامنے اسکول بس رکتی ہے۔ ساتھ ہی ایک پھولوں بھرا راؤنڈ اباؤٹ بنا ہے جہاں میں اور مرتجز بس کا انتظار کرتے ہیں کارٹر کی ماں کے پاس صحت مند بکرے کے سائز کا مغرور سا بل ڈاگ ہے جو کسی کو لفٹ نہیں کراتا اور ہم بھی اس کو لفٹ نہیں کراتے یہ الگ بات ہے کہ خوف اجازت نہیں دیتا۔ کارٹر کی ماں مونیک جانتی ہے۔ سو وہ اسے ہم سے دور رکھتی ہے۔ لیکن ایک ملنسار دوست کی طرح ہمارے ساتھ بس کے آنے خوشگوار لمحات گزارتی ہے۔

مسٹر لی اپنے دو جڑواں کتوں کو روز اسی سمے ٹہلانے نکلتے ہیں، پتہ نہیں کتے جڑواں ہیں یا نہیں مجھے لگتے ہیں۔

مجھے ایک جھینپی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے اور ہاتھ ہلاتے ہیں۔ ان کی جھینپی مسکراہٹ کی وجہ بتاتی چلوں جو پندرہ دن سے مستقل ان کے لبوں پر ہمیں دیکھ کر آجاتی ہے پتہ نہیں کب معدوم ہو گی۔

ہمیں یہاں شفٹ ہوئے دو دن ہوئے تھے کہ شازیہ کا فون آیا کہ ایمازون سے ہمارا ایک پارسل آیا مین اینٹرنس پر رکھا ہے وہ اٹھا لو اس میں زیبش کا لیپ ٹاپ ہے۔ میرے گھر کا دروازہ بیک یارڈ کی طرف ہے۔ میں فوراً نکلی اور شازیہ کے بند دروازے کے باہر جاکر دیکھا تو پارسل رکھا ہوا تھا ابھی اٹھایا ہی تھا کہ کرخت سی آواز آئی۔

ہائے تم کون ہو اور یہ پارسل کیوں اٹھا رہی ہو۔

آواز پر مڑ کر دیکھا تو ایک چائینیز نقوش والا اپنی آواز کے برعکس منحنی سا آدمی دو جڑواں کتوں کے ساتھ کھڑا مجھے خونخوار نگاہوں سے گھور رہا تھا ساتھ ہی ہاتھ میں فون گویا ابھی پولیس بلا لے گا۔ چھ ایک جیسے تاثرات والی خونخوار آنکھیں جیسے چور کو موقع پر پکڑ لیا ہو۔

مجھے پارسل کی مالکہ نے کہا ہے۔ میں ان کی کرائے دار اور آپ کی نئی پڑوسن ہوں۔ محتاط رویے گا شکریہ۔ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

اس کے چہرے کے مسلز ڈھیلے ہوئے اور آنکھیں جو مزید چھوٹی نظر آ رہی تھیں نمایاں ہو گئیں۔ معذرت لیکن میں تصدیق کروں گا۔ وہ شازیہ کو کال ملا چکا تھا۔ اب اس کے چہرے پر خجالت تھی اور لہجہ میں دھیما پن۔ میں یہاں تیس برس سے رہتا ہوں ہم سب ایک فیملی کی طرح ہیں۔ مجھے غلط مت سمجھنا۔

نہیں مجھے خوشی ہے کہ آپ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اتنا مخلص ہیں۔ میں نے پارسل اٹھایا اور گھر آ گئی یہ الگ بات ہے کہ کافی دیر آئینے میں منہ دیکھا کہ کس زاویے سے چور نظر آئی۔

اب روزانہ کا سامنا ہے اور ایک جھینپی مسکراہٹ کے ساتھ گڈ مارننگ کی وصولی۔ کتے مانوس بھی ہو گئے ہیں۔

یہ کتوں کو ٹہلانے والے سارے لوگ بہت کیئرنگ پیار کرنے والے اور اپنے کتوں کے معاملے بہت حساس ہیں۔ کتوں پر پیار آئے یا نہ آئے لیکن اظہار کرنا پڑتا ہے ورنہ یہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے کتا انہیں ٹہلانے نکلا ہے

یعنی ان کا کنٹرول کتے کے پاس ہوتا ہے۔ اگر آپ کتے کے ساتھ ساتھ واک کرتے کتے کے مالک کو رک کر اچانک ہاتھوں میں گلوز چڑھاتے دیکھیں تو ہرگز مت گھبرائیں یا چونکیں۔ وہ کتے کا یا آپ کا گلا ہرگز نہیں دبائے گا بلکہ اسے کتے سے برامد ہونی نجاست کو ٹھکانہ لگانا ہے اس کام کو وہ بغیر کسی کراہیت کے انجام دیتے ہیں۔

کتوں سے ہمیں صرف پطرس بخاری کے مضمون کی حد تک دلچسپی ہے اور اس مضمون نے ہمیں ان سے ہمیشہ دور ہی رکھا۔ ہماری کئی دوستوں کے پاس مختلف اقسام کے کتے رہے لیکن ہم سے دور رہتے۔

ایک تو بچپن سے ہی یہ عقائد کہ کتا نجس جانور ہے اور کتے کی موجودگی سے رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔

تو رحمت کے فرشتوں کے نہ آنے کا خوف ہمیشہ کتے کی آؤ بھگت سے روکتا دوسرے کتے کے کاٹنے اور پھر انجکشن کا خوف۔ جس کہ بنا پر کتے کے قریب سے گزرنا بھی ایک جان کنی کا مرحلہ رہا۔ اور اب تک ہے۔ تو صبح صبح ہر سائز کے کتوں سے ملاقات ایک امتحان ہی ہے۔ جس میں روز پورے اترنے کی کوشش ہوتی ہے کہ کتے سے دوری بھی رہے اور مالکان ناراض نہ ہوں۔ مرتجز کو کتے خاص طور پر

چھوٹے پپی بہت پسند ہیں اور وہ بڑی حسرت سے کہتے ہیں مما کاش کتا نجس نہ ہوتا۔ وہ بلیاں بھی پسند کرتا ہے اور کتے بلیوں پر دست شفقت پھیرنے میں عار نہیں سمجھتا۔

اس عید پر میرا بھائی پاکستان سے نیویارک آیا میں بھی وہیں تھی۔ ہم چاند آیا ہم چاند رات پر جیکسن ہائٹس گئے۔ وہاں ایک سٹال پر مرتجز کی ایک پپی سے دوستی ہو گئی اور وہ اسے پیار کرنے سے خود کو نہ روک سکا۔ پیار اور محبت کے اس اظہار سے کتے کی مالکن بہت خوش ہوئی اور مرتجز کو چاکلیٹ سے نوازا۔ گھر آ کر مرتجز کو سمجھایا تو انہوں نے بڑی حسرت سے کہا مما کاش کتے نجس نہیں ہوتے۔

اب روز ایمی کے کا سامنا ہوتا ہے۔ جس کا پپی مرتجز کا پسندیدہ ہے۔ پہلے دن جب مرتجز نے ہاتھ لگانا چاہا تو اس نے فوراً سوال کیا۔

”از ہی الاؤ ٹو پیٹ ہم“
میں جواب دیتے ہوئے جھجکی تو وہ سمجھ گئی۔
یو اونلی کین ٹاک بے بی۔ اس نے پپی سے کہا جو مرجز سے فری ہونے کے لیے بے تاب تھا۔ لیکن جانور ہونے کے باوجود سمجھ گیا۔ اب ہم روز ملتے ہیں وہ ریس لگاتا ہے اچھلتا ہے اور دور دور سے کھیلتا ہے

یہ کتوں کو ٹہلانے والے صبح شام شکرگزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ مسکراہٹ اور سلامتی کا تحفہ دیتے ہیں۔ محبتوں سے مالا مال ہیں۔ اپنے پالتو جانوروں کو اپنی اولاد کی طرح رکھتے ہیں۔ بلکہ آزاد اور سڑک پر چلنے والے جانور کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ درختوں پھولوں اور پودوں سے پیار کرتے ہیں ہرے بھرے درخت نہیں کاٹتے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہیں۔ اللہ کی رحمت پر کتوں کے معاملے میں ان کے کوئی تحفظات نہیں۔ ان کا خدا پر یقین اتنا محدود نہیں کہ ایک جانور کی موجودگی اس کی رحمتوں کے نزول میں حائل ہو یا شاید خدا نے یہاں رحمت کے فرشتوں کو چھوٹ دے دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments