”توصیف تبسم: شخصیت اور فن“ : ایک تعارف


”توصیف تبسم شخصیت اور فن“ اکادمی ادبیات پاکستان کے وقیع اشاعتی سلسلے ”پاکستانی ادب کے معمار“ کی تازہ تصنیف ہے جسے عہد حاضر کے نامور محقق، مدرس، اور نقاد ڈاکٹر شیر علی نے تصنیف کیا ہے۔ اس کتابی سلسلے کے تحت اب تک اردو زبان و ادب سے وابستہ ایک سو ستر نابغہ روزگار شخصیات پر کتب شائع کی جاچکی ہیں۔

ڈاکٹر توصیف تبسم معاصر ادبی منظر نامے کے ایک اہم اور ہمہ جہت تخلیق کار ہیں ان کی تخلیقی شخصیت کا بنیادی حوالہ شاعری ہے۔ انہوں نے غزل نظم، نعت، مناقب، اور سلام جیسی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ”بند گلی میں شام“ کے نام سے اپنی آپ بیتی تحریر کی۔ برطانوی نو آبادیات کے حوالے سے ایک اہم شاعر منیر شکوہ آبادی پر ”مجاہد شاعر منیر شکوہ آبادی (احوال و آثار)“ لکھی جو ان کی شخصیت و فن پر ایک مفصل علمی و تحقیقی کام ہے۔ شعر اور فن شعر کی باریکیوں اور مبادیات پر ان کی کتاب ”یہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا“ خاصے کی چیز ہے۔ احمد ندیم قاسمی ڈاکٹر توصیف تبسم کے بارے میں کہتے ہیں :

”تو صیف تبسم نے کلاسیکل غزل کی روایت پر عصر حاضر کے نئے اور بیدار شعور کو شامل کر کے ایسی بھرپور غزل کہی ہے جس میں میر غالب سے ناصر و شکیب کی مثبت روایات کا نچوڑ بھی ہے اور ان روایات سے آگے بڑھ کر سوچنے کی حوصلہ مندی بھی۔“

”توصیف تبسم :شخصیت اور فن“ کا پیش نامہ اکادمی ادبیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد یوسف خشک نے تحریر کیا ہے اور پیش لفظ ڈاکٹر شیر علی نے سپرد قلم کیا ہے۔ بقول ڈاکٹر موصوف:

”ڈاکٹر توصیف تبسم کے فکر و فن پر کچھ تحریر کرنا کسی سعادت سے کم نہیں۔ ڈاکٹر موصوف کے عقیدت مند بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ڈاکٹر توصیف تبسم شخصیت اور فن کی صورت میں خاکسار دراصل اپنی نیازمندی کا اظہار کر رہا ہے“ (ص 9)

اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اول ”سوانح حیات“ کے عنوان سے ہے جس میں ڈاکٹر توصیف تبسم کی پیدائش، خاندان، تعلیم، پیشہ ورانہ زندگی، ازدواجی زندگی، ادبی سفر، معاصرین، اعزازات اور دیگر اہم سوانحی کوائف کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر توصیف تبسم کی بنیادی پہچا ن شاعری ہے اس لیے باب دوم ”شاعری“ کے عنوان سے قائم کیا گیا ہے جس میں توصیف تبسم کی شاعری کا اصناف وار مفصل فکری و فنی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب کی غزل گوئی کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔

زخم مضراب سے رستا ہے لہو پوروں کا
کتنا دشوار ہے آواز کو نغمہ کرنا ( ص 36)
توصیف تبسم کی غزل گوئی کے بارے میں ڈاکٹر شیر علی لکھتے ہیں :

” ان کی غزل دل پر غم حیات کی صورت زیبا کی مانند ہے۔ ان کی غزل میں کلاسیکی رچاؤ کا احساس ہوتا ہے، ہر چند ان کا لہجہ نیا، تازہ اور دل آویز ہے۔ یہ فنی کمال خون جگر کے بنا ممکن نہیں۔“ (ص 36)

توصیف تبسم نے نظم میں بھی خامہ فرسائی کی۔ ان کے منتخب کلیات ”آسمان تہ آب“ میں ”لاکھ پیرائے“ کے عنوان سے ان کی 36 نظمیں شامل ہیں جو فکری و فنی ہر دو حوالوں سے اردو نظم میں قابل قدر اضافہ ہے۔ ان کی نظمیں علائم و رموز کی بجائے سادگی و سلاست سے مملو پر تاثیر اسلوب کی حامل ہیں۔ ڈاکٹر شیر علی ان کی نظموں کے حوالے سے لکھتے ہیں :

” توصیف تبسم کی نظموں میں ان کا وسیع تجربہ، مشاہدہ اور تخلیقی حسن فنی اور فکری دونوں حوالوں سے متاثر کرتا ہے۔ معاملہ حسن و عشق، عصری مسائل، انسانی رشتوں کی قدر، نئی نسل کے خواب، پرانی یادوں کی سرگم، قدرتی مناظر، موضوعات کی رنگا رنگی، الفاظ کا چناؤ، جذبات کا لحاظ، احساسات کی دنیا، درد کا شہر، جدید انسانی اضطراب اور جستجو کا سفر جو کہیں لفظوں میں ڈھل کر سامنے آتا ہے کہیں مصرعوں کی صور ت میں پوری نظم میں پھیل جاتا ہے۔ جس اے ان کے ہاں فن شاعری کی باریکیوں کا احساس ہوتا ہے۔“ (ص 72)

توصیف تبسم کی مذہبی شاعری (حمد، نعت، سلام، منقبت) پربھی مفصل گفتگو اس کتاب کا حصہ ہے۔ ان کی تقدیسی شاعری کا مجموعہ ”سلسبیل“ کے عنوان سے 2011 میں عکاس پبلی کیشنز، اسلام آباد سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں حمد اور نعت کے ساتھ ساتھ ”آئینے سے گفتگو“ کے عنوان سے سلام اور منقبت پیش کی گئی ہیں جن میں شہدائے کربلا اور صحابہ کرام کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

پیش منظر بھی وہی اور پس منظر بھی وہی
جو نبوت میں موخر ہے، وہی ہے اول (ص 76)
توصیف تبسم کی نعت گوئی کے بارے میں ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں :

”توصیف تبسم کی نعت کا اعتبار زبان و بیان کی شائستگی پر استوار ہے۔ انھوں نے غزل کے علائم و رموز اور مخصوص پیرایہ ہائے اظہار کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ برتا ہے۔ یہ مہارت ان کی نعتوں کی زمینوں، قوافی اور ردیف کے موزوں، برجستہ اور ماہرانہ استعمال اور زبان و بیان کے دوسرے قرینوں سے نمایاں ہے جو ان کے اسلوب نعت کو ایک ندرت اور انفرادیت بخشتے ہیں۔“ (ص 76)

توصیف تبسم نے بچوں کے لیے بھی شاعری کی، ان کی بچوں کے لیے نظموں کا مجموعہ ”آؤ کھیلیں، آؤ گائیں“ کے عنوان سے 2008 میں نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد سے شائع ہوا۔ اس شعری مجموعے کو نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے ایوارڈ کا حقدار بھی قرار دیا گیا۔ توصیف تبسم کی ان نظموں یا منظوم ڈراموں کا اسلوب بہت عمدہ اور دلچسپ ہے۔ ان نظموں میں بچوں کی ہنسی، شرارتوں، کھیل کود، پھول، پھل اور میوہ جات کا ایک جہان آباد ہے جو بچوں کو اپنے سحر میں لے لیتا ہے۔

اس مجموعے کے دیباچے میں ڈاکٹر توصیف تبسم لکھتے ہیں :

” یہ کھیل اور یہ نظمیں لکھ کر ہم نے اپنی دنیا کو آواز دی ہے۔ ان نظموں کو آپ گا بھی سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو تھوڑی سے کوشش سے ان کھیلوں کو سٹیج پر کھیل بھی سکتے ہیں۔“

توصیف تبسم شخصیت اور فن ”کا باب سوم“ تحقیق و تنقید ”کے عنوان سے ہے جس میں ڈاکٹر موصوف کی تحقیقی وتنقید ی کاوشوں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اس حوالے سے توصیف تبسم کی تصنیف“ جنگ آزادی 1857 کا مجاہد شاعر ”2006 میں نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں جنگ آزادی کے ایک اہم شاعر میر محمد اسمعیل حسین شکوہ آبادی کی شخصیت وفن کو موضوع بنایا گیا ہے۔ منیر شکوہ آبادی نہ صرف جنگ آزادی میں عملی طور پر شریک رہے، بلکہ اس شرکت کے جرم میں گرفتار بھی ہوئے، ان پر مقدمہ چلا اور انہوں نے پانچ برس جزائر انڈمان میں کالے پانی کی سز ا بھی کاٹی۔ ان کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو حبسیہ شاعری ہے جس میں ان کامدمقابل کوئی اورنظر نہیں آتا۔ اس تصنیف کے بارے میں ڈاکٹر شیر علی لکھتے ہیں :

”توصیف تبسم کا یہ تحقیق کام منیر شکوہ آبادی کی حیات اور فکر و فن کے حوالے سے بہت اہم کام ہے انھوں نے پہلی بار اس موضوع پر جامع اور مدلل کام پیش کیا۔ منیر شکوہ آبادی کی حیات کے بہت سے مخفی پہلو سامنے آئے اس طرح ان کے فکر وفن کے بہت سے گوشے منور ہوئے۔ توصیف تبسم نے جس تفصیل سے حبسیہ شاعری کی جزئیات کو بیان کیا ہے اس کی اپنی ایک اہمیت ہے۔“ (ص 98)

توصیف تبسم کی ایک تنقید ی تصنیف ”خاکہ نگاری اور اقرار حسین“ ہے جو 2017 میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔ اس کتا ب میں اقرار حسن شیخ کی خاکہ نگاری کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ فن شاعری پر توصیف تبسم کی کتاب ”یہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا“ 2021 میں مکتبہ جدید، لاہور سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں فن شعر کے اجزائے ترکیبی اور دیگر مبادیات پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ شاعری پر مختلف عصر ی سانحات کے اثرات کا فکری و لسانی مطالعہ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ علائم و رموز اور تشبیہات و استعارات کی مختلف صورتوں کو بھی بیان کیا گیا ہے ۔ شاعری میں مختلف پیرایہ اظہار پر فنی حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ فن عروض اور تعقید لفظی پر بات کی گئی ہے۔ اس تصنیف پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شیر علی رقم طراز ہیں :

” توصیف تبسم کی یہ علمی کاوش قابل قدر اور قابل داد ہے کہ انھوں نے مولانا الطاف حسین حالی کے بعد شاعری پر مختلف سوالات اٹھائے۔ شاعری کیا ہے؟ تخیل کیا ہے؟ شعر پر بحث کے معنی اور تخیل، علم البیان اور علم بدیع شعر کی تاثیر پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے۔ شعر اور قاری کے تعلق اور رشتے کا ازسر نو جائزہ لیا ہے۔“ (ص 117)

”توصیف تبسم شخصیت و فن“ کا با ب چہارم ”متفرق اصناف“ کے نام سے باندھا گیا ہے جس میں ان کی دو تصانیف ”بند گلی میں شام“ (آپ بیتی) اور ”کہاوت کہانی“ کا تجزئیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی آپ بیتی 2010 میں شائع ہوئی۔ جس کا سرورق پاکستان کے معروف مصور اسلم کمال نے بنایا، توصیف تبسم کا یہ شعر بھی ٹائٹل کی زینت ہے :

بچپن اور لڑکپن گزرا، گزرا دور جوانی کا
بند گلی میں شام ہوئی ہے، یہ ہے انت کہانی کا

اس کتاب میں توصیف تبسم کی یادداشتیں ہی نہیں بلکہ یہ ایک عہد کی ادبی تاریخ بھی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے جہاں سہسوان اور دہلی کے حالات و واقعات ملتے ہیں وہاں قیام پاکستان کے فوراً بعد کا ادبی و سماجی منظرنامہ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ کتاب ”کہاوت کہانی“ مطبوعہ ( 2001) میں اردو کی مختلف کہاوتوں کی کہانیوں کوبیان کیا گیا ہے۔ اس دلچسپ تصنیف کے بارے میں ڈاکٹر شیر علی لکھتے ہیں :

”توصیف تبسم کی پیش کردہ کہاوتوں کے مطالعے سے صاف گوئی کا لطف اور وصف اور نمایاں نظر آتا ہے۔ انھوں نے ایجاز و اختصار اور تاثیر سے بھرپورکہانیاں پیش کی ہیں۔ ان کہانیوں میں کرداروں کی خوبیوں اور خامیوں کو نہایت خلوص کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مختلف انسانی طبقات کی نادانیوں اور دانش کو سچائی کے ساتھ سامنے لایا گیا ہے۔“ (ص 145)

توصیف تبسم :شخصیت و فن ”کا آخری حصہ توصیف تبسم کے کلام کے انتخاب اور ان کی فکر وفن کے حوالے سے معاصرین کی آرا پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر شیر علی نے توصیف تبسم کی شخصیت اور تخلیقی جہات کو جس عمدگی سے بیان کیا ہے وہ لائق صد تحسین ہے۔ ان کا اسلوب بیان ساد ہ اور تجزئیاتی ہے جو توصیف تبسم کی شعری و نثری تصانیف کوپوری جزئیات کے ساتھ قاری کے روبرو پیش کرتا ہے۔ گو ان کاتوصیف تبسم سے ایک عقیدت اور نیازمندی کا تعلق ہے لیکن مذکورہ کتاب میں ڈاکٹر شیر علی کی تنقیدی آرا اور تجزیے توازن کی عمدہ مثال ہیں، جس کی وجہ سے یہ کتاب توصیف تبسم شناسی میں ایک گراں قدر اور بیش قیمت علمی اضافہ ثابت ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments