خاک پائے معلم کو سلام


کون بتائے گا؟ ”میں استاد جی“ گاؤں کے اکلوتے پرائمری سکول کے استاد کے ہر سوال کے جواب میں ہم نے پھر ہاتھ کھڑا کیا تو استاد جی نے ڈانٹ کر بٹھا دیا۔ ہر سوال تم نے ہی بتانا ہے بیٹھ جاؤ آرام سے۔ یادوں کی سکرین کے پردے پر موہوم سی یاد کا یہ اکیلا نقش ہے جو باقی رہا۔ گاؤں کے ٹاٹ سکول پہ الف انار، ب بکری یا پھر پہاڑے ایک دونی دو، دو دونی چار کہ جس کا نام بھی آج کے بچوں کے سامنے دہرائیں تو ہنس ہنس کے دہرے ہو جائیں۔

شہر میں نوکری کرتے ابا جی کا تبادلہ ایک اور شہر ہوا تو کچھ ہم بچوں کا سوچ کر یا شاید ہر ہفتے گھر واپس آنے اور جی ٹی ایس کی پرانی بسوں کے دھکے کھانے سے گھبرا کر ابا جی ہمیں شہر لے آئے، کلاس تھی سوئم۔ جی ہاں۔ اول دوئم سے ہوتے ہوئے سوئم لیکن سکول میں ٹاٹ ویسے ہی۔ وہ قلم دوات وہ کچی پینسل، وہ تختی اور کانے سے بنی قلم، سیاہی میں قلم ڈبو کر تختی پر لکھنے کی مشق کہ جس کی وجہ سے ہینڈ رائیٹنگ کافی بہتر ہوئی، ذرا اگلی کلاس میں آئے تو ایگل کا پین کہ جس کی مسحور کن سیاہی ہم اپنے ہم جماعتوں سے مستعار لیا کرتے تھے۔

گلے میں بستہ لٹکاتے، روزانہ آدھی چھٹی کے انتظار میں رہتے، شوکی، بلے (بلال) اور سودے (مسعود) کے ساتھ کھیلتے، لڑتے اور سکول کے مین گیٹ پہ چھابڑی لگائے اکرم سے چار آنے کی چنا چاٹ کھاتے ہم نے پنجم کا امتحان پاس کر لیا۔ لیکن ٹھہریے۔ استاد محمود (ٹیچرز کے لئے رائج طرز تخاطب) کے ذکر کے بغیر بھلا ہمارے پرائمری پاس کرنے کی کہانی کہاں مکمل ہوتی ہے۔ شفیق اور مہربان استاد محمود جس نے ہماری شخصیت کی کچی پکی تعمیر کی پہلی اینٹ رکھی اور جو ہلکی سی ڈنڈی مار کر ہمیں دوسروں کے مقابلے میں ایک آدھ نمبر زیادہ دے کر پاس کر دیتے تھے کہ بچہ ذہین ہے محنتی نہیں تو کیا ہوا۔ مولا بخش کا استعمال بھی کرتے پر ہمارے نازک ہاتھوں کی تکلیف کا احساس بھی۔ سو پہلا سیلیوٹ استاد محمود کے نام۔

اب منزل تھی ایم سی ہائی سکول۔ شہر کے وسط میں واقع سکول میں گورمانی صاحب کے شاگرد ہوئے جو کلاس ششم سی کے کلاس انچارج تھے۔ ابا جی کے دوست ہونے اور ابا جی کے ہر دوسرے چوتھے دن ان سے ہمارا حال چال پوچھنے کی پاداش میں ہم استاد جی کا خاص ٹارگٹ ٹھہرے، وہیں مرغا بننے کی خاص مشق بھی ہوئی اور بید کے ڈنڈے سے ہاتھ بھی پہلی دفعہ سرخ ہوئے۔ استاد جی سے تو ہم نے جو دشمنی پالنی تھی پالے رکھی لیکن ان کی آنکھ نے ہمیں تیر کی طرح سیدھا رکھا۔ وہی گورمانی صاحب کے بعد میں جن کے ایک مشورے نے ہماری زندگی کا رخ تبدیل کیا۔ سو اے میرے محسن۔ میرے دشمن جاں۔ رب تعالیٰ آپ کی لحد پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ شاگرد نا خلف کا سیلیوٹ قبول فرمائیے۔

لیجیے صاحب ایف ایس سی کا دور آوارگی۔ کہ جہاں بقول اکبر اللہ آبادی ساری کتابیں قابل ضبطی کہ جن کی وجہ سے بچوں کے باپ کو خبطی سمجھنے کا چلن عام ہوتا ہے۔ کہاں سکول کی گھٹن اور کہاں ہوائے تازہ کے مدہوش کن جھونکے جو کالج کے لونڈوں کے آوارہ بال لہراتے پھریں۔ تبھی فزکس کے فاروق صاحب سے دشمنی ہوئی۔ جو ہمارے ماموں کے کلاس فیلو ہونے کے ناتے ہمیں صراط مستقیم پر چلانے کے خواہاں ہوئے۔ ابا جی کے سوال پر کہ کیا بچے کا میڈیکل کا میرٹ بن جائے گا۔ فرمایا اللہ کو تو بڑی طاقتیں ہیں چاہے تو بنا دے۔ ایک اور سلیوٹ ہماری راحتوں اور آزادیوں کے دشمن اس کوہ گراں کے نام۔

خدا خدا کر کے ایف ایس سی کا ماؤنٹ ایورسٹ سر ہوا۔ آہستہ آہستہ ہوش ٹھکانے آنے لگے لیکن نہ کوئی منزل نہ نشان منزل۔ احساس زیاں الگ سو اللہ کا نام لے کر بی اے کرنے کا سوچا۔ ایک دن اتفاقاً گھر آئے گورمانی صاحب کے مشورے سے انگلش لٹریچر کا مضمون تو رکھ لیا پر کالج میں ایڈمشن لینے پہنچے تو جی ایم خان صاحب نے یہ کہہ کر ایڈمشن فائل منہ پہ دے ماری کہ اب تمہاری خاطر انگلش کے سارے ٹیچرز انگیج کریں گے، جاؤ پنجابی اور اسلامیات پڑھ کر بی اے کرو۔ پرنسپل صاحب کی ڈانٹ سن کر کالج میں ایڈمشن لینے کا ارادہ ترک کر کے ملتان سے انگلش لٹریچر کی کتابیں لے آئے۔

لیجیے صاحب اب بقول منیر نیازی ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ شیکسپیئر کا میکبیتھ اور براؤننگ کی شاعری پڑھنا بھلا کسی عام تام کے بس کی بات تھی؟ شہر میں ایک ہی شخص تھا ہماری انا کو چوٹ پہنچانے والا، انگریزی ادب کا ماہر پرنسپل جی ایم خان۔ سو اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پہنچے پر وائے ناکامی۔ پھر لوٹا دیے گئے کہ وقت نہیں ہے۔ دوبارہ جا کر عرض کیا پھر سہ بارہ کہ حضور ہم اذن باریابی لے کر ہی جائیں گے۔ قبولیت کا ایک لمحہ آیا جب اس عظیم مجسمہ ساز نے پتھر تراشنے کی حامی بھر لی اور شاگرد نا خلف پہ رحمت کی پھوار برسنے لگی۔ پھر معلم اعظم کا ایک سچا پیروکار علم کے موتی بکھیرتا گیا اور یہ نالائق طالبعلم اپنی حیثیت کے مطابق انہیں اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ مینارہ علم کو طالبعلم کی تنگی داماں کا احساس ہوا تو تہجد میں ان کی دعائیں اس خاکسار کے حصے میں آنا شروع ہو گئیں۔ دعاؤں کے در کھلے تو خاکسار کے خوابوں کو تعبیریں ملنے لگی۔ وہ نعمتیں بھی اس خاکسار کی آلودہ جھولی کو تر کرنے لگیں کہ یہ نا شکرا جن کا قطعاً حقدار نہیں تھا۔ یہ سب کامیابیاں، آسانیاں اور نعمتیں محمود صاحب، گرمانی صاحب، اور جی ایم خان صاحب جیسے عظیم اساتذہ کی خاک کف پا کی نظر۔ سو میرے عظیم اساتذہ آج کے دن اپنے ایک نالائق شاگرد کا ہدیہ تبریک قبول فرمائیے۔ وہ رحیم و کریم رب آپ کی لحد پہ اپنے کرم کی بارش برسائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments