انسدادِ منشیات، نشئیوں کی بحالی کے مراحل اور ریاستی اداروں کا منفی کردار
بیس سال پہلے میں ہیروئن پیتے، انجکشن لگاتے، بے حال و بد حال، میلے کچیلے، چیتھڑوں میں ملبوس، مختلف جلدی و دیگر بیماریوں میں گھرے ہوئے زندہ انسانوں کو گرے ہوئے، سر راہ مرتے ہوئے دیکھتا، ان کے پاس رکتا، ان سے باتیں کرتا اور افسوس کرتا ہوا چل پڑتا۔ 70 فیصد نشئی نشہ چھوڑنا چاہتے تھے اور اب بھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں چھوڑنا چاہتے ہیں۔
پھر معلومات لیں کہ نشہ چھڑانے والے ادارے بھاری رقوم لیتے اور دیگر اخراجات الگ ہوتے ہیں۔ تقریباً 70 فیصد ہی ایسے افراد کے اہل خانہ یہ اخراجات افورڈ نہیں کر سکتے۔ اس وقت میں نے سوچا تھا کہ میں ایک ادارہ بناوٴں گا جس میں ایسے مریضوں کا مفت علاج ہو گا مگر وہ ادارہ بوجوہ نہ بن سکا جس کا نام بھی ”انسان فاؤنڈیشن“ میں نے سوچ لیا تھا۔
ان گزرے بیس سالوں میں دو مذہبی سیاسی جماعتوں کے فلاحی ونگ کے سربراہان سے بھی بات چیت ہوئی مگر انہوں نے کافی عرصہ لٹکانے کے بعد اسے ناقابل عمل قرار دے دیا بلکہ کچھ اوٹ پٹانگ باتیں بھی ارشاد فرمائیں۔
علاوہ ازیں اپنے دو تین دوستوں سے بھی اس بابت کافی عرصہ بات چیت چلی مگر انھوں نے بھی عدم دلچسپی کا ہی اظہار کیا اور مجھ سے بھی اس کے اسباب نہیں بن پائے۔
ایک سال قبل میری کافی عرصہ کی موٹیویشن کے بعد ایک ڈرگ ایڈکٹ جو گزشتہ 6 سالوں سے ہیروئن بھرے انجکشن لگا لگا کر تباہ حال ہو چکا تھا میرے پاس آن پہنچا اور نشہ چھوڑنے کے معاملے میں مجھ سے مدد طلب کی۔ میں نے سب سے پہلے ایک گھنٹہ اپنا لیکچر جھاڑ کر اس کی ذہن سازی کی، اپنی آزاد شرائط رکھیں اور اس کے تسلیم کر لینے پر اسے اپنے سادہ سے آفس میں چارپائی اور بستر دے دیا۔
اسے ساتھ لے کر اس کے گھر اس کے والدین کے پاس گیا ان سے بات چیت ہوئی، اس کے پہننے کے صاف کپڑے اٹھائے، حمام میں لے جا کر نہلایا اور اس کے بتانے پر احتیاطاً کچھ ضروری میڈیسن خریدیں، اس کا وزن کرایا جو 45 کلو تھا اور اسے لے کر واپس آ گیا۔ آفس میں اپنی چارپائی بھی اس کے ساتھ ڈال لی۔
پہلے 8 دن بہت اہم تھے کہ فقط ایک بار اسے پین کلر ٹیبلٹس دیں جبکہ باقی نشہ چھڑانے والی نشہ آور ٹیبلٹس میں سے کچھ بھی نہیں دیا۔ پہلے 6 دنوں میں اسے نیند نہیں آئی تڑپتا رہا، کراہتا رہا اور میں اس کے ساتھ ساتھ جاگتا رہا۔ چھٹی رات اسے بھرپور نیند آئی اور میں بھی سو گیا۔
اسے دو تین کتابیں دیں جو اس نے پڑھ ڈالیں، روزانہ نہاتا رہا۔ پانچویں دن سے اسے ہلکی پھلکی ایکسر سائز شروع کرائی۔
دس دنوں بعد اس کا وزن 52 کلو ہو گیا، بیس دنوں بعد 57 کلو اور 24 دن بعد 58 کلو۔
12 ویں دن ہم ایک اور نشئی پکڑ لائے اور 21 ویں دن ہم مزید ایک اور نشئی گھر سے اٹھا لائے۔ دوسرے اور تیسرے بندے کو تین دن تقریباً تمام میڈیسن دیں اور تین دن بغیر میڈیسن کے رکھا۔
وہ تینوں بھلے چنگے اور صحت مند ہو کر اپنے گھر چلے گئے اور اس کے کچھ عرصہ بعد وہ تینوں دوبارہ نشے کا شکار ہو گئے۔ ان میں سے دو یکے بعد دیگرے مر گئے اور ایک گزشتہ ہفتے دوبارہ آٹھ دس دن میرے پاس رہ کر، نشہ چھوڑ کر گیا اور اب پھر نشہ کر رہا ہے۔
یہاں تک کا رزلٹ تو انتہائی مایوس کن ہے مگر گزشتہ ایک سال میں میرے پاس 12 نشئی آ کر رہے جبکہ ایک اور بندے کی کونسلنگ کی، میڈیسن دیں اور اس کے ذمہ داران سے رابطے میں رہا۔ وہ بندہ تقریباً آٹھ ماہ سے اپنی خوشگوار زندگی جی رہا ہے۔
ان جملہ 13 افراد میں سے تین افراد نشہ چھوڑ چکے ہیں اور بقیہ 10 افراد دوبارہ نشہ پر لگ گئے جن میں سے دو نوجوان مر چکے ہیں۔
کامیاب بحالی کا یہ 23 فیصد بنتا ہے اور یقین کیجئے میں اسے اپنی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھتا ہوں حالانکہ اس قدر جان، مال، وقت کی قربانی اور محنت کے بعد 10 افراد کا دوبارہ نشے پر لگ جانا اور ان میں سے دو اموات مجھے مایوس کرنے کے لئے کئی بار کافی سے زیادہ پریشان کن بھی ثابت ہوئیں مگر میں نے اب بھی اس سلسلے میں اپنا حوصلہ بحال رکھا ہوا ہے۔
جو تین افراد نشہ چھوڑ چکے ہیں ان کی بابت بھی خدشات ہمہ وقت موجود ہیں مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ وہ واپس جانے کے بعد فی الفور نشے میں ملوث نہیں ہوئے اور ابھی تک بحال چلے آ رہے ہیں۔
یہاں میں یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں کسی بھی قسم کی میڈیسن اور نفسیات کے بارے میں اتنا ہی جانتا تھا جس قدر کوئی بھی عام شخص جانتا ہے مگر نشئیوں کے معاملے میں اب کافی حد تک جاننے لگا ہوں۔
اب آتے ہیں اس تحریر کو لکھنے کے مقصد کی طرف۔
99 ٪ لوگوں بشمول ان کے اہل خانہ کی رائے ہے کہ یہ نشئی جلد یا بدیر واپس نشے پر لگ جاتے ہیں جبکہ میری رائے کے مطابق مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ علاج کے بعد بھی بالخصوص اس کے اہل خانہ اور بالعموم معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا۔ یہ درست بات ہے کہ نشئی اپنے نشہ کرنے کے دورانئے میں سب کو مختلف نوعیت کی تکالیف پہنچا کر انتہائی زچ کر چکا ہوتا ہے۔ لہذا ان کا رویہ اس کے لئے مشکوک اور کچھ غیر یقینی قسم کا ہوتا ہے۔
نشئی کے نشہ نہ چھوڑنے کی ایک اہم ترین وجہ سیکس ٹائمنگ اور دوران جنسی تعلق ایک دلچسپ و عجیب، حسین، رنگین، سنگین اور بہترین قسم کا پر کیف مزہ بھی ہوتا ہے جو بغیر نشے کے ممکن ہی نہیں ہے۔ نشئیوں کے مطابق ان کے لئے اس عجیب و غریب کیف و سرور کے احساس کو الفاظ میں بیان کرنا انتہائی مشکل ہے۔ یوں جیسے یہ کوئی جنت سے آیا ہوا انجانا سا، نشاط انگیز مدہوشی کا احساس ہو۔
شروع میں نشہ برائے نشہ ہوتا ہے اور اس کی طلب میں اس قدر شدت نہیں ہوتی مگر جیسے ہی نشے کی حالت میں ایک بار ہمبستری سر زد ہو گئی تو سمجھیں صحیح معنوں میں وہ اب اس نشے کے عادی ہو جاتے ہیں اور اب نشے کے بغیر سیکس اور زندگی انہیں بے معنی لگتی ہے حالانکہ یہ صورتحال کچھ اس قدر زیادہ عرصہ نہیں چلتی۔ دو تین سالوں بعد نشئی سیکس لائف سے فارغ ہو جاتے ہیں نقاہت، کمزوری کی وجہ سے انہیں اب نشہ برائے زندگی کا مرحلہ در پیش ہو جاتا ہے۔
نشئیوں کے بیان کے مطابق بعض کیسز میں ان کی بیویاں بھی ڈھکے چھپے الفاظ اور اشاروں کنایوں میں اسی سرور اور مزے کی مشروط طلب کرتی ہیں اور یہ نشاط انگیز کنائے ان میں اسی عجب کیف و سرور کے حصول کی تڑپ پیدا کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً وہ دوبارہ نشے کی دلدل میں جا دھنستے ہیں۔
ایک اور بڑی وجہ نشہ چھوڑ دینے والے کو مصروفیت و مشغولیت کے حوصلہ افزا ماحول و وسائل مہیا نہ کرنا بھی ہے۔ بہت سے ایسے افراد دوبارہ اپنی فراغت، بوریت، معاشرتی عدم تعاون، بیروزگاری اور بالخصوص اسی پرانے ماحول میں واپس جانے پر دوبارہ نشہ کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کی ڈی ٹاکسیفکیشن کے مراحل کے لئے کم از کم بھی تین ماہ کے لئے ان کے ماحول، جگہ اور آب و ہوا کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی طور پر ان کی کسی ماہر سائیکالوجسٹ سے وقتاً فوقتاً کونسلنگ سیشنز، موٹیویشنل لیکچرز اور دیگر ہمہ قسم حوصلہ افزائی از بس ضروری امور ہیں۔
نشہ نہ چھوڑنے کے اسباب میں ایک زیادہ حصہ نفسیاتی مسئلہ ہے اور وہ مسئلہ رسائی اور دسترس کا ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے واضح کرنا ضروری ہے کہ ایک نشئی نے ہیروئن چھوڑنے کا مصمم ارادہ کیا۔ یومیہ مقدار کو کچھ کم کیا اور ایک خلیجی ریاست کی طرف نکل گیا۔ آج وہ کئی سال سے صحت مند ہے اور بہترین کمائی بھی کر رہا ہے۔ اس کے اور بہت سے دیگر نشہ کرنے والوں کے مطابق نشہ چھوڑنے کا مصمم ارادہ شرط اول ہے۔ آپ زبردستی کسی کو نشہ نہیں چھڑا سکتے الا یہ کہ اس کی مسلسل کونسلنگ کی جائے۔ ثانیاً یہ کہ منشیات کی رسائی سے جس قدر دور نکل سکتے ہیں نکل جائیے۔ جب آپ کو یہ احساس ہو کہ اس جگہ پر نشہ ملنا ممکن ہی نہیں ہے تو طلب کی شدت نفسیاتی طور پر گھٹ کر فقط دس فیصد رہ جاتی ہے اور نشہ چھوڑنے میں بہت آسانی رہتی ہے۔
وطن عزیز میں انسداد منشیات کی بابت سنجیدہ تو دور، غیر سنجیدہ قسم کی بھی کوئی بھرپور پالیسی نہیں ہے۔ ملک بھر میں گلی محلوں کی سطح پر ہیروئن اور اب آئس بھی بہ آسانی دستیاب ہے۔ مقامی عام شہری، معززین، اشرافیہ، علماء کرام، سیاستدان اس سلسلے میں ہمیشہ خاموش رہتے ہیں۔ کبھی کسی سیاستدان کے منہ سے آپ انسداد منشیات کی بابت کوئی عملی کوشش یا فقط لفظی تقریر تک نہیں سنیں گے کیونکہ یہ ان کا نہ تو مسئلہ ہے اور نہ ترجیحات میں شامل ہے۔
پولیس، رینجرز، سی آئی اے، اینٹی نارکوٹکس فورس سب کو، سب کچھ پتہ ہے مگر خاموش ہیں۔ البتہ ان ریاستی اداروں کی خاموشی کی وجہ ان کی ہفتہ اور منتھلی وصولیاں ہیں۔ کبھی کبھار کوئی ہیروئن فروش گرفتار ہوتا ہے تو زیادہ سے زیادہ چند ہی دنوں میں باہر آ کر دوبارہ اپنے دھندے پر لگ جاتا ہے۔ عام شہری مخبری سے ڈرتا ہے کیونکہ یہ مذکورہ ریاستی ادارے اس مخبر کی مخبری منشیات فروشوں کو کر کے اپنے دام بڑھا لیتے ہیں اور یوں منشیات ہمارے معاشرتی سسٹم کا حصہ بن چکی ہے۔
تحقیق کر لیجیے کہ کیا آپ کے علاقوں میں منشیات کی فراہمی و ترسیل میں کبھی تعطل پیدا ہوا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یوں لگتا ہے گویا منشیات کی مسلسل اور باقاعدہ ترسیل ریاست کی آف دی ریکارڈ پالیسی ہے اور انڈر دی ٹیبل آمدنی کا ذریعہ۔
اب کرنے کا کام یہ ہے کہ منشیات سے اپنے معاشرے کو بچانے، انسداد منشیات، اور نشئی افراد کی ریہیبلیٹیشن کی بابت جملہ ذمہ داریاں ہمیں خود ادا کرنی ہونگی۔
منشیات فروشوں کا ہر قسم کا معاشی، معاشرتی بائیکاٹ کیجئے۔ ان کی شادیوں، مرگ اور جنازوں میں شرکت نہ کریں۔ اینٹی نارکوٹکس فورس، پولیس کی ویب سائٹس اور سٹیزن پورٹل پر کثیر تعداد میں معاشرے کے تمام طبقہ ہائے فکر کے افراد منشیات فروشوں کی نشاندہی کریں۔ مقامی پولیس اسٹیشنز میں وفد کی صورت جا کر درخواستیں دیں۔ مقامی صحافیوں، با اثر افراد، علماء کرام، سیاسی شخصیات پر اس سلسلے میں معاونت کے لئے دباؤ بڑھائیں۔
جبکہ نشئی افراد کے علاج اور بحالی کے لئے آپ بھی یہ محولہ بالا اچھا کام کر سکتے ہیں۔
کسی ایک نشئی کو نشہ چھوڑنے کی طرف مائل اور قائل کیجئے۔
اگر مان جائے تو اسے خود نشہ چھوڑنے والی جملہ میڈیسن کا پتہ ہوتا ہے۔ ایک ہفتے کی ادویات دو سے تین ہزار روپے میں مل جائیں گی۔ اپنی زیر نگرانی اسے ادویات کھلایے۔ ڈاکٹر، سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ سے مشورہ زیادہ مفید ثابت ہو گا۔ منشیات سے تو فقط ایک ہفتے میں ہی جان چھوٹ جاتی ہے۔ 95 ٪ مشکل مرحلہ تو اس کو کونسلنگ، موٹیویشن، بہتر، خوشگوار اور محفوظ ماحول کی فراہمی، روزگار، منشیات تک رسائی کو مشکل بنانا، منشیات سے متنفر اور زندگی سے پیار کے احساسات پیدا کرنا، اور زندگی کے پیش آمدہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کرنا ہیں۔ اگر آپ صدق دل اور خلوص نیت سے کام کریں تو یہ سب، کچھ اس قدر مشکل نہیں ہو گا۔ کچھ خرچہ نہیں۔ کوشش کیجئے۔ کم از کم ایک بندے کی زندگی بچانے کی کوشش کا اجر تو بہرحال ملے گا ہی۔
علاج کے فوراً بعد بندے کو ایک اینڈرائیڈ موبائل ضرور لے دیں اور اسے سوشل میڈیا، موویز، گیمز، ٹک ٹاک، یوٹیوب میں مصروف کر دیں۔ اسے سوشل تقریبات میں لازمی لے جائیں۔ زیر نگرانی کاروبار و ملازمت میں فوراً ملوث کریں بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ اسے کسی سخت قسم کے عرب ملک میں بھیج دیں۔
وگرنہ بوریت سے بندہ پھر اسی کام میں دوبارہ جا پھنسے گا۔
ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ
منشیات فروشوں کا مکمل اور بھرپور سوشل بائیکاٹ کریں۔ ان سے اشیا کا لین دین، خرید و فروخت، سلام دعا، ملنا ملانا، سب بند کیجئے۔ سوشل میڈیا پر کمپین کیجئے۔ اپنے علاقے میں
” ہفتہ انسداد منشیات“ منعقد کیجئے۔ انسداد منشیات واک کیجئے۔ اس موضوع پر سیمینار کیجئے۔
یاد رکھئے اگر آپ کا بچہ نشئی بن گیا تو یہ منشیات فروش آپ کا جس قدر بھی عزیز ہو آپ کے بچے کو بطور کسٹمر ہی ٹریٹ کرے گا۔
اپنے ارد گرد کے ایک نشئی کی زندگی بچانے کی بھرپور عملی کوشش ضرور کیجئے۔
- آن لائن ارننگ کورسز، سکل ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹس کا کالا دھندا - 01/10/2024
- تاش کھیلنا بھی جان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے - 09/07/2024
- کیرئیر کونسلنگ، میٹرک کے بعد کیا کریں؟ - 06/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).