متنازع فرانسیسی لکھاری میشیل ہوئل بیک اور ان کی کچھ نظمیں


““

شاعری میں کردار ہی نہیں الفاظ بھی بسیرا کرتے ہیں۔

شاعری سے متعلق اس دل چسپ بیان کے خالق میشیل ہوئل بیک جن کا نام سال رواں میں ادب کے نوبل پرائز کے لیے پسندیدہ لکھاریوں کی فہرست میں بھی میں گردش کرتا رہا ہے 1958 میں فرانس کے جزیرہ ری یونین میں میشیل تھامس کے نام سے پیدا ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ عالمی ادبی منظر نامے میں اپنا ایک متنازع مگر اہم مقام بنا چکے ہیں۔

ویسے تو انہوں نے مضامین بھی لکھے اور شاعری بھی کی بلکہ کچھ سال قبل ایک فلم میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے مگر ان کی پہچان بنانے میں ان کے ناولوں نے زیادہ قابل ذکر کردار ادا کیا۔ ان کے انداز تحریر کو دیکھتے ہوئے بعض ناقدین انھیں دور حاضر کے موثر ترین روایت شکن کہانی کاروں میں شمار کرتے ہیں۔

ان کے ناول اتنے مقبول ہوئے کہ ان کی شہرت فرانس کی حدوں کو عبور کر گئی۔ وہ ”پلیٹ فارم“ ہو یا نقشہ اور خطہ ”یا پھر“ اطاعت ”ان کا ہر ناول کسی نہ کسی انداز میں متنازع رہا تاہم ان کی حقیقی“ شہرت ”اطاعت“ سے ہوئی جس میں انہوں نے فرانس پر انتہا پسند مسلمانوں کے قبضے کی فرضی تصویر کشی کی ہے۔

میشیل ہوئل بیک کی شاعری بھی بیانیے کے انہی خطوط پر سفر کرتی دکھائی دیتی ہے جس کا مطالعہ ہمارے سامنے آج کے ایک انقلابی لکھاری کا ایک مکمل خاکہ ابھارتا ہے۔ وہ آزاد اور پابند نظمیں بھی لکھتے ہیں اور نثری بھی۔ اور ان کے موضوعات متنوع ہوتے ہیں۔

ان کی فرانسیسی نظموں کے چار مجموعوں کی منتخب نظمیں سن دو ہزار سترہ میں گیون باوڈ کے کیے انگریزی ترجمے کے ساتھ ”غیر مفاہمتی نظمیں“ کے نام سے ایک جلد میں شائع ہوئی تھیں۔ ان کے ناولوں سے ملتے جلتے موضوعات کی حامل ان کی یہ نظمیں انفرادی تجربے اور آفاقی جذبوں کی گہرائیوں کا سفر ہے جو اپنے دامن میں محبت، نا امیدی، بربادی، لگن اور حتمی نجات جیسے موضوعات سمیٹے ہوئے ہے

وہ سپر مارکیٹوں، سفر کے جدید وسائل، لاتعلق مناظر اور تنہا راتوں کے جال میں پھنسی دنیا میں بھی کہیں تو تقدیس کے نشانات ڈھونڈنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں تو کہیں وہ انسان کے ناقابل تسخیر زوال کو ابتری اور انتشار سے تعبیر کرتے ہیں۔

ان کی نظموں کی ہیئت اور ردم میں جدید اور قدیم حسن دونوں جھلکتے ہیں۔ زبان روزمرہ کی ترو تازگی سے معمور ہے۔ ان خوبیوں کے سبب یہ نظمیں بودلئر کی روایت کی امین قرار پاتی ہیں اور نئی شاعری کے لیے سمت نمائی کا فریضہ ادا کرتی ہیں۔ ناقدین ادب ہوئل بیک کو عہد رواں کے ان صاحب ادراک لکھاریوں میں شمار کرتے ہیں جو ہمارے دور کے اس گمبھیر تناؤ سے ہم کلام ہیں جس کی مختلف صورتوں سے مصالحت اور موافقت ممکن نہیں۔ اس تناظر میں ان کی شاعری کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

انگریزی میں مترجمہ پانچ نظمیں جو مجھے دستیاب ہو سکیں انھیں اردو قالب میں ڈھال کر آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ نظمیں شاعر کے فن کی نمائندہ ہیں اس کا میں دعویٰ نہیں کر سکتا کیونکہ دیگر تخلیقی کاموں کی طرح شاعری کے حوالے سے بھی پسند و ناپسند کا تعین تو پڑھنے والے کا معیار ذوق ہی کرتا ہے

……………………………
دراڑ
۔
جمود میں، ایک ناقابل تسخیر سکوت
وہاں ہوں میں۔ میں تنہا ہوں اور ہلتا ہوں جب وہ مجھے مارتے ہیں
میں ایک لال اور لہو رستی شے کو بچانے کی کوشش میں ہوں۔
دنیا بے کم و کاست ایک بد لحاظ انتشار ہے۔
آس پاس اور بھی لوگ ہیں، میں ان کی سانسیں سن سکتا ہوں
اور جنگلے پر آ کر اس کے میکانکی قدم باہم مل جاتے ہیں
تاہم میں نے محسوس کیا ہے غم اور غصہ
میرے قریب، بہت قریب، ایک اندھا آہ بھرتا ہے۔
میں کب سے بچا ہوا ہوں۔ مضحکہ خیز ہے نا یہ بات۔
مجھے اچھی طرح یاد ہیں امید کے زمانے
حتٰی کہ مجھے اپنا ابتدائی بچپن بھی یاد ہے
لیکن اب لگتا ہے کہ یہ میرا آخری کردار ہے۔
تمھیں معلوم ہے؟ میں نے پہلے لمحے ہی میں اسے صاف دیکھ لیا تھا
سردی تھی مگر مجھے خوف سے پسینہ آ رہا تھا
پل ٹوٹ چکا تھا، یہ سات بجے کا وقت ہو گا
ایک دراڑ تھی بس، خاموش اور گہری۔
۔ ۔
نا وجود کی زندگی
۔ ۔
میں پیدا ہوتے ہی خود کو بوڑھا محسوس کرنے لگا تھا
دوسروں نے جنگ کی، آرزو کی اور آہیں بھریں
میں نے اپنے اندر کچھ محسوس نہیں کیا ایک مبہم سی خواہش کے سوا
میرا بچپن تو کوئی تھا ہی نہیں
گہرے جنگلوں میں کہیں دور، کائی کے قالین پر
مکروہ درختوں کے تنے اپنے پتوں کی بقا میں کوشاں
ان کے چاروں طرف سوگ کی فضا ہے۔
پھپھوندی اس کی کالی اور گندی جلد پر پنپتی ہے۔
میں نے کبھی خدمت نہیں کی۔ نہ کسی شے کی، نہ کسی انسان کی
افسوس، تم بری طرح جیے حال آں کہ سب تمھارے لیے ہی تو ہے
ذرا سی حرکت بھی ایک مسئلہ ہے
تم دکھی بھی محسوس کرتے ہو مگر اہم بھی
تم مبہم سے انداز میں حرکت کرتے ہو ایک چھوٹے سے کیڑے کی طرح۔
تم اب بس نہ ہونے کے برابر ہو پھر بھی کس بری حالت میں ہو
تم اپنے ساتھ ایک طرح کا پاتال لیے پھرتے ہو
رزیل، نقل پذیر اور کچھ مضحکہ خیز سا۔
اب تم موت کو کوئی مہلک شے نہیں سمجھتے
تم وقتاً فوقتاً ہنس بھی دیتے ہو؛ خاص کر آغاز پر
تم بے سود کوشش کرتے ہو حقارت اپنانے کی
پھر تم کچھ بھی قبول کرنے لگتے ہو، باقی کام موت کر دیتی ہے۔


۔
الوداع
۔ ۔
کہیں نہ کہیں ہمیشہ ایک شہر ہوتا ہے جس میں شاعروں کے آثار ہوتے ہیں
جس کی دیواروں کے درمیان ہی وہ اپنی منزلیں عبور کرتے رہتے ہیں
پانی، ہر طرف پانی، یادوں کی گنگناہٹ
لوگوں کے نام، شہروں کے نام، فراموشی۔
اور پھر سے وہی پرانی کہانی شروع ہوجاتی ہے
مٹے ہوئے آفاق اور مالش کے کمرے
فرضی تنہائی، باعزت ماحول
اور کچھ لوگ جو وجود رکھتے ہیں ہیں اور رقص کرتے ہیں۔
وہ کوئی اور ہی مخلوق ہے، وہ کسی اور ہی نسل کے لوگ ہیں
ہم کسی ظالمانہ رقص کی شان میں رقص آغاز کرتے ہیں
اور اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر جنت کے مالک بن بیٹھتے ہیں
اور پھر وہاں جگہ پا لینے کی درخواستوں کا لامتناہی سلسلہ۔
ادھر وقت، بوڑھا وقت اپنے انتقام کے منصوبے بناتا ہوا
غیر یقینی افواہوں کی طرح گزرتی زندگی
ہوا کی سرسراہٹ، پانی کی ٹپ ٹپ
اور ایک زردی مائل کمرے میں پیش قدمی کرتی ہوئی موت۔
۔
میرا جسم
۔ ۔
میرا جسم ایک بوری کی طرح ہے جسے سرخ دھاگے سے سیا گیا ہے
کمرا تاریک ہے اور میری آنکھوں میں مریل سی چمک ہے
میں اٹھنے سے ڈرتا ہوں، میں محسوس کرتا ہوں اپنے اندر
کچھ نرم سے، کچھ برا سا، حرکت کرتا ہوا
میں برسوں نفرت کی ہے گوشت کے اس لوتھڑے سے
جس نے میں ہڈیوں کو ڈھانپ رکھا ہے، چربیلی بافت سے
درد میں سریع الحس، لجلجا، مسام دار
مجھے غصہ آتا ہے، میرے خدایا، کہ تم نے مجھے یہ جسم دیا
دوست نظروں سے اوجھل ہوتے جاتے ہیں، فرار ہوتے جاتے ہیں تیزی سے
سال پر سال گزرتے جاتے ہیں، ہاتھوں سے پھسلتے جاتے ہیں، مگر کوئی قیامت نہیں آتی
میں جینا نہیں چاہتا اور مرنے سے مجھے ڈر لگتا ہے۔
۔ ۔
ایسا بھی نہیں۔
۔ ۔

ایسا بھی نہیں۔ میں اپنے جسم کو اچھی حالت میں رکھنے کی کوشش میں ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ مر چکا ہو، مجھے معلوم نہیں۔ کچھ ایسا ضرور ہے جو کرنا چاہیے اور وہ میں نہیں کرتا۔ اس سال میری عمر بہت تیزی سے بڑھی۔ آٹھ ہزار سگریٹ پھونک چکا۔ سر اکثر دکھتا ہے، بہت دکھتا ہے۔ پھر بھی جینے کا کوئی نہ کوئی طریقہ تو ہونا ہی چاہیے ؛ کچھ ایسا جو کتابوں میں نہیں۔ یہاں کتنے ہی انسان ہیں، کردار ہیں مگر میں ایک برس سے دوسرے تک پہنچتے ہوئے بمشکل انھیں پہچانتا ہوں۔

میں انسان کی عزت نہیں کرتا؛ ہاں اس پر رشک کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments