مغرب کا توسیع پسندانہ نظام اور سازشیں


روسی صدر ولادیمیر پوتین نے یوکرین کے بعض علاقوں کے روس میں انضمام کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ یہ بھی واضح ہو گیا کہ اس وقت دنیا میں جاری اکثر جنگوں کا مقصد اپنے جغرافیائی حدود میں توسیع کرنا ہے۔ توسیع پسندی کی ضد نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کا فروغ عالمی سطح پر اپنی چودھراہٹ کو منوانے اور توسیع پسندانہ فکر کو تقویت پہنچانے کے لئے ہوا تھا۔ آج دنیا کا ہر ملک اپنے حدود میں توسیع کا خواہاں ہے۔

خاص طور پر استعماری طاقتیں اپنی توسیع پسندانہ خوابوں کی تعبیر کے لئے دنیا کو جہنم بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ روس کی طرح یوکرین کے علاقوں کی طرز پر کسی دوسرے ملک کے علاقے کو اپنے ملک کے حدود میں ضم کر کے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جائے بلکہ موجودہ عہد سرحدی حدود سے آزاد توسیع پسندانہ نظام کا عہد ہے۔ مغربی طاقتوں نے جس طرح شام، افغانستان، عراق، یمن اور فلسطین میں خوں ریزی کی اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے عوام کو جنگ کی بھٹی میں دھکیل دیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر بھی اپنے نظام کے ماتحت کالونیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔ مذکورہ ممالک میں مغربی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے اس لئے ان ملکوں میں استعماری کالونی قائم نہیں ہو سکی، البتہ ان میں سے بعض ممالک میں نیٹو افواج کی موجودگی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مغرب سرحدوں سے بالاتر توسیع پسندی کا قائل ہے۔

مغرب نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مشرق وسطیٰ کو جنگ کا اکھاڑہ بنا دیا۔ عالمی استعماری طاقتوں کے خلاف جس طرح مشرق وسطیٰ میں مزاحمتی جدوجہد جاری ہے اس کی نظیر دنیا کے کسی علاقے میں نہیں ملتی۔ افغانستان کے عوام کو دہشت گردی کے گرداب میں چھوڑ کر امریکہ فرار کر گیا اور آج پورا ملک داخلی خلفشار کا شکار ہے۔ آئے دن خودکش حملوں کا ہونا یہ بتلا رہا ہے کہ طالبان حکومت کے لئے نا اہل ہیں۔ ایک انتہا پسند تنظیم کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور سونپنے کا فیصلہ بغیر کسی حکمت عملی کے نہیں تھا۔

امریکہ افغانستان میں رہتے ہوئے اپنے اہداف کے حصول کے لئے معذور تھا، اس لئے اس نے بعض ممالک کی ایجنسیوں کے ساتھ ساز باز کر کے طالبان کے خونی ہاتھوں میں افغانستان کا نظام سونپ دیا۔ امید یہ کی جا رہی تھی کہ امریکہ طالبان کے ذریعہ ایران اور دیگر سرحدی ممالک کو رام کرنے کی کوشش کرے گا مگر اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ طالبان کسی کے وفادار نہیں ہیں، تاریخ اس کی گواہ ہے۔

یمن کے حالات بھی افغانستان سے الگ نہیں ہیں۔ اپنے وفادار کو اقتدار سونپنے کی ہوس میں سعودی عرب نے امریکہ کی حمایت سے یمن کو تباہ و برباد کر دیا۔ آج یمنی عوام بھکمری اور وبائی امراض کی زد میں ہیں۔ لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ سر چھپانے کے لئے چھت نہیں ہے۔ اسی طرح شام میں خونی کھیل کھیلا گیا۔ بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے شامی عوام کے سروں پر جنگ تھوپ دی گئی۔ آج حالات یہ ہیں کہ شام میں عجب افراتفری کا عالم ہے۔

کچھ ماہ قبل جب میں شام کے سفر پر تھا، اس وقت میں نے ملاحظہ کیا کہ شامی عوام کس درجہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بازار بند پڑے ہیں۔ مہنگائی اور قحط عروج پر ہیں۔ جا بجا سڑکوں پر بھیک مانگنے والوں کی فوج امڈ پڑتی ہے۔ لوٹ مار عام بات ہے۔ پولیس کا محکمہ آج بھی عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ ان حالات کی ذمہ داری استعماری طاقتوں پر عائد ہوتی ہے مگر ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ ان کا مرہون منت ہے اس لئے آج تک استعماری نظام کے خلاف کوئی موثر قرارداد پاس نہیں ہو سکی۔ عراق کی موجودہ صورتحال شام اور یمن سے بہت مختلف نہیں ہے۔ البتہ یمن اور شام کے مقابلے میں عراق میں حالت قدرے پرسکون ہیں۔ اس کے باوجود استعماری آلۂ کار آئے دن عراق میں بدامنی کے فروغ کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔

فلسطین کی موجودہ صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ استعماری میڈیا کے ہزار ہابیلوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود فلسطینی عوام کی مظلومیت چھپ نہیں سکی۔ اسرائیل فلسطین کے وجود کا منکر ہے اور اس کے اکثر علاقے پر قابض ہو چکا ہے۔ مغربی کنارہ پر اسرائیلی مظالم کی داستان انتہائی دلخراش ہے مگر اس داستان کو سننے والا کوئی نہیں۔ ”صدی ڈیل“ کے ذریعہ یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کر لیا گیا تھا جبکہ یروشلم پر مسلمانوں کا پہلا حق ہے، دنیا اس حقیقت کی معترف ہے۔

”صدی ڈیل“ میں اسرائیل اور امریکہ کے منصوبوں کو بعض عرب ممالک نے بھی تقویت پہنچائی تھی، جس کے شواہد منصہ شہود پر ہیں۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطین اس کے زیر اثر رہے۔ اس کے لئے ”صدی ڈیل“ کا نفاذ کیا گیا تاکہ فلسطینی عوام سے شہریت کے بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں۔ اس معاہدہ کے تحت فلسطینی عوام کو میونسپلٹی سے لے کر شہری دفاع کے لئے بھی اسرائیل سے مدد طلب کرنی ہوگی اور اس کا معاوضہ ادا کرنا ہو گا۔ افسوس یہ ہے کہ عالم اسلام کے سربراہ ممالک اس معاہدہ میں شامل تھے۔

حماس کے ساتھ اسرائیل کی گیارہ روزہ جنگ میں بھی عرب ممالک کا کردار افسوس ناک رہا تھا۔ البتہ حماس نے اس جنگ میں یہ ثابت کر دیا کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے جیسا کہ اس سے قبل لبنان میں اسرائیل کو پے درپے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے باوجود اسرائیل اپنے ہم نوا ممالک کے ساتھ مل کر فلسطین کی زمین پر مسلسل اپنے قبضے کو فروغ دے رہا ہے اور فلسطینی عوام کو اپنی جارحیت کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ عالمی استعماری طاقتیں مسلمان ممالک کو اپنے ماتحت دیکھنا چاہتی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس منصوبے کو بہت حد تک پایۂ تکمیل تک پہنچایا تھا لیکن عراق اور افغانستان جیسے ملکوں میں اسے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہی صورتحال دیگر جنگ زدہ ممالک میں دیکھی گئی۔ مسلمان ممالک کو اپنے زیر اثر رکھنے کا ایک مقصد ایران جیسی طاقت کو رام کرنا ہے۔ لبنان، شام، عراق، افغانستان، یمن اور فلسطین پر تسلط قائم کرنے کی تگ و دو اسی لئے تھی تاکہ ایران کو چوطرفہ گھیر لیا جائے لیکن ایرانی جدوجہد کے آگے ہر ملک میں استعماری طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑی۔

ایران میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد جس طرح استعماری آلۂ کاروں نے تشدد کو ہوا دی، اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ دشمن اسلامی نظام سے کتنا خوف زدہ ہے۔ مظاہرین نے پولیس اور فوج کے ساتھ زور آزمائی کی۔ سرکاری و ذاتی املاک کو آگ لگادی۔ یہاں تک کہ اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی آگ کے حوالے کر دیا۔ خواتین نے سرکے بال کاٹ کر آزادی اور خودمختاری کا مطالبہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک آزاد اور خودمختار ملک میں آزادی اور خودمختاری کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟

ظاہر ہے ان مطالبات کے پس پردہ دیگر عوامل کارفرما ہیں جن کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ اس سے پہلے بھی ایران میں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف پر تشدد احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ احتجاج کرنا عوام کا جمہوری حق ہے لیکن جب عوام کے درمیان دشمن کے آلۂ کار نفوذ پا جاتے ہیں تو جمہوری حق بھی جمہوریت کے لئے خطرہ میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں جس طرح تشدد بھڑکایا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ استعماری طاقتیں ایرانی نظام سے کس قدر خوف زدہ ہیں۔

یہ طاقتیں نہیں چاہتی ہیں کہ ایران دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرے۔ سعودی عرب نے جب جب ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، استعماری طاقتوں نے اس دوستی میں نفرت کا زہر گھولنے کی کوشش کی۔ کیونکہ استعمار بخوبی جانتا ہے کہ اسلامی ممالک کا اتحاد اس کے وجود کے لئے خطرہ بن جائے گا۔ آج روس یوکرین کے بعض علاقوں کے انضمام پر خوشیاں منا رہا ہے۔ ایسے حالات میں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آیا اسلامی ممالک کا فکری انضمام ممکن ہے؟

اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے اتحاد سے خوف زدہ رہتی ہیں۔ اس لئے اس اتحاد کو روکنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر تمام اسلامی ممالک خاص طور پر ترکی، سعودی عرب اس کے حلیف ممالک اور ایران باہم متحد ہوجائیں تو استعماری طاقتوں کا وجود خطرے میں نظر آئے گا۔ اس طرح توسیع پسندانہ نظام کی جڑیں اکھڑ سکتی ہیں، لیکن اس راہ میں عملی پیش رفت کی ضرورت ہے، فقط وحدت اسلامی کے زبانی نعروں سے کام نہیں بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments