عمران خان اور مریم نواز کو ملنے والا ریلیف


چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی توہین عدالت کے مقدمے سے جاں بخشی کے بعد بد قسمتی سے ہر گزرتے دن یہ تاثر مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ ہمارے نظام عدل کا انحصار آئین و قانون کی بجائے ریاستی ترجیحات پر ہے۔ عمران خان تو چلیں مقدس شخصیت ہیں لہذا وہ جو دل میں آئے کہہ سکتے ہیں۔ نہایت ادب و معذرت کے ساتھ لیکن پوچھنا پڑ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے دیگر افراد سے متعلق بھی ریاستی اداروں جو نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں کسی اور سیاسی جماعت کو یہ سہولت کبھی میسر ہوئی؟

دو ہزار نو کے بعد افتخار چوہدری اور ثاقب نثار والی عدلیہ ہوتی تو فواد چوہدری اور شبلی فراز کو ان کے طرز کلام پر رعایت مل سکتی تھی؟ کیا نہال ہاشمی، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کا جرم محض جوش خطابت نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کا کیریئر ہی ختم ہو گیا۔ ہمارے نظام کا دہرا معیار اس دن ہی بے نقاب ہو گیا تھا جب ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو محض اس بنیاد پر کہ اپنے بیٹے کی کمپنی سے قابل حصول رقم، جو حاصل بھی نہیں کی گئی اپنے گوشواروں میں ڈکلیئر نہ کرنے کی پاداش میں نہ صرف تا حیات نا اہل کر دیا گیا بلکہ اس جماعت کے امیدواروں کو سینیٹ الیکشن کے موقع پر انتخابی نشان استعمال کرنے تک سے روک دیا گیا۔

دوسری جانب اسی عرصے میں ایک اور سیاسی جماعت کے سربراہ کو سپریم کورٹ نے ”صادق اور امین“ کا لقب عطا کر دیا حالانکہ اس وقت الیکشن کمیشن میں اس جماعت کا فارن فنڈنگ کیس کئی سالوں سے پینڈنگ پڑا تھا اور اس کے بانی ارکان میں سے ایک اکبر ایس بابر انصاف کے حصول کے لیے دھکے کھا رہے تھے۔ حالانکہ آئین اور قانون اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی غیر ملکی شخص، غیر ملکی ٹریڈ کمپنی، حکومت یا ادارے سے فنڈنگ نہیں لے سکتی۔

کسی سیاسی جماعت کا غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنا آئین و قانون کی صریحا خلاف ورزی کے علاوہ براہ راست ریاست کی سلامتی کے لیے بھی خطرناک تھا اور اس کی فوراً تحقیق لازم تھی۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے باوجود تمام ریاستی ادارے تحریک انصاف کے جرائم سے منہ موڑ کر بیٹھے رہے، کیونکہ ترجیحات طے کرنے والے ذہنوں میں جو خاکہ تھا اس میں رنگ بھرنے کے لیے یہ چشم پوشی ضروری تھی۔

پچھلے چار سال نیب کا ادارہ مخصوص سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنے میں مصروف رہا۔ ایک طرف تو کچھ لوگوں پر بے بنیاد مقدمات قائم کیے گئے، میڈیا ٹرائل سے شہرت داغدار کی جاتی رہی اور ریفرنس فائل کیے بغیر مہینوں غیر قانونی حراست میں رکھا جاتا رہا۔ دوسری طرف وہی نیب تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے افراد کے بارے آنکھیں موندے پڑا رہا۔ حالانکہ ان میں سے بہت لوگوں کے بارے شواہد بھی دستیاب تھے اور تحقیقات بھی مکمل ہو چکی تھیں۔

تحریک انصاف کے خلاف کارروائی چونکہ ریاستی ترجیح نہیں تھی لہذا گرفتاری عمل میں لائی گئی اور نہ ہی ریفرنس فائل کیا گیا۔ اس بات کا اقرار خود سابق چیئرمین نیب اپنی زبانی کر چکے ہیں کہ ”اس طرف ایکشن اس لیے نہیں ہو رہا کہ حکومت گرنے کا خدشہ ہے“ ۔ اب اسحاق ڈار واپس آ کر وزارت خزانہ کی چابیاں پھر سے سنبھال چکے ہیں اور مریم نواز کو بھی مسلسل ریلیف پر ریلیف مل رہا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اب عدالتوں سے میرٹ پر فیصلے آنا شروع ہو چکے ہیں۔

حالانکہ یہی تو ریاستی ترجیحات کے نظام عدل پر اثر انداز ہونے کا ثبوت ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز شریف اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر اعوان کو طویل عرصے بعد اب ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کر دیا ہے۔ یاد رہے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے مطابق نواز شریف کو گیارہ سال قید با مشقت، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو آٹھ سال قید با مشقت جبکہ کیپٹن صفدر کو ایک سال قید با مشقت اور مجموعی طور پر شریف فیملی کو ایک ارب پینسٹھ کروڑ کے قریب جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔

اس کے علاوہ مقدمے کے دیگر ملزمان حسن نواز اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دے کر دوسری بار ان کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ مذکورہ فیصلے میں یہ لکھا گیا تھا کہ نواز شریف یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو مذکورہ فلیٹ خریدنے کے لیے رقم نہیں دی۔ مزید یہ کہا گیا کہ مذکورہ فلیٹ 1993 سے شریف فیملی کی ملکیت ہیں، لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ نیب کی جانب سے یہ نکتہ ثابت کرنے کے بجائے کہ اس وقت نواز شریف کے بچے ان کے زیر کفالت تھے یا نہیں، محض اس مفروضے کی بنیاد پر مقدمہ کھڑا کیا گیا کہ مذکورہ فلیٹ خریدتے وقت ان کے بچوں کی جو عمر تھی اس عمر میں عموماً بچے اپنے والدین کے زیر کفالت ہوا کرتے ہیں۔ لہذا اس نکتے کو بنیاد بنا کر یہ تصور کیا گیا تھا کہ 1993 سے شریف فیملی کی ملکیت فلیٹس کی ذمہ داری سے نواز شریف مبرا نہیں ہو سکتے۔

اس مقدمے کے آغاز سے ہم یہی شور مچا رہے تھے یہ کیس میرٹ کے بجائے سیاسی مقاصد کی بنیاد پر قائم ہے اور اس وقت ہم نے ان سطور میں جو سوالات اٹھائے تھے نیب کی جانب سے آج تک ان کا جواب فراہم نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر یہ واضح ہونے کے بعد بھی کہ لندن میں موجود گمنامی فلیٹس نواز شریف کے بچوں کی ملکیت ہیں، نیب ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ اس جائیداد سے براہ راست نواز شریف کا تعلق ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ان فلیٹس کی خریداری کے وقت میاں صاحب کے بچے کم عمر تھے، تو پھر بھی محض اس دلیل کو جواز ٹھہرانے کے علاوہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ان کی خریداری کے لیے پیسے میاں صاحب نے ہی غیر قانونی آمدن سے بھیجے تھے۔

جبکہ شریف فیملی کا موقف ہے کہ بچے اپنے دادا کے زیر کفالت تھے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں اس خریداری کے لیے سرمایہ اپنے دادا سے ملا ہو۔ مریم نواز اور حسین نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں یہ درج ہے کہ انہوں نے عدالت کے روبرو جھوٹے کاغذات جمع کرائے۔ اس الزام میں اگر سچائی ہے تو پھر بھی مذکورہ ٹرسٹ ڈیڈ تو بہن اور بھائی کے درمیان ہے لہذا اس بات کی کوئی وضاحت درج نہیں کہ مریم نواز نے اس عمل سے اپنے والد کو کس طرح تقویت پہنچائی۔

اب کہا جا رہا ہے کہ مریم نواز کی بریت میرٹ پر ہوئی، سوال یہ ہے کہ کیس میں یہ کمزوریاں تو شروع دن سے موجود تھیں، اس وقت پھر یہ سزا کیوں سنائی گئی؟ اب بھی اس تاثر کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جب کسی جماعت کو عتاب کا نشانہ بنانا ہو تو اس کے رہنماؤں کے خلاف کیس موثر ہو جاتے ہیں اور جب اس جماعت کو کسی وجہ سے ریلیف دینا مجبوری بن جائے تو صورتحال یکسر بدل جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments