عورت کا یہ روپ بھی دیکھا ہے؟


اس وقت ہماری پڑھی لکھی کلاس کے اندر جو موضوع تواتر کے ساتھ زیر بحث ہے وہ عورت کی مظلومیت ہے۔ چنانچہ خواتین و حضرات کی ایک بہت بڑی تعداد یہ گلہ کرتے نظر آتی ہے کہ، ہمارے ہاں اس وقت سب سے مظلوم اور بے یار و مددگار طبقہ عورت ہے، جس کو مرد کئی لحاظ سے استحصال کا نشانہ بنا کر اس کے اوپر ظلم کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں پھر کچھ ایسے واقعات بھی منظر عام پر آئے جو اس بات کو تقویت دیتے تھے کہ واقعی عورت ہی مظلوم ہے۔

چنانچہ محترمہ نور مقدم مرحومہ اور حال ہی میں شہید ہونے والی محترمہ سارہ کا ناحق قتل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہاں مرد کے روپ میں ایسے بھیڑیے موجود ہیں جو اپنی جنسی اور دیگر خواہشات کی خاطر ایک زندہ انسان کو قتل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ لہذا ایسے درندوں کو قانون کے کٹہرے میں لاکر، قرار واقعی سزا دینا نہ صرف یہ کہ بہت لازمی ہے بلکہ اس سے ہمارے ہاں ایسے جرائم میں کمی بھی واقع ہوگی اور کوئی بھی سنگ دل مرد اس طرح کا قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ محترمہ سارہ کی شہادت نے ہمارے ہاں اس بحث کو پھر زندہ کر دیا ہے کہ ہمارا مرد ظالم اور عورت مظلوم ہے، اور پھر اس کو لے کر صنفی بنیادوں پر پراپیگنڈہ کر کے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ گویا پاکستان کے سارے مرد ظاہر جعفر اور شاہنواز امیر ہیں، اور ان سے کسی بھی قسم کی ہمدردی روا نہیں رکھی جانی چاہیے۔

ہمارے معاشرے نے جو کئی تعصبات پالے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اپنی پسند کا ایک مفروضہ گھڑ کے پھر اس کے مطابق تحقیق کر کے، صرف انہی نتائج کو سامنے لاتے ہیں جو ہمارے مفروضے کو سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ اور یہ صریحا بد دیانتی اور جاہلانہ بات ہے۔ کیونکہ تحقیق کے لئے پہلی شرط ذہن کو تعصب سے پاک کر کے، کسی مظہر کا کھوج لگانا ہے۔ اس کے لئے جو بھی طریقہ کار اختیار کیا جائے یا جس بھی مواد کی چھان بین کی جائے وہ کھلے ذہن کے ساتھ جب کی جائے گی تو ہماری تحقیق میں اغلاط کا احتمال کم ہو گا، وگرنہ وہ تحقیق مبنی پر تعصب اور ناقص تصور ہوگی۔

چنانچہ ہمارے یہاں خواتین پہ تشدد کے اوپر جو تحقیق کی جاتی ہے، اس میں بھی صرف متاثرہ خواتین یا ان کے ہمدرد حضرات تک ہی اکتفا کر کے نتائج اخذ کر لیے جاتے ہیں اور پھر پریس کانفرنسز کر کے داد وصول کی جاتی ہے۔ اس موقع پر محترمہ کشور ناہید کا ایک کالم یاد آ گیا جس میں انہوں نے شرمین عبید چنائے کی فلم سیونگ فیس کے بارے میں بتایا کہ جب انہوں اس فلم کے متعلق ہونے والی کانفرنس کی ویڈیو امریکن ایمبیسی والوں سے مانگی تو انہوں نے انکار کر دیا، جس کا مطلب وہاں کوئی ضرور ڈنڈی ماری گئی تھی، جس کا پول کھل جانا تھا، چنانچہ انہوں نے بہتری اسی میں جانی کہ کشور صاحبہ کو وہ ویڈیو نہ دکھائی جائے۔

اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا واقعی ساری عورتیں مظلوم اور سارے مرد ظالم ہیں؟ اس کے لئے میں ایک حقیقی واقعہ فرضی ناموں کے ساتھ پیش خدمت کرتا ہوں، آگے قاری کے فہم پر بات چھوڑتا ہوں کہ وہ کیا سوچتا ہے۔

سجاد احمد ( فرضی نام) نام کا ایک شخص روشن پور ( فرضی نام) کا رہائشی تھا، جس کی ہمشیرہ اس کے پھوپھی زاد بھائی کی اہلیہ تھی۔ یہ نوجوان اپنے گاؤں سے 30 کلومیٹر دور ایک شہر میں کاروبار کرتا تھا۔ والد کی وفات کے بعد ، سجاد کی والدہ نے اس کی شادی کا فیصلہ کیا اور گھر والوں کی رضامندی سے اسی پھوپھی کی بیٹی سے اس کی شادی ہو گئی اور یوں وٹہ سٹہ کا رشتہ قائم ہو گیا۔ پاکستان میں آئے روز گرانی اور کاروبار میں گراوٹ نے سجاد کو مجبور کیا کہ وہ گاؤں کو چھوڑ کر اسی شہر میں جا بسے جہاں اس کا کاروبار تھا۔

مگر اس موقع پر اس کی اہلیہ نے وہاں جانے سے انکار کر دیا۔ تاہم گھر والوں کے سمجھانے پر وہ چلی تو گئی، مگر اس نے وہاں جاکر سجاد اور اس کے خاندان کو تارے دکھا دیے۔ اس عورت کا یہ معمول بن گیا کہ ہر دس دن کے بعد خاوند سے کہہ کر میکے آجاتی اور آ کر روٹھ جاتی اور پھر ماننے منانے میں تین سے چار ماہ صرف ہو جاتے۔ اس جانے اور آنے کی آنکھ مچولی میں سجاد اندر سے ٹوٹ کر رہ گیا۔ اب وہ کاروبار کی طرف دھیان دے یا عائلی زندگی کے بکھیڑوں کو سلجھائے۔

انہی جھگڑوں میں ان کے ہاں ایک بچے کی بھی ولادت ہو گئی۔ سجاد نے سوچا کہ شاید بچہ ہو جانے کے بعد اب سکون نصیب ہو گا مگر اس عورت نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اب اس شہر میں نہیں رہے گی بلکہ اپنی ماں کے پاس جانا چاہتی ہے۔ سجاد کے پاؤں میں ہمشیرہ کی شادی کی جو بیڑی تھی، وہ اس سے مجبور تھا لہذا وہ بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا تھا۔ اس معاملے پر برادری کے بڑے اکٹھے ہوئے اور اس عورت سے رائے پوچھی گئی، جس پر اس نے کہا کہ میرا شوہر مجھے نان نفقہ دیتا رہے اور میں ماں کے گھر میں ہی رہوں گی۔

اس بات پر سب کا اتفاق ہو گیا اور وہ عورت چلی گئی۔ دو سال کے بعد سجاد کی والدہ جو مریض تھیں، انہوں نے دیکھا کہ اب میرے لئے بیٹے کے کام کاج کرنا ممکن نہیں ہے سو اس کی شادی کروا دینی چاہیے۔ اس بات کو لے کر جب اس خاتون کے ماموں صاحبان کے ساتھ تذکرہ کیا گیا تو انہوں نے بھی صاد کی اور اس کی بیوی سے اجازت نامہ دینے کو کہا۔ اس بات کو لے کر جب موصوفہ کے آگے عرضی دھری گئی تو پہلے کمال بے اعتنائی سے انہوں نے رد کردی، مگر کافی رد و قدح کے بعد آمادہ ہو گئیں۔

اب موصوفہ جب مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئیں تو مجسٹریٹ کے استفسار پر صاف مکر گئیں اور یوں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اب سجاد کا ذرا سوچیے جو نہ تو دوسری شادی کر سکتا ہے، نہ اس کی پہلی بیوی اس کے ساتھ رہنے کے لئے آمادہ ہے۔ اوپر سے ماں بستر مرگ پر ہے، اور سجاد کے کام کاج کرنے سے قاصر ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قصے میں بھی عورت ہی مظلوم ہے یا مرد؟ ہو سکتا ہے کوئی کہے کہ یہ صرف ایک کیس ہے، تو حضور دوسری طرف بھی سارا معاشرہ شاہنواز امیر جیسا نہیں ہے۔ سو کسی بھی موضوع پر فتوی جڑنے سے پہلے دونوں طرف کی رائے سن کر فیصلہ کیا جائے تو پھر ہی انسان کسی صحیح نتیجے پر پہنچ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments