بابے بھنگڑا پاؤندے نے: ’دادا، دادی، نانا، نانی کو ضرور فلم دکھانے لے جائیں‘

عثمان غفور - لاہور


سہیل احمد اور دلجیت دوسانجھ
فلم سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سہیل احمد اور دلجیت کی آن سکرین کیمسٹری بہترین ہے
’اگر آپ سہیل سر کے ساتھ ایک فریم میں ہیں اور آپ بول رہے ہیں اور وہ بھی بول رہے ہیں، تو دیکھنا تو دور کی بات آپ کی آواز بھی نوٹس نہیں ہو گی کیونکہ اتنا کمال کا ٹیکسچر ہے ان کی آواز کا، جو میں نے پہلے کبھی نہیں سنا.‘

یہ کہنا تھا انڈیا میں پنجابی فلموں کے مشہور اداکار اور گلوکار دلجیت دوسانجھ کا جو پہلی مرتبہ پاکستانی سٹیج اور ٹی وی میں مزاحیہ اداکاری کے ایک بڑے نام سہیل احمد کے ساتھ فلم میں کام کرتے نظر آئے ہیں۔

’بابے بھنگڑا پاؤندے نے‘ ایک کینیڈین پروڈکشن ہے جو حال ہی میں ہندو تہوار دسہرہ کے موقع پر پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں بیک وقت ریلیز کی گئی ہے۔

اس فلم سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سہیل احمد اور دلجیت کی آن سکرین کیمسٹری بہترین ہے لیکن یہ تعلق صرف فلم سیٹ تک ہی محدود نہیں۔

سہیل احمد کے ساتھ فلم سیٹ پر گزارے وقت کے بارے میں بی بی سی اردو کے لیے ایک خصوصی انٹرویو میں دلجیت کا کہنا تھا کہ ’اگر سہیل احمد نہ ہوتے تو یہ فلم بھی نہ ہوتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہم امریکہ، کینیڈا یا برطانیہ کے دورے پر تھے تو ہماری پوری ٹیم سہیل سر کے مکالموں اور ان کے انداز کی نقل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔‘

دوسری جانب سہیل احمد نے دلجیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ بہت فطری اداکاری کرتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں بھی ان کا مداح ہوں۔ ان کی شخصیت کے بہت سے رنگ ہیں جو ابھی ہمیں سکرین پر دیکھنے کو نہیں ملے۔‘

’سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک سلجھے ہوئے اور خوش اخلاق انسان ہیں۔ ایک آرٹسٹ اگر آپ کو سیٹ پر یہ محسوس نہ ہونے دے کہ وہ سپر سٹار اور فلم کا ہیرو ہے تو یہ اس کی کمال خوبی ہے۔‘

فلم ’بابے بھنگڑا پاؤندے نے‘ کے بارے میں سہیل احمد کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس فلم کا حصّہ بننے پر فخر ہے اور مجھے بے حد خوشی ہے کہ یہ فلم پاکستان میں بھی ریلیز ہو رہی ہے۔‘

فلم میں اپنے کردار کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ وہ ایک ’بابے‘ کا کردار نبھا رہے ہیں۔

’یہ فلم کا مرکزی کردار ہے جبکہ دلجیت ایک بیروزگار سکھ نوجوان کے کردار میں نظر آئیں گے جو دولت مند بننے کے لیے ہر حربہ آزمانے کو تیار ہے۔ ایک دن اس کو ایک زبردست آئیڈیا سوجھتا ہے مگر اس میں ایک بڑی رکاوٹ آ جاتی ہے اور وہی فلم کا اصل پلاٹ ہے۔‘

’دادا، دادی، نانا، نانی کو ضرور فلم دکھانے لے جائیں‘

سہیل احمد کے مطابق ’بابے بھنگڑا پاؤندے نے اگرچہ کینیڈا میں سیٹ کی گئی ہے لیکن اس کا موضوع آفاقی ہے اور یہ کچھ اہم سماجی پہلوؤں کی طرف توجہ دلاتی ہے.

’میں نوجوانوں سے کہوں گا کہ وہ اپنے والدین اور دادا دادی، نانا نانی کو ضرور یہ فلم دکھانے لے جائیں۔ وہ بہت خوشی محسوس کریں گے اور ان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ فلم آپ کو سکھاتی ہے کہ آپ اپنے بزرگوں سے غیر مشروط محبت کریں، نہ کہ ان کے پیسے یا جائیداد کے لیے۔ ہمارے بزرگ ہمارے لیے رحمت ہوتے ہیں اور یہ پیغام فی زمانہ پوری دنیا کے لیے بہت اہم ہے۔‘

سہیل احمد کے مطابق یہ ایک بہت سنجیدہ اور حساس موضوع ہے مگر اس فلم کا خاصہ یہ ہے کہ اس کو بھرپور فیملی انٹرٹینمنٹ کی طرح تیار کیا گیا ہے۔

’یہ ایک واقعاتی کامیڈی ہے جو مزید دلچسپ ہو جاتی ہے جب بابا جی توقعات کے برعکس تندرست ہو جاتے ہیں اور دلجیت کو اپنا منصوبہ ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔‘

جب سہیل احمد سے پوچھا گیا کہ کیا وہ فلم میں بھنگڑا ڈالتے ہوئے نظر آئیں گے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’جی بالکل! دلجیت کے ساتھ بھنگڑا ڈالا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اپنے پنجاب کی ثقافت اور خوبصورتی کی دنیا بھر میں تشہیر کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ’بابے بھنگڑا پاؤندے نے‘ اس منزل کی جانب ایک قدم ہے.‘

یہ بھی پڑھیے

دلجیت دوسانجھ: کسان کا بیٹا ’کنگ آف پنجابی فلمز‘ کیسے بنا

لالی وڈ کی فلم نگری: وہ جگہ جہاں وقت تھم سا گیا ہے

دی لیجنڈ آف مولا جٹ: ’بہت مشکل فلم تھی، کہہ لیں کہ ایک بہت بڑا پنگا تھا‘

مولا جٹ: سوا گیارہ لاکھ میں بننے والی فلم جس پر مارشل لا حکومت نے تین بار پابندی لگائی

سہیل احمد نے یہ بھی کہا کہ ’پنجاب کو ہمیشہ ایک چھوٹا سرکٹ سمجھا گیا ہے جو بہت افسوس کی بات ہے۔ اگر عامر خان اپنی فلم کو چینی زبان میں ڈب کر کے انڈیا سے زیادہ چین سے پیسے کما سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟‘

پاکستان انڈین پنجابی فلموں کی بڑی مارکیٹ

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں انڈین پنجابی فلمیں باقاعدگی سے سنیما گھروں میں لگائی جا رہی ہیں اور کافی اچھا بزنس کر رہی ہیں۔

’چل میرا پت‘ فرنچائز کی دونوں فلموں نے کووڈ کی وبا میں بھی پیسہ کمایا۔ اِن دونوں فلموں میں افتخار ٹھاکر، ناصر چنیوٹی اور اکرم اُدھاس جیسے پاکستانی مزاحیہ فنکاروں نے اہم کردار نبھائے۔

دلجیت دوسانجھ کی ’ہونسلا رکھ‘، ایمی ورک اور سرگن مہتا کی ’قسمت 2‘ اور افتخار ٹھاکر کی ایک اور انڈین پنجابی فلم ’پانی وچ مدھانی‘ بھی پاکستان میں ریلیز ہو چکی ہیں۔

ان سے قبل ’کیری آن جٹا‘ اور اس کا سیکوئل بھی بہت کامیاب رہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ فلمیں پاکستان میں ایک ایسے وقت میں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہیں جب بالی وڈ یا ’انڈین‘ مواد پر مکمل پابندی ہے۔

ایسا پاکستان میں سینما مالکان اور فلموں کے ڈسٹری بیوٹرز کی طرف سے حکومت پر دباؤ کے نیتجے میں ممکن ہوا تھا اور ستمبر 2021 میں اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ وہ پنجابی فلمیں جن کے پروڈیوسرز بیرونِ ملک مقیم انڈینز ہیں، پاکستان میں ریلیز کی جا سکتی ہیں۔

ان پنجابی فلموں کی کامیابی کی وجہ ان کی جگت سے بھرپور کامیڈی ہے جس سے پاکستان اور پاکستان سے باہر بسنے والے پنجابی سمجھنے اور بولنے والے بہت محظوظ ہوتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ یعنی ان کا مزاج، بنانے کا انداز، سینماٹوگرافی، موسیقی، کوریوگرافی وغیرہ سب جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں۔

سہیل احمد نے ’بابے بھنگڑا پاؤندے نے‘ کے حوالے سے بھی یہی کہا کہ ’اس فلم کے ڈائریکٹر امرجیت اس فلم کو ہالی وڈ فلموں کے مقابلے کا بنانا چاہتے تھے اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے ایسا کر دکھایا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments