پاکستان کا مایۂ ناز مصور، شاعر، درویش قلندر صادقین


قیام پاکستان سے قبل امروہہ میں جنم لینے والے سید صادق احمد نقوی ”صادقین“ کے نام سے معروف ہوئے اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو اللہ تعالٰی نے ایسا کمال ہنر عطا فرمایا تھا کہ ان کے ہاتھوں سے سورہ رحمٰن کی خطاطی دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہو جایا کرتے تھے۔ ان کے ہاتھوں کی انگلیاں اللہ کے نام کے سانچے میں ڈھل گئیں تھیں۔ وہ حقیقت میں انتہائی درویش اور دریا دل خطاط تھے جو بغیر پیسے اور خودنمائی کے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی فرمائش پر منٹوں میں خطاطی کے نادر نمونے بنا کر دے دیتے جو ان کے گھروں کی زینت بن جایا کرتے تھے۔ انہوں نے اسلامی خطاطی کے نادر نمونے بغیر معاوضہ لئے تخلیق کیے

اور ان کی درویشی کا یہ عالم تھا کہ ایک دن ایک شخص ان کے پاس آیا اور نہایت عاجزانہ لہجے میں کہنے لگا بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے اور ہاتھ بالکل خالی ہے۔ صادقین اپنی جگہ سے اٹھے اور اندر اپنی والدہ کے پاس جاکر بولے اماں کچھ ہو تو دے دیجئے ماں نے اپنی پان کی پٹاری کھولی اور پاندان کے پیندے میں موجود سو روپے کا نوٹ نکال کر بیٹے کے ہاتھ پر رکھا اور بولیں بیٹا بس یہی ہے۔ صادقین نے وہی سو روپے کا نوٹ لے جا کر مجبور باپ کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ شخص گیا نہیں بیٹھا رہا اتنے میں صادقین کے پاس ایک نوجوان آیا اور اس نے ایک بھاری رقم کا سر بند لفافہ صادقین کو دیتے ہوئے بولا برگیڈیئر صاحب نے بھجوایا ہے صادقین اپنی جگہ سے اٹھے اور بند لفافہ جوں کا توں اس سوالی باپ کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ شخص خوشی سے سرشار اپنے گھر واپس چلا گیا۔ یہ ان کی درویشی کی بے شمار مثالوں میں سے صرف ایک مثال ہے۔

صادقین نے مصوری کے منفرد نمونے پیش کر کے جہاں انھیں تخلیقی شاہکار بنا دیا، وہیں رباعیات کہنے میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔ رباعیات کو انہوں نے فن کے طور پر لیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات میں بے ساختہ پن ہے۔ کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں ‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں ‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

پاکستان میں جہاں انہیں اعزازات سے نوازا گیا، وہیں ہندوستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس میں ہندو یونیورسٹی نے بھی انہیں اعزاز بخشا تھا، لیکن صادقین کی طبیعت قلندرانہ تھی اس لیے وہ کسی منزل پر رکتے نہیں تھے۔ اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو اللہ تعالٰی نے ایسا کمال ہنر عطا فرمایا تھا اور کبھی کسی امیر ترین کو بھی اپنی یہ پینٹنگ فروخت نہیں کی تھیں لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کے عزیزوں اور دوستوں نے ان کی پینٹنگ سے کروڑوں روپے کمائے۔

، پاکستان کی بہت سی سرکاری اور اہم ترین تاریخی و ثقافتی عمارتوں میں ان کی مصوری و خطاطی کے نمونے آویزاں ہیں۔ سابق جنرل ضیا الحق ان کے فن کے عاشق تھے۔ ان کے گھر میں صادقین کی خطاطی کے نمونے بطور تبرک موجود تھے۔ گزشتہ سال بھی صادقین کی خطاطی کا ایک ایسا نادر نمونہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو اللہ تعالٰی نے ایسا کمال ہنر عطا فرمایا تھا کہ ان کے ہاتھوں سے سورہ رحمٰن کی خطاطی دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہو جایا کرتے تھے۔

وہ حقیقت میں انتہائی درویش اور دریا دل خطاط تھے جو بغیر پیسے اور خودنمائی کے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی فرمائش پر منٹوں میں خطاطی کے نادر نمونے بنا کر دے دیتے جو ان کے گھروں کی زینت بن جایا کرتے تھے۔ انہوں نے اسلامی خطاطی کے نادر نمونے بغیر معاوضہ لئے تخلیق کیے اور کبھی کسی امیر ترین کو بھی اپنی یہ پینٹنگ فروخت نہیں کی تھیں لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کے عزیزوں اور دوستوں نے ان کی پینٹنگ سے کروڑوں روپے کمائے۔ مصوری کے علاوہ انھوں نے غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام اور آیات قرآنی کو بھی خطاطی کے قالب میں ڈھالا۔ ان کا فن، ماورائے عصر تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ صادقین کے ذہن میں تخلیق کا آبشار بہتا تھا۔ انہوں نے شادی اس لئے نہیں کی تھی کیونکہ جب ان کی شادی کا وقت آیا تھا انہی دنوں میں ان کی ایک بہن اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیوہ ہو کر اپنی والدہ کے پاس آ گئیں تھیں بس صادقین اپنے آپ کو خدا کی راہوں میں وقف کر دیا ان کو حکومت وقت نے آرٹ گیلری کے لئے جو زمین دی انہوں نے وہ زمین شادی ہال بنا کر خدا کی بے سہارا مجبور مخلوق کے لئے وقف کر دی

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments