مجھے محافظوں سے بچاؤ


آرمی اور مدرسہ دو ایسے ادارے ہیں جو آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے، دائرے کو باہر سے مشاہدہ کرنے اور سوال پوچھنے کی ہمت دینے کے بجائے آپ کی شخصیت کو اپنے مطابق ڈھالتے ہیں۔ یہاں اعتراض کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سوچ کی آزادی نہیں ہوتی۔ جو کہا جائے وہی تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ جو دکھایا جائے وہی ماننا ہوتا ہے۔ صرف ادارے کا سچ ہی سچ ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو دیکھنا یا اس بارے میں پوچھنا ڈسپلن کی خلاف ورزی یا توہین کہلاتی ہے۔

ایک خود کو ملک کا محافظ اور دوسرا دین کا محافظ قرار دیتے ہیں۔ دونوں اداروں میں اس سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے کہ آپ برتر ہیں اور باقی مخلوق آپ کے رتبے تک نہیں پہنچ سکتی۔ آپ ہی محافظ ہیں۔ آپ ہی اصلی محب وطن ہیں۔ آپ ہی ملت و دین کے سپاہی ہیں۔ آپ کی وجہ سے کروڑوں لوگ محفوظ ہیں، آپ کی وجہ سے اتنے لوگ جنت میں جائیں گے۔ آپ کی وردی، آپ کا عمامہ عظمت کا نشان ہے وغیرہ وغیرہ

دیکھا جائے تو اس میں ان اداروں کی کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ دونوں اداروں کا نظام صرف اسی وقت چل سکتا ہے جب وہ ادارے ہر ممبر کو ادارے کے مطابق ڈھال لیں۔ ان اداروں میں اعتراض کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب ان اداروں کے لوگ معاشرے میں آتے ہیں اور پبلک ڈیلنگ کرنی ہوتی ہے تب مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ شروع سے اپنے سے سینئر یا طاقتور کی اندھی عقیدت میں جیتے ہیں۔ یہ رویہ ان کی سائیکی کا حصہ بن جاتا ہے۔

کسی کے لیے اس کا اکابر ملاں، اس کا فرقہ سب کچھ ہے تو کسی کے لیے امریکہ یا کوئی اور قوت سب کچھ ہے اور ان کے خیال میں اس کا فیض ان پہ رہنا چاہیے۔ یہ اسی پاور سائیکی کے ساتھ جیتے ہیں اگر یہ لوگ کسی حکومتی معاملات یا پلاننگ میں حصہ لیں، پارلیمنٹ میں قانون سازی میں شریک ہو جائیں یا کسی بھی قسم کی پبلک ڈیلنگ میں شامل ہوں تو پھر اسی طرح ری ایکٹ کرتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ مولوی اور فوجی کی اپنی ڈومین ہے اور جب یہ حکومتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں یا ملکی نظام چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔

مولوی کو مسجد اور فوجی کو بارڈر پہ دھکیل کر ہی انسانیت کو بچایا جا سکتا ہے ورنہ ان دونوں اداروں کی سائیکی میں تخریب کا امکان موجود ہے۔ آپ مجھے ملک یا دین کا دشمن، لبرل وغیرہ وغیرہ قرار دے سکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو نہیں بدلا جا سکتا اور سچ یہ ہے کہ ان دونوں کی تخریب سے ہی دین و ملت کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں کا ہمیشہ ایک خفیہ اتحاد رہتا ہے۔ مسجد کے منبر سے کبھی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آواز نہیں اٹھے گی اور آرمی کبھی ملاں ازم کی کسی بھی تخریبی تحریک کو کچلنے کی کوشش نہیں کرے گی۔

چاہے لبیک کا معاشرے میں پھیلتا عفریت ہو یا دارالحکومت میں کسی سرخ مسجد میں بندوقیں دکھائی جاتی ہوں، جیش ہو لشکر ہو یا جماعت الدعوہ ہو۔ سب کچھ باہمی مفاد کے تحت جائز ہے۔ ان کے بڑے کردار یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں اور دین و ملک کے نام پہ جذبات کا اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پڑوسی ملک ایران میں کٹھ ملائیت کا قبضہ ہو یا پاکستان میں فوجی اشرافیہ کا۔ دونوں جانب تو دونوں طبقات ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔

ہماری نوزائیدہ مملکت نے صرف چار دہائیوں بعد ہی اس ہنستے بستے ملک میں اسی کی دہائی میں وہ وقت بھی دیکھا جب ایک ڈکٹیٹر نے ملاں کا روپ دھارا اور دونوں اداروں نے مل کر ملک و دین کی سربلندی و تحفظ کے نام پہ شدت پسندی کا وہ بیج بویا جس نے اسی ہزار جانوں کا ضیاع کروایا۔ جہادی لٹریچر بانٹنے والے اور جہادی نرسریاں قائم کرنے والوں کے بچے تو یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے رہے جبکہ قوم کے بچوں کو جہاد کے نام پہ اس آگ میں جھونکا گیا جس کا خمیازہ آج بھی دوسری نسل بھگت رہی ہے۔

امریکہ بہادر کی جانب سے 34 بلین ڈالر تو بڑے کرداروں کو مل گئے لیکن قوم نے ٹن کے حساب سے خون اور ٹریلین ڈالر کے حساب سے معیشت کا نقصان کروایا۔ اگر ترقی کرنی ہے تو پھر ان دونوں کو ان کی بنیادی ذمہ داریوں کی جانب دھکیل کر سول سپریمیسی کی مضبوط بنیادیں کھڑی کرنی ہوں گی جہاں نہ تو کوئی جتھہ مذہب کے نام پہ ریاست کو بلیک میل کر سکے اور نہ کوئی ٹولہ وطن پرستی کے نام پہ ملک سے کھلواڑ کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments