پنجاب میں مبینہ پولیس مقابلے: ’پولیس انکاؤنٹر ہمیشہ آخری آپشن ہوتا تھا لیکن اب پہلی آپشن بن چکا ہے‘

شاہد اسلم - صحافی، لاہور


تصویر
16 ستمبر کی رات تقریباً تین بجے کے لگ بھگ پنجاب کے ضلع وہاڑی کے گاؤں ’چک ڈبلیو بی 21‘ کی رہائشی عابدہ پروین کی آنکھ اُس وقت کُھلی جب کوئی زور زور سے اُن کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔

عابدہ ہڑبڑا کر اٹھیں اور اُن کے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ دروازے کے باہر اُن کا بھتیجا احمد موجود تھا۔

’علی کہاں ہے، کیا وہ گھر پر ہے یا نہیں۔‘ احمد نے گھر میں داخل ہوتے ہی عابدہ سے سوال کیا اور مشتاق نظروں سے کمروں کا جائزہ لینے لگا۔

علی کی والدہ یعنی عابدہ پروین نے پریشانی کے عالم میں اپنے بھتیجے سے پوچھا کہ ’آخر ہوا کیا ہے، کیوں پوچھ رہے ہو علی کا؟‘

سوال مکمل ہونے کی دیر تھی کہ احمد نے بتایا ’گولیاں چلی ہیں اور ایک شخص زخمی بھی ہوا ہے۔ اور پاس ہی ایک ہونڈا 125 موٹر سائیکل بھی پڑی ملی ہے۔‘

بھتیجے کا یہ بتانا تھا کہ عابدہ پروین کے پیروں تلے زمین نکل گئی کیونکہ اُسی رات تقریباً 11 بجے ان کا بڑا بیٹا علی اپنے موٹر سائیکل پر دوستوں سے ملنے ساتھ والے گاؤں گیا تھا۔

عابدہ پروین نے فورا جائے نماز بچھائی اور اپنے بیٹے علی کی سلامتی کے لیے دعائیں کرنے لگیں مگر تھوڑی ہی دیر میں گھر یہ اطلاع پہنچی کہ فائرنگ میں زخمی ہونے والا شخص علی ہی تھا جو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں زخمی ہو چکا تھا اور پولیس اسے لے کر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال وہاڑی پہنچ چکی تھی۔

عابدہ پروین نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ چیخ و پکار کرتیں اپنے بھتیجے کے ہمراہ ہپستال پہنچیں۔ اُس وقت رات کے تقریباً 4 بج رہے تھے۔

نو برس قبل عابدہ کے شوہر امریکہ چلے گئے تھے اور ان کی غیرموجودگی میں ان کا بڑا بیٹا علی ہی ان کا سہارا تھا جو چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم کے علاوہ اپنی زمین پر کاشتکاری بھی کرتا تھا۔

علی کا ڈیرہ اور زمینیں اُن کے گاؤں سے 500 میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ علی خود بھی شادی شدہ تھے اور ان کا نو ماہ کا بیٹا بھی ہے۔

علی لیاقت

علی لیاقت

عابدہ پروین نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ ہسپتال پہنچیں تو پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہلے ہی موجود تھی اور زخمی بیٹے کو دیکھنا تو دور کی بات، انھیں ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہونے کی ہی اجازت نہیں دی گئی۔

عابدہ پروین کے مطابق کچھ دیر بعد پولیس اہلکار بیڈ شیٹ میں لپٹی ان کے بیٹے کی لاش سٹریچر پر ڈال کر ایمرجنسی وارڈ سے باہر نکلے اور اسے گاڑی میں ڈال کر تیزی سے وہاں سے روانہ ہو گئے۔ عابدہ کے مطابق ان کے بیٹے کا پوسٹ مارٹم بھی ان کی اجازت کے بغیر کروا لیا گیا۔

یہ کارروائی مکمل ہونے کے بعد پولیس نے علی پر پولیس پارٹی پر فائرنگ کرنے کی ایف آئی آر درج کر دی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ رات کے وقت گشت پر تھے اور جب چک نمبر 23/WB کے قریب پہنچے تو چار مسلح ملزمان نے اُن پر فائرنگ کر دی ۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق فائرنگ سے بچنے کے لیے پولیس اہلکار اپنی سرکاری گاڑی کے پیچھے چھپ گئے جبکہ چاروں مسلح افراد فائرنگ کرتے ہوئے کھیتوں میں فرار ہو گئے۔ جب پولیس اہلکاروں نے اُن کا پیچھا کیا تو علی نامی ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے وہاں زخمی پڑا ہوا ملا۔

پولیس نے علی کے قبضے سے بغیر لائسنس کا ایک پستول، اس کی موٹر سائیکل اور تین گولیاں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔

عابدہ کہتی ہیں کہ ’اگر میرے بیٹے کو پولیس والے گولیاں مار کر یہاں لے آئے تھے تو ہمیں دے دیتے ہم خود علاج کروا لیتے یا ہمیں بتاتے کہ اسے خون کی ضرورت ہے ہم کوئی بندوبست تو کرتے لیکن ہمیں تو اس تک رسائی ہی نہیں دی گئی یہاں تک کہ اس کی تڑپ تڑپ کر جان نکل گئی۔‘

والدہ علی لیاقت عابدہ پروین

عابدہ پروین

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینیئر پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا وہ منچن آباد پولیس تھانہ کی حدود تھی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کس بنا پر یہ کاروائی صدر پولیس تھانہ کے اہلکاروں نے کی۔

عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی گینگسٹر یا جرائم پیشہ شخص کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد اس کی لاش کو لواحقین کے حوالے کرنا بھی ایک پیچیدہ عمل بن جاتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسی لاش کو وصول نہیں کرنا چاہتا۔

مگر جیسے ہی علی کی ہلاکت کی خبر گاؤں پہنچی تو ہسپتال کے باہر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے تھے اور پولیس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔

بی بی سی کی ٹیم نے اس جگہ کا بھی دورہ کیا جہاں 16 ستمبر کی شب کو یہ مبینہ پولیس مقابلہ ہوا تھا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق علی کی موت زیادہ خون بہہ جانے سے ہوئی کیونکہ انھیں مبینہ پولیس مقابلے کے لگ بھگ ایک گھنٹے بعد ہسپتال طبی امداد کے لیے پہنچایا گیا۔

اگلے روز جب ورثا کو علی کی لاش ملی تو علاقے میں کہرام مچ گیا۔ آس پاس کے دیہات سے بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس کے خلاف احتجاج ہوا۔

پولیس حکام کی جانب سے اس معاملے کی ابتدائی تفتیش کے بعد ڈی پی او وہاڑی رانا شاہد پرویز کو فوری طور پر تبدیل کر دیا گیا جبکہ ڈی ایس پی صدر وہاڑی سعادت علی کو معطل کر دیا گیا۔ دوسری طرف پولیس پارٹی کے تمام چھ رکان سمیت کُل 10 افراد پر قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے سرکاری کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔

عابدہ پروین کی کہانی صرف یہاں تک محدود نہیں۔ فقط دو سال قبل اُن کے 23 سالہ چھوٹے بیٹے اویس (علی کا چھوٹا بھائی) کو بھی گولیاں مار کر زخمی کر دیا گیا تھا جس سے وہ ساری زندگی کے لیے معذور ہو گئے تھے۔ علی لیاقت کا تیسرا بھائی موسیٰ صرف نو سال کا ہے جبکہ اس کے علاوہ ان کی چار بہنیں ہیں۔

عابدہ پروین اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ پیش آئے ان واقعات کا الزام ساتھ والے گاؤں کے بااثر افراد پر عائد کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اویس (چھوٹے بیٹے) کو گولیاں مار کر صرف اس لیے ساری زندگی کے لیے معذور کر دیا گیا کیونکہ وہ پڑھا لکھا تھا اور بااثر لوگوں کو دیہات میں منشیات کا کاروبار کرنے سے منع کرتا تھا۔‘

علی لیاقت کے چھوٹے بھائی

علی لیاقت

عابد پروین نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے اُن کے مخالفین سے پیسے اور دیگر مراعات لے کر اُن کے بیٹے کو ناحق قتل کیا۔

عابدہ پروین کے مطابق انھیں پولیس تفتیش سے زیادہ امید نہیں۔ ’مجھے انصاف چاہیے کیونکہ پولیس نے مخالفوں سے مل کر میرا سارا گھر اُجاڑ دیا ہے۔ یہ ظلم کی انتہا ہے۔‘

جنوبی پنجاب پولیس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر احسان صادق نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی انکوائری کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ الزامات ثابت ہوگئے کہ پولیس اہلکاروں نے مخالفین سے پیسے لے کر علی کو ناحق مارا ہے اور بعد میں اسے پولیس مقابلے کا رنگ دیا تو تمام ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت ایکشن ہو گا۔

’یہ آئی جی پنجاب کی پالیسی ہے کہ ماورائے عدالت قتل کی کوئی گنجائش نہیں اور جو بھی پولیس اہلکار اس میں ملوث پایا گیا اس سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔‘

ایک اور سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ علی کی موت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس کے دوران صرف صوبائی دارالحکومت لاہور ہی میں ایک درجن سے زائد مبینہ پولیس مقابلے رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں ایک درجن کے قریب ملزمان کو ہلاک یا زخمی کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

فائل فوٹو

فائل فوٹو

’میرے شوہر کی ماہانہ کمائی ڈیڑھ لاکھ تھی، اسے 1000 کی ڈکیتی کا ملزم قرار دے کر مار دیا‘

اپنی شادی کی تیسری سالگرہ سے محض دو روز قبل یعنی 25 مارچ 2022 کو لاہور کی رہائشی رقیہ کو اُن کی نابینا ساس نے گھبرائی ہوئی آواز میں یہ اطلاع دی کہ اُن کے شوہر کاشف عمران کو پولیس اٹھا کر لے گئی ہے۔

پریشانی کے عالم میں رقیہ اور اُن کی ساس کاشف عمران کی تلاش میں کبھی ایک تھانے تو کبھی دوسرے تھانے میں بھاگتے رہے، لیکن کاشف کا کچھ پتا نہ چلا۔

تھانوں کے چکر لگاتے لگاتے یہ دونوں خواتین سی آئی اے پولیس سول لائن غازی آباد پہنچیں جہاں دیکھا کہ کاشف عمران دیگر ملزمان کے ساتھ قید میں تھے۔ بار بار درخواست کے باوجود پولیس نے زیر حراست ملزم کاشف کو رہا نہ کیا تو رقیہ اور اُن کی ساس یہ سوچ کر گھر واپس آ گئیں کہ اگلے روز علی الصبح وہ رہائی کے لیے اقدامات کریں گے۔

مگر اگلے روز یعنی 26 مارچ کی صبح رقیہ کو اطلاع دی گئی کہ اُن کے شوہر اُن کے اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ میں اُس وقت مارے گئے جب پولیس انھیں مال مسروقہ کی نشاندہی کے لیے تھانہ باٹا پور کے علاقے میں لے جا رہی تھی۔

پولیس رپورٹ کے مطابق اس کارروائی میں کاشف عمران اور اُن کا ساتھی احمد علی بٹ یعنی دونوں ملزمان ایک دوسرے کی ہی فائرنگ میں مارے گئے۔ اگرچہ انھیں پولیس تحویل میں لے جایا جا رہا تھا مگر پولیس نے ان کے قبضے سے تیس بور پستول اور ایک ہینڈ گرنیڈ بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

عابد حسین ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ عابد باکسر کیسے بنا؟

انڈر ورلڈ اور کرائے کے قاتل: لاہور میں جرم کی دنیا کیسے چلتی ہے؟

گردن توڑ کر قتل کرنے والا لاہور کا مالشیا ’سیریل کِلر‘ کیسے بنا؟

گن نمبر 6: ایک مہلک پستول کی کہانی

رقیہ بی بی یہ سوال پوچھتی ہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ پولیس تحویل میں جانے والا شخص فائرنگ میں مارا گیا؟

پولیس ریکارڈ کے مطابق کاشف عمران تھانہ شاہدہ ٹاؤن میں ڈکیٹی کے ایک کیس میں مطلوب تھے۔ اور اس ڈکیتی کے دوران تین نامعلوم ملزمان نے ایک رکشہ ڈرائیو کو روک کر اس سے ایک ہزار روپے چھین لیے اور اس دوران مزاحمت پر رکشہ ڈرائیور کو گولی مار کر زخمی بھی کیا گیا۔

رقیہ بی بی نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے دو چھوٹے بچے ہیں جبکہ تیسرا بچہ اُن کے پیٹ میں پل رہا ہے۔ ’میری ساس نابینا ہیں اور سسر پہلے ہی فوت ہو چکے ہیں جبکہ پولیس نے میرے خاوند کو 1000 روپے کے ڈکیٹی کے مقدمے میں قتل کر دیا ہے۔‘

رقیہ کے مطابق ان کے خاوند گذشتہ کئی سال سے کیبل اور نیٹ کا کام کرتے تھے اور انھیں ماہانہ لاکھ، ڈیڑھ لاکھ آمدن ہو جاتی تھی۔ ’وہ کیونکر ایک 1000 روپے کی ڈکیٹی کی واردات میں ملوث ہوں گے؟‘ رقیہ بی بی نے سوال کیا۔

رقیہ کے مطابق زندگی میں کبھی پولیس اُن کے گھر نہیں آئی اور نہ ہی اُن کے خاوند پر کوئی کیس تھا۔ تاہم اس کیس سے منسلک پولیس اہلکار انوار الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کاشف عمران پولیس کو کئی سنگین کیسیز جس میں قتل، اقدام قتل اور ڈکیٹی میں مطلوب تھا۔

سب انسکپٹر انوار الحق کے مطابق ملزم کاشف عمران مشہور زمانہ بدمعاش اور اشتہاری اویس چیمہ کے لیے بطور شوٹر کام بھی کرتا رہا ہے اور اسلام پورہ اور ساندہ تھانہ میں کئی کیسیز درج ہیں اور پولیس بہت عرصے سے اُس کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی۔

سب انسپکٹر انوار الحق کے مطابق باٹا پور میں پیش آیا واقع ایک جعلی پولیس انکاؤنٹر نہیں تھا بلکہ اصل پولیس انکاؤنٹر تھا جس میں ملزم کاشف عمران کے ساتھی انھیں چھڑوانے آئے تھے کہ ان کی فائرنگ سے کاشف اور احمد بٹ دونوں ہی مارے گئے۔

ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ اس کیس کے پس منظر میں اُن کے خلاف سیشن کورٹ میں درخواست دی گئی ہے جس کے خلاف انھوں نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہوا ہے۔ ’اگر ہم نے کچھ غلط کیا ہے تو خدا ہمارا فیصلہ کرے گا۔‘

کاشف عمران کے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تحقیقات کے لیے سیشنز کورٹ میں درخواست دی گئی ہے۔ مقتول کاشف عمران کے خاندان کے وکیل ایڈووکیٹ عرفان احمد کے مطابق جب مقتول کاشف ’پولیس انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا تو اس وقت اس کی آنکھوں پر مبینہ طور پٹی بندھی ہوئی تھی۔

ایڈووکیٹ عرفان کے مطابق انھوں نے سیشن جج کی عدالت میں درخواست دی تھی جس میں 10 پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی استدعا کی گئی ہے اور عدالت نے دلائل سننے کے بعد پولیس کو ہمارا موقف بھی درج کرنے کا حکم دیا ہے۔

پستول

’سب کچھ بدل گیا مگر پولیس مقابلوں کی ایف آئی آرز کا متن نہ بدلا‘

کاشف عمران اور احمد علی بٹ کے علاوہ گذشتہ چند ماہ کے دوران لاہور میں مبینہ پولیس انکاؤنٹرز میں دو درجن کے قریب مختلف جرائم میں ملوث ملزمان ایسی ہی کاروائیوں میں ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔

اس نوعیت کی بیشتر کارروائیوں اور پولیس مقابلوں کی پولیس رپورٹس کے مطابق ملزمان اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے اور زیادہ تر معاملات اس وقت پیش آئے جب پولیس ملزمان کو ’مال مسروقہ‘ یا ’آلہ قتل‘ برآمد کروانے لے جا رہی تھی کہ اس دوران ان کے ساتھیوں نے انھیں چھڑوانے کی کوشش کی جس کے دوران ہلاکتیں ہوئیں۔

مانگا منڈی بائی پاس کے قریب پولیس نے چند ہفتے قبل قتل، اقدام قتل، ریپ، چوری اور ڈکیٹی جیسے سنگین جرائم میں مبینہ طور پر ملوث دو ملزمان پرویز عرف پیجو اوڈھ اور عباس عرف باسو اوڈھ کو پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا۔

ان دونوں ملزمان پر دو پولیس اہلکاروں سپاہی عباد ڈوگر اور عادل حسین کو گشت کے دوران فائرنگ کر کے قتل کرنے کا الزام بھی تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ملزمان کو مانگا منڈی بائی پاس کے قریب عین اُسی جگہ پر مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا جہاں ان پولیس اہلکاروں کو مارا گیا تھا جن کے قتل کا الزام ان پر تھا۔

پولیس رپورٹ کے مطابق کہانی ایک مرتبہ پھر وہی تھی یعنی ملزمان کے ساتھیوں نے انھیں چھڑوانے کے لیے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا جس کی وجہ سے نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے ملزم پہلے زخمی اور پھر ہلاک ہو گئے۔

ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس کی یہ پالیسی رہی ہے کہ جو ملزمان آرگنائزڈ کرائمز بشمول ڈکیٹی جیسی وارداتوں میں شہریوں کو قتل اور زخمی کرنے میں ملوث رہے ہوں، اُن سے سختی سے ہی نمٹا جائے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق درجن بھر ہلاک ملزمان کے علاوہ اتنی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مبینہ پولیس مقابلوں میں زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق تمام زخمی ملزمان بھی پولیس مقابلوں کے دوران اپنے ساتھیوں کی ہی گولیوں سے اس وقت زخمی ہوئے جب وہ واردات کرتے وقت بھاگ رہے تھے اور پولیس ان کا تعاقب کر رہی تھی۔

دوسری طرف سالہا سال سے جاری ان مبینہ پولیس مقابلوں کی ایف آئی آرز کا متن بھی آج تک تبدیل نہیں ہوا اور عام طور پرایک طرح کی کہانی بیان کی جاتی ہے کہ پولیس مال مسروقہ یا آلہ قتل کی برآمدگی کے لیے زیر حراست ملزمان کو لے جا رہی تھی جب ملزمان کے ساتھیوں نے اچانک پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا اور اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے وہ ہلاک ہو گئے۔

’یہ اطلاع کون دیتا ہے کہ پولیس فلاں ملزم کو فلاں وقت کہاں لے جا رہی ہے؟‘

سینیئر قانون دان آفتاب باجوہ کے مطابق ’اگر پولیس رپورٹس کو درست مان لیا جائے تو یہ بہت بڑا سوال ہے کہ پولیس کی موومنٹ کے بارے میں ملزمان کے ساتھیوں کو کون آگاہ کرتا ہے کہ پولیس اہلکار زیر حراست ملزمان کو کب اور کہاں لے کر جا رہے ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ایسے اچانک پولیس مقابلوں میں ہمیشہ گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے ملزم یا اُس کے ساتھیوں کو ہی گولیاں کیوں لگتی ہیں جبکہ باقی سب افراد محفوظ رہتے ہیں؟

آفتاب باجوہ کے مطابق جب پولیس کسی ملزم کو مبینہ پولیس مقابلے میں مار دیتی ہے تو لواحقین سیشنز جج کو تحریری درخواست دے سکتے ہیں جس کی بنیاد پر اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہو سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ اس نوعیت کی جوڈیشل انکوائریوں میں انکوائری رپورٹ 99 فیصد پولیس کے حق میں ہی آتی ہے جس کے پس پردہ کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔

سابق ایڈیشنل آئی جی عبد الرزاق چیمہ کے مطابق ’پولیس مقالوں سے وقتی طور پر تو شاید کرائم ریٹ کم دکھائی دے سکتا ہے لیکن ایسے کاموں سے نہ تو کریمنلز کم ہوتے ہیں اور نہ ہی جرائم، بلکہ ان میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

’جب کوئی پولیس حراست میں اس طرح سے مارا جاتا ہے تو اس کے خاندان اور قریبی لوگوں میں سے کئی افراد کرائم کی دنیا کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔‘

عبدالرزاق چیمہ بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ جوڈیشل انکوائریز میں پولیس کو قصوروار قرار دینا خاصا مشکل کام ہوتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’کوئی شک ہی نہیں کہ لاہور میں باقاعدہ شوٹرز یا آرگنائزڈ گینگ نہیں ہیں لیکن کسی بھی نوعیت کے جرم کو کنٹرول کرنے کے لیے شارٹ کٹ نہیں اپنانا چاہیے بلکہ قانونی طریقہ اپنانا چاہیے تب ہی معاشرے سے بدامنی اور انتشار ختم ہو گا۔‘

’پولیس انکاؤنٹر ہمیشہ آخری آپشن ہوتا تھا لیکن اب پہلی آپشن بن چکی ہے‘

90 کی دہائی میں پولیس انکاؤنٹرز سے شہرت پانے والے سابق پولیس انسپکٹر عابد باکسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی میں پولیس مقابلوں کو لیگل کور دیا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ’اب پولیس مقابلے بھونڈے طریقے سے ہو رہے ہیں جن میں بہت سے بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔‘

عابد باکسر کے مطابق اگر ان معاملوں کی آزادانہ تفتیش یا انکوائری ہوگئی تو پولیس والے کدھر جائیں گے؟

عابد باکسر بھی آفتاب باجوہ کی بات سے اتفاق کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پولیس انکاؤنٹرز میں ایف آئی آر کا متن بھی تقریباً ایک طرح کا ہی استعمال ہو رہا ہے جو ایسی کاروائیوں کو مشکوک بناتا ہے۔

پولیس انکاؤنٹرز کے پیچھے محرکات پر بات کرتے ہوئے عابد باکسر کا کہنا تھا کہ ’عام لوگ ڈاکوؤں، قتل کے ملزمان اور بدمعاشوں کے خلاف بیان دینے کے لیے عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔ اگر ریکوری بھی ہو جائے تب بھی بیان دینے نہیں جاتے کہ خواہ مخواہ دشمنی زیادہ نہ بڑھ جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ ماضی میں پہلے ڈی آئی جی لاہور اداروں اور متعلقہ حکومتی لوگوں سے صلاح مشورے کے بعد پولیس انکاؤنٹرز کا فیصلہ کرتے تھے لیکن اب پولیس اہلکار خود ہی یہ فیصلے لیتے پھر رہے ہیں۔

عابد باکسر کے مطابق ہمیشہ سے پولیس انکاؤنٹر آخری آپشن ہوتا تھا لیکن اب پہلی آپشن بن چکا ہے۔

دوسری طرف سی آئی اے پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ بعض قانونی پچیدگیوں کے علاوہ بھی پولیس انکاؤنٹرز اس لیے لازمی ہو جاتے ہیں کیونکہ مدعی ڈر کی وجہ سے کیس کی پیروی نہیں کرتے یا دباؤ کے تحت صلح کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے ملزمان کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور وہ معاشرے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں۔

اُن کے بقول پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 392 اور 395 کے کیسیز میں اکثر ملزمان نامعلوم ہوتے ہیں اور جب پولیس ان کو پکڑتی ہے تو 24گھنٹوں کے اندر اندر انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے جس کے بعد انھیں شناخت پریڈ کے لئے جیل بھجوایا جاتا ہے۔

ڈکیٹی کے ملزمان کو 10 دیگر ملزمان کے ساتھ کھڑا کر کے مجسٹریٹ کی موجودگی میں مدعیوں کو لایا جاتا ہے اور کسی وجہ سے اگر وہ اپنے ملزمان شناخت نہ کر سکیں تو انھیں اسی وقت ڈسچارج کر دیا جاتا ہے۔

اگر ڈکیٹی کے ملزمان کی شناخت پریڈ نہ کروائیں تو ملزمان کی چند ہفتوں میں ضمانت ہو جاتی ہے۔

سی آئی پولیس کے سینیئر افسر کے مطابق اس کا حل بھی پولیس نے نکال لیا ہے۔ ’ہم جیسے ہی ڈکیٹی کے کیس کے کسی ملزم کو گرفتار کرتے ہیں تو اسے مدعی پارٹی کو چوری چھپے دکھا دیتے ہیں، اس کی تصاویر اور ویڈیو بنا کر بھی مدعی پارٹی کو دکھا دیتے ہیں تاکہ وہ شناخت پریڈ کے وقت اپنے ملزم کا چہرہ نہ بھولیں۔‘

’اگر یہ نہ کریں تو بہت ہی کم لوگ جیلوں تک پہنچ سکیں گے۔‘

مزید پڑھیے

عاطی لاہوریا: وہ گینگسٹر جس کا تعاقب گوجرانوالہ پولیس کو سربیا کے جنگلوں تک لے گیا

مشہور شخصیات کو اغوا کرنے والے سمگلر، جنھوں نے جان بچانے کے لیے اپنی ہی بیٹی کو قتل کیا

اسلام آباد میں والد کے ہاتھوں بیٹی کا قتل: ’قاتل تک پہنچنے میں سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھی مدد ملی‘

پنجاب پولیس

مبینہ جعلی پولیس مقابلوں میں حقیقت کا رنگ

پولیس افسر نے متعدد واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’جو ملزم ڈکیٹی کی واردات کے دوران ریپ یا مزاحمت پر قتل کر دیتے ہیں تو ایسے ملزمان کو گرفتار کرنے کے بعد ایک گھر میں لے جاتے ہیں اور کچھ پولیس اہلکار اس کے ساتھ گھر کے اندر چلے جاتے ہیں۔‘

’دوسری طرف 15 پر ایک کال کر دی جاتی ہے کہ فلاں گھر میں ڈکیٹی ہو رہی ہے اور پولیس آ کر اس گھر کو گھیر لیتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد گھر کے اندر سے فائرنگ ہوتی ہے جو ہمارے اپنے پولیس اہلکار ہی کر رہے ہوتے ہیں جس کے بعد باہر کھڑی پولیس بھی کچھ ہوائی فائرنگ کرتی ہے اور علاقہ مکینوں کو بھی لگتا ہے کہ اصل میں ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان فائرنگ ہو رہی ہے۔‘

’کچھ دیر بعد پولیس اس گھر میں گھس جاتی ہے اور ملزم کی لاش باہر لے آتے ہیں اس طرح سب کے سامنے ایک ایسا انکاؤنٹر کیا جاتا ہے جو ہر لحاظ سے قانونی بن جاتا ہے۔‘

سینیئر سی آئی اے پولیس اہلکار کے مطابق ایسا ان ملزمان کے خلاف کیا جاتا ہے جو ڈکیٹی کی واردات میں ریپ یا قتل کرتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی بھی گواہ سامنے آنے سے کتراتا ہے۔

سی آئی اے اہلکار کے مطابق ’پولیس انکاؤنٹرز کو قانونی بنانے کے لیے دوسرا طریقہ یہ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ زیر حراست ملزم یا ملزمان کے واردات کرنے کے بعد بھاگنے کی کال چلائی جاتی ہے۔ تمام متعلقہ علاقوں کی پولیس الرٹ کر دی جاتی ہے اور ملزمان کا تعاقب دکھایا جاتا ہے اور پھر کسی ایک ناکے پر پولیس اور ملزمان کی مڈھ بھیڑ دکھا کر انھیں پار کر دیا جاتا ہے اور پولیس رپورٹ میں لکھا جاتا ہے کہ فرار ہونے والے ملزمان کو روکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ نہیں رکے اور فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔ جس کے لیے تمام قانونی جواز بھی پورے کر لیے جاتے ہیں تاکہ کل کو اگر عدالتیں نوٹس وغیرہ لیں بھی تو پولیس کے پاس تمام قانونی جواز پورے ہوں۔‘

’عدالتی نظام کی کمزوری کی وجہ سے کوئی گواہ سامنے نہیں آتا‘

جسٹس ریٹائرڈ اﷲ بخش رانجھا نے بی بی سی کو بتایا کہ جب بھی کسی ضلع میں پولیس انکاؤنٹر ہوتا ہے تو اس کا ڈی پی او جوڈیشل انکوائری کے لیے ضلعی عدالت کو درخواست کرتا ہے۔ عموماً ’ایف آئی آر کی تحریر پڑھ کر ہی پتا چل جاتا ہے پولیس انکاؤنٹر اصلی تھا یا جعلی۔‘

جسٹس ریٹائرڈ اﷲ بخش رانجھا کے مطابق جوڈیشل انکوائری مجسٹریٹ گواہان، ورثا، طبی عملہ سمیت دیگر لوگوں کو بُلا کر سنتا ہے اور پھر فیصلہ کرتا ہے اگر وہ اس نتیجے پہ پہنچے کہ پولیس مقابلہ جعلی تھا تو متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کے مقدمات درج ہوتے ہیں۔

اﷲ بخش رانجھا کے مطابق ضروری نہیں کے ہر پولیس مقابلے میں مرنے والا شخص شریف آدمی ہو کیونکہ ایسے کیسیز میں زیادہ بہت بڑی تعداد ان کریمینلز کی ہی ہوتی ہے جن کے خلاف ڈر کے مارے کوئی گواہی نہیں دیتا اور وہ ماضی میں متعدد مرتبہ سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب رہ چکے ہوتے ہیں۔

جسٹس ریٹائرڈ اﷲ بخش رانجھا کے مطابق مظلوموں کا سہارا تو عدالتیں، پولیس اور وکیل ہیں مگر انہیں یہاں سے بھی اکثر مایوس لوٹنا پڑتا ہے۔ ’ہمارا عدالتی نظام اتنا کمزور ہے کہ وہاں ڈر کے مارے با اثر ملزمان کے خلاف گواہ نہیں آتے، کیسز ثابت نہیں ہوتے۔‘

پنجاب پولیس کا موقف

ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب وقاص نذیر نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس مقابلوں خاص کر جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے کوئی کلچر موجود نہیں اور نہ ہی انھوں آج تک کسی آئی جی یا کسی سینیئر پولیس افسر کو یہ کہتے سنا ہے کہ فلاں بندے کو ’پولیس مقابلے میں پار کر دیں۔‘

’یہ بات ضرور ہے جب مسلح لوگوں سے پولیس کی مڈھ بھیڑ ہوتی ہے تو بعض اوقات ہو سکتا ہے کہ طے کیے گئے قانونی طریقہ کار سے ماورا کچھ ہو جائے۔‘

وقاص نذیر کے مطابق وہاڑی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والا شخص بھی مسلح تھا جس کی ساتھ والے گاؤں کے کچھ لوگوں سے دشمنی چل رہی تھی اور وہ گاہے بگاہے وہاں جا کر ہوائی فائرنگ بھی کرتا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا ’لیکن یہ کوئی وہاڑی میں ہونے والے پولیس مقابلے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق جب مسلح افراد سے پولیس کا واسطہ پڑتا ہے اور پولیس اہلکار زخمی یا ہلاک ہوتے ہیں تو ایسے میں پولیس بھی پھر سختی سے پیش آتی ہے جس کے نتیجے میں بعض اوقات معصوم جان بھی چلی جاتی ہے۔

وقاص نذیر کا کہنا تھا کہ سابق آئی جی پنجاب انعام غنی کے دور سے ایک تحریری پالیسی بنائی گئی جس میں پولیس مقابلوں اور پولیس حراست میں ہلاکتوں کے واقعات میں پولیس کے اندر خود احتسابی کا ایک میکینیزم بنایا گیا جس کے تحت ایسے واقعات کی مکمل چھان بین کی جاتی ہے اور الزامات ثابت ہونے پر متعلقہ اہلکاروں کے خلاف سخت قانونی کاروائی بھی کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے حالیہ واقعہ کے فوری بعد آئی جی پنجاب نے سخت ایکشن لیا اور سینیئر پولیس افسران اس معاملے کی چھان بین کر رہے ہیں۔

ڈی آئی جی آپرییشنز پنجاب وقاص نذیر کا مزید کہنا تھا کہ ’اب جرائم بھی بڑے پُرتشدد ہو گئےہیں، نہ صرف پنجاب میں بلکہ پورے پاکستان میں اور جرائم پیشہ افراد پولیس اہلکاروں پر گولی چلانے میں اب ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔‘

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے 20 برسوں کے دوران پاکستان میں ہر دو ہفتے بعد اوسطاً تین پولیس اہلکار شہید کیے گئے ہیں۔

پرتشدد کرائمز کی وجوہات کے بارے بات کرتے ہوئے سینیئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حالات، ملک کے اندر، دہشت گردی، بدامنی اور تشدد پسند مذہبی اور سیاسی رحجانات نے ملک میں پر تشدد کرائمز کو بڑھاوا دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’گذشتہ چند برسوں میں کریمینلز کا پولیس سے لڑنے کا رحجان بڑھ گیا ہے اسی لیے پولیس مقابلے بھی زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔‘

وقاص نذیر کے مطابق کچھ عرصہ قبل رحیم یار خان میں پولیس وین پر حملہ کر کے چھ پولیس اہلکاروں کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ ایک سرکاری میٹینگ کے بعد واپس جا رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32535 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments