!پاکستان میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات


ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو برا بھلا کہا جاتا ہے ۔ اس مردانہ معاشرے میں عورت پر ہونے والے جسمانی تشدد کو مرد حضرات غیرت کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ معاشرے میں مردوں نے اس ہتھیار کو اپنے دفاع کے لیے استعمال کیا ہے۔

پاکستان کی وزارت انسانی حقوق کے مطابق گھریلو اور جنسی مسائل اب پاکستانی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 15 سے 29 سال کی عمر کی 28 فیصد خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستانی معاشرہ خواتین کے حوالے سے غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ جس میں اغوا، قتل، خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عورت فاؤنڈیشن اسلام آباد میں کام کرنے والی ان کی ذیلی تنظیم کے سروے کے مطابق 2021 میں چاروں صوبوں میں جنسی تشدد کے 2,297 واقعات درج ہوئے۔ قتل اور جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے کی فکری پسماندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے شائع کردہ تخمینے کہ مطابق عالمی سطح پر دنیا بھر میں تقریباً 3 میں سے 1 ( 30 %) خواتین کو اپنی زندگی میں جسمانی اور /یا جنسی مباشرت پارٹنر تشدد یا غیر پارٹنر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس تشدد میں سے زیادہ تر شوہر ہی تشدد کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں، 15۔ 49 سال کی عمر کی تقریباً ایک تہائی ( 27 %) خواتین جو رشتے میں رہی ہیں رپورٹ کرتی ہیں کہ انہیں اپنے قریبی ساتھی کے ذریعے کسی نہ کسی قسم کے جسمانی اور /یا جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

حالیہ دنوں میں اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں ایک فارم ہاؤس میں پاکستان کے نامی گرامی صحافی ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز امیر نے اپنی تیسری بیوی سارہ انعام کو دبئی سے بلا کر فارم ہاؤس میں قتل کر دیا۔ جس کے بعد پولیس کو اطلاع ملتے ہے پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ پولیس کی جانب سے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سارہ انعام کے جسم کے مختلف حصوں پر تشدد کے نشانات پائے گئے۔ ذرائع کے مطابق جاں بحق ہونے والی سارہ انعام کے سر میں چوٹ لگی تھی۔ جو چوٹ سر میں ڈمب بیل مارنے سے ہوئے۔ واضح رہے کہ جوڑے کی تین ماہ قبل شادی ہوئی تھی۔

سارہ نے کینیڈا کی یونیورسٹی آف واٹر لو سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا تھا۔ سارہ نے اکنامکس میں پڑھی لکھی اور بھت قابل لڑکی تھی۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں آڈیٹنگ کمپنی ڈیلوئٹ میں ایک اہم عہدے پر کام کر رہی تھی۔ سارہ اور شاہنواز کی دوستی سوشل میڈیا سے شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ دوسرا واقعہ حالیہ دنوں میں ہوا ہے۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو کے آرٹ اینڈ ڈیزائین کے شعبے کی طلبہ ساجدہ عباسی کی نوری آباد سے لاش پائی گئی۔ ساجدہ عباسی اور زاہد سولنگی نے 2 سال قبل شادی کی تھی، دونوں سندھ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔

ساجدہ آگے پڑھنا چاہ رہی تھی اور زاہد سولنگی نے معاشی مسائل کو جواز بنا کر فیس بھرنے سے انکار کیا۔ ساجدہ ناراض ہو کہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ 26 ستمبر 2022 کو ساجدہ کو زاہد سولنگی موٹر سائیکل پر لے گیا، اور نوری آباد کے علاقے میں دھکا دے کہ گرایا اور پتھر مار کے قتل کر کے بھاگ گیا۔

جب نامعلوم نعش پولیس کو ملی تو ایس ایس پی جامشورو نے ایکشن لیا، اور تفتیش شروع کی، جس کے نتیجے میں زاہد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اور اس نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔ ساجدہ کو بیدردی سے پتھر مارے گئے تھے اس کا چہرہ بری طرح مسخ کیا گیا تھا۔

شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی ساجدہ عباسی کے قتل کے ہولناک انکشاف جب سامنے آئے ہیں تو ان کو سوچ کر انسانیت سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ واقعے کی تفصیلات کچھ اس طرح ہے کہ نوری آباد میں پولیس کو پٹرولنگ کے دوران لڑکی کی کچھ دن پرانی نعش ملی جس کا سر بری طرح سے کچلا ہوا تھا۔ شوہر نے اس کو چھبیس ستمبر سے اپنے والدین کے گھر سے کراچی گھومنے کے بھانے لے گیا۔ لڑکی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی اور شوہر خرچہ نہیں دے رہا تھا۔ اس پہ ناراضگی کی وجہ سے وہ والدین کے پاس چلی گئی تھی۔ اس نے طلاق کا مطالبہ کیا تھا۔ لڑکے نے بیوی کو پتھر سے سر کچل کر قتل کیا اور بعد میں لاش کو ویرانے میں پھینک کے واپس اپنے گاؤں نوشہرو چلا گیا۔

پولیس کے نچلے عملے نے نعش کی تدفین کر دی جس پہ شواہد غائب کرنے پہ اے ایس آئی اور ایک اہلکار کے خلاف کیس داخل کر کے ایس پی نے دونوں کو معطل تو کر دیا، اور پولیس نے شوہر کو گرفتار کر لیا ہے۔ سماج کی ایسی بھیانک صورتحال دیکھ کر لگتا ہے کہ سماج میں انسان کی جگہ حیوان بس رہے ہیں، اس طرح تشدد کے واقعات میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس سماج میں خواتین اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر قتل ہونے والی خواتین میں سے 38 فیصد شراکت داروں کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔

قانونی سطح پر ایسی خواتین کے لواحقین یا تو قانونی لڑائی لڑتے ہیں یا ان کو خاموش کروایا جاتا ہے۔ اس تشدد کے بہت سارے اسباب ہیں، ڈرگز اور الکوحل زیادہ مقدار میں استعمال کرنا، معاشرتی رویا جس کہ بنیاد پر مرد حضرات خود کو عورت سے زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ جنسی غیر برابری جیسے ٹرمز ذہنی نشو و نما جیسے اسباب مردوں کے لئے اعلیٰ مقام اور خواتین کو کم حیثیت دینے والا نام نہاد کلچر کی وجوہات سے ایسے واقعات ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments