شمالی اور جنوبی ہندوستان : زمینی، معاشی و معاشرتی فاصلے


1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے

بھارت اٹھائیس ریاستوں اور آٹھ مرکزی علاقہ جات پر مشتمل ایک ملک ہے۔ آبادی کے لحاظ سے اس کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش ہے جس کی آبادی بیس کروڑ جبکہ رقبہ اڑھائی لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ اس کی آبادی پاکستان کے برابر اور رقبہ میں کم و بیش تین گنا کم۔ سب سے کم آبادی والی ریاستوں میں سکم اور میزورام شامل ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے بھی کم ہے۔

شمالی، وسطی، جنوبی اور مغربی ہندوستان کے سفر کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ہندوستان میں مختلف تہذیبیں پائی جاتی ہیں جو واضح طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ میں نے جب بھارت کی ریاستوں کے بارے میں مزید جانا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ بھارت میں چھ مختلف تہذیبیں آپس میں مل جل کر مرکز کے تحت ایک قوم بن کر رہ رہی ہیں۔ یہ سب لوگ بھارتی کہلاتے ہیں اور بھارت ماتا کی بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اختلافات اپنی جگہ پر موجود ہیں اور رہیں گے لیکن ہم ایک خاندان ہیں، ہماری ماں ایک ہے اور ہم سب آپس میں کزن ہیں۔ ان علاقوں کے درمیان کوئی واضح لائن لگانا نہایت ہی مشکل ہے۔ میں نے جو تقسیم کی ہے اس کی بنیاد وہ معلومات ہیں جو میں نے مختلف ذرائع سے حاصل کی ہیں۔ ان سے اختلاف ممکن ہے۔ ان چھ مختلف تہذیبوں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں۔

شمالی علاقے جن میں پنجاب، ہریانہ، دہلی، اتر پردیش وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ جنوبی علاقے جن میں، آندھرا پردیش، تا مل ناڈو، تلنگانہ، کیرالہ، کرناٹک وغیرہ شامل ہیں۔ مغربی علاقے جن میں گجرات اور راجستھان کے علاوہ بھی کئی علاقے شامل کیے جا سکتے ہیں۔ مرکزی ہندوستان میں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کو رکھا جا سکتا ہے۔ شمال مشرقی ہندوستان میں آسام، منی پور، میزو رام، سکم اور تری پورا کے علاقے گنے جا سکتے ہیں۔ مشرقی علاقوں میں بہار، جارکھنڈ، اڑیسہ پایا جاتا ہے۔

میں شمالی اور جنوبی علاقوں کے درمیان معاشی و معاشرتی فرق اور ان کی سوچ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اس کا مقصد آپ کو ایک نہایت ہی تاریخی حقیقت سے آگاہ کرنا ہے، جس کے بارے میں مجھے بھی علم نہیں تھا۔

یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ باہر سے آنے والے لوگ ہندوستان میں دو بڑے راستوں سے داخل ہوئے۔ مغربی سمت سے وسطی ایشیا، ایران اور افغانستان سے لوگ آئے۔ ان کا اثر زیادہ تر شمالی ہندوستان پر ہی رہا اور یہ لوگ درہ خیبر کے ساتھ ساتھ وسطی ہندوستان اور بنگال پر بھی قابض رہے۔ ان لوگوں کا جنوبی ہندوستان تک بھی جانا ہوا لیکن ان کا اصل ٹھکانا شمالی اور وسطی ہندوستان ہی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی ہندوستان کے بھی بہت سے علاقے ان کے کنٹرول میں تھے۔ ہندوستان میں جنوب کی طرف سے آنے والے لوگ یورپین اور عرب تھے جو سب سمندر کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے۔

مغرب کی طرف سے آنے والے لوگ جنگجو تھے۔ وہ فوجوں کے ساتھ آئے۔ انھوں نے بہت زیادہ جنگیں لڑیں۔ پہلا حملہ سکندر نے کیا جس کا مقابلہ ایک مقامی حکمران نے کیا۔ بعد ازاں جو لوگ بھی آئے انھیں مقامی لوگوں نے روکنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بہت بڑی بڑی جنگیں ہوئیں لیکن وہ ناکام ہوئے۔ اس طرح مغرب سے آنے والے لوگ شمالی ہندوستان پر صدیوں تک حکمرانی کرتے رہے۔

اس وجہ سے شمالی ہندوستان کے لوگ جنگوں سے بہت اچھے طریقے سے آشنا ہیں۔ بھارت اور پاکستان کی فوج میں ان علاقوں کے رہنے والوں کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ جنگوں کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو نقل مکانی بھی کرنا پڑتی تھی اسی وجہ سے یہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ جب یہ لوگ اپنے علاقے سے دوسرے علاقوں میں گئے تو اپنی تہذیب سے بھی ان کا تعلق کمزور ہو گیا اور انھوں نے دوسروں کی باتوں کو اپنانا شروع کر دیا۔ شمالی علاقہ جات میں بے شمار دریا صحرا اور پہاڑ موجود ہیں یہ علاقے کافی کھلے اور جنوب کی نسبت کم گنجان آباد ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ افریقہ سے بھی لوگ یہاں آئے لیکن اس بات کے حق میں مجھے کوئی زیادہ معلومات نہ مل سکیں۔

سمندر کے راستے آنے والے تاجر پہلے کئی سو سال تک تو صرف تجارت ہی کرتے رہے۔ مقامی لوگوں نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔ انھیں فیکٹریاں لگانے اور رہنے کے لیے جگہ بھی دی اور ان سے بہت کچھ سیکھا بھی۔ یہاں پر چار بڑے ممالک سے لوگ آئے جن میں برطانیہ، پرتگال، ڈچ اور فرانس شامل ہیں۔ کچھ لوگ تو جلد واپس چلے گئے لیکن انگریز یہاں دیر تک رہے۔ اسی طرح عرب تاجر بھی یہاں آئے اور انھوں نے اسلام کی تبلیغ بھی کی جس سے اس علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد مسلمان ہوئی۔ مسلمانوں کی سندھ کی فتح بھی ایک فوجی کارروائی کا نتیجہ تھی۔

مجھے پہلی مرتبہ علم ہوا کہ نبی پاک ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں کیرالہ کے راجا نے چاند کے دو حصوں میں تقسیم ہونے والے واقعے سے متاثر ہو کر آپ ﷺ کو پیغام بھجوایا کہ میں نے آپ کے ماننے والوں کی عبادت کے لیے ایک جگہ مختص کر دی ہے۔ یہ ہندوستان میں بننے والی پہلی مسجد ہے جس کا نام چیرا مان مسجد ہے۔ پرتگیزیوں کے ایک حملے میں یہ مسجد شہید ہو گئی تھی۔ اب اسے دوبارہ سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

مہرداد شاکونی نے اپنی کتاب
Muslim Architecture of South India: The Sultanate of Ma ’bar and the Traditions of Maritime Settlers on the Malabar and Coromandel Coasts (Tamil Nadu، Kerala and Goa)
میں اس مسجد کے بارے میں لکھا ہے (صفحہ نمبر 141 ) کہ یہ مسجد آٹھویں ہجری میں اس وقت بنائی گئی جب یہاں کا راجہ ایک صحابی کی تبلیغ کے نتیجہ میں مسلمان ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسلام کی دعوت عرب سے نکل کر عجم میں پھیل رہی تھی۔ یہ سب جان کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مالا بار کے اس علاقے میں قائم ہونے والی مسجد جو پوری شان و شوکت کے ساتھ اب بھی موجود ہے ہندوستان بھر میں پہلی مسجد ہے اور یہاں کا راجہ پہلا مسلمان ہے۔

میں نے ایک اور بات محسوس کی کہ شمال میں موجود حکمرانوں، خاص طور پر مسلمانوں نے جنوبی ہندوستان پر حملے کیے اور وہاں پر اپنی ریاستیں بھی قائم کیں (جن کا تفصیلی ذکر پچھلے صفحات میں کیا جا چکا ہے ) لیکن جنوب سے کبھی بھی کسی حکمران نے شمالی علاقہ جات پر نہ حملے کیے اور نہ ہی کبھی اس کی کوشش کی۔ البتہ مراٹھوں نے شمالی ہندوستان پر حملے کیے لیکن وہ کبھی بھی شمالی ہندوستان پر اپنی حکومت قائم نہ کر سکے۔ ان کا تعلق بھارت کے مغربی علاقوں سے تھا جنوب سے نہیں۔

ہندوستان کے مغربی علاقے بھی حملہ آوروں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ اہل ایران اور عرب اسی طرف سے حملہ آور ہوتے تھے۔ محمود غزنوی بھی ملتان سے براستہ سکھر، تھر، سومنات کی طرف سے آتا جاتا رہا ہے۔ اس وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کا مغربی ساحل بھی ایک جنگی مزاج رکھتا ہے لیکن جنوبی اور خاص طور پر جنوب مشرقی حصہ حملہ آوروں سے ہمیشہ ہی محفوظ رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے تجارت، علم و ہنر، موسیقی، آرٹ کے کاموں میں دلچسپی لی ہے۔ اس بات کے ثبوت کے طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آج بھی بھارت میں سب سے معاشی اور علمی ترقی اسی علاقے میں ہے۔

بھارت کی جنوبی ریاستوں میں تعلیم بھی بہت زیادہ ہے اور دولت کے لحاظ سے بھی وہ سب سے آگے ہیں۔ ابھی حال ہی میں بھارت میں تعلیم، ترقی، انسانی وسائل اور امن و امان وغیرہ کی بنیاد پر تمام ریاستوں کی ایک فہرست شائع کی گئی۔ پہلی پانچ ریاستوں میں سے چار کا تعلق جنوبی ریاستوں سے ہے جس سے جنوبی ریاستوں کی بقیہ ریاستوں پر برتری ثابت ہوتی ہے۔

کبھی کبھار جنوبی ریاستوں کے لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم کماتے ہیں اور شمال کے لوگ ہماری کمائی پر عیاشی کرتے ہیں۔ وزیر اعظم مودی 2018 ء نے چنائی کا دورہ کیا۔ اس دوران بہت سے لوگوں نے اس کے خلاف مظاہرے بھی کیے۔ مظاہرین سے بچنے کے لیے حکومت نے مودی کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ مظاہرین نے بہت بڑے بڑے غباروں پر احتجاجی نعرے لکھ کر فضا میں چھوڑے اور اس طرح فضا میں بھی مودی کو سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔

مجھے یہ دلچسپ بات پہلی مرتبہ پتہ چلی کہ احتجاج فضا میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً آپ نے بھی ایسا احتجاج پہلی مرتبہ سنا ہو گا!

جنوب کی تہذیب شمال کی تہذیب کی نسبت زیادہ محفوظ ہے اور جنوبی بھارت کے لوگ اپنی تہذیب کے ساتھ ایک گہری وابستگی بھی رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہاں کے لوگوں کا دوسرے علاقوں میں آنا جانا کم رہا ہے، اس وجہ سے وہ اپنی تہذیب کے ساتھ شدت سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں نے شمالی ہندوستان میں جنوبی ہندوستان کے بہت کم لوگوں کو دیکھا البتہ سرکاری افسران میں جنوبی ہندوستان کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد میں موجود ہے، جس کی وجہ تعلیم میں ان کا آگے ہونا ہے لیکن مجھے جنوبی ریاستوں میں بہت سے لوگ ایسے ملے جو شمال سے آئے تھے۔ اس کی ایک مثال ہمارے ہوٹل کی ہے جسے ایک سردار صاحب چلا رہے تھے۔

جب بھارت میں زبان کی بنیاد پر کئی نئی ریاستوں کا وجود عمل میں آیا تو جواہر لال نہرو نے اس کی سخت مخالفت کی اور کوشش کی کہ ہندی کو بھارت کی زبان بنا لیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے وحدت کا تصور مضبوط ہو گا لیکن اس نظریے کی سخت ترین مخالفت کی گئی اور کئی سال کی جدوجہد کے بعد جنوبی بھارت کے لوگوں کا مطالبہ مان لیا گیا اور جنوب کی کئی ریاستیں زبان کی بنیاد پر وجود میں آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments