لوگ مزاروں پہ کیوں جاتے ہیں


ڈئیر پروفیسر
سلام،

آپ کا گرامی نامہ ملا، آپ لکھتے ہیں تمہارا مضمون پڑھا مگر تشنگی سی رہ گئی۔ دل کے پھپھولے پھوڑنے کی تگ و دو میں اصل موضوع سے صرف نظر کر گئیں کہ لوگ مزاروں پہ کیوں جاتے ہیں؟

قبلہ ہم سے کہیں بہتر تو آپ سمجھتے ہیں۔ اگر اس نالائق و ناچیز کا امتحان ہی مقصود ہے تو اپنی سی کچھ اور سعی کر کے دیکھ لیتے ہیں۔

کچھ لوگ عجیب و غریب فطرت کے مالک ہوتے ہیں۔ ملکوں ملکوں، شہروں شہروں یہاں تک کہ گلی کوچوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ کبھی مزاروں اور خانقاہوں کے چکر کاٹتے ہیں، کبھی بدھسٹ ٹیمپل، مندروں اور کلیساؤں کے یہاں تک کہ مکہ مدینہ سے لے کر ویٹیکن سٹی بھی جا پہنچتے ہیں۔ اتنے بڑے تضاد کو دیکھ کر دماغ الجھ کے رہ جاتا ہے۔ اس کی یقیناً کوئی توجیح تو ضرور ہوگی جسے سمجھنے کے لیے اوسط درجے سے زیادہ صلاحیت درکار ہے۔

لا شعور کی پرتوں میں کیا چھپا ہے وہ شعور کی نظروں سے اوجھل ہی رہتا ہے۔ لاشعور ایک ایسا اندھیرا کمرہ ہے جہاں روشنی کے عادی انسان جانے سے گھبراتے ہیں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے کس کا جی نہیں گھبراتا؟ انساں جہاں جنم لیتا ہے، اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے وہ سب کچھ اس کے اندر جذب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ عادت بن جاتا ہے۔ کچھ عادات نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا مذہب یا عقیدے سے تعلق ہونا ضروری نہیں۔ مغرب میں ہالوین اور ہماری طرف بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

لمحہ لمحہ بڑھتا شعور جب تضادات کی نشاندہی کرتا ہے تو اندر بے کلی جنم لیتی ہے اس عمل میں لگاؤ تو قصہ پارینہ بن جاتا ہے مگر عادت باقی رہتی ہے۔ عادت کے اسیروں کے لیے اسے ترک کرنا آسان نہیں۔ اپنے آپ میں کچھ کمی سی لگتی ہے، جیسے کچھ کھو گیا ہو۔ یہ بھی ایک طرح کا نشہ ہے۔ خالی پن کے احساس سے جوجنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اکثریت اس میں ناکام رہتی ہے۔ شاعر اس مضمون کو ایسے باندھتا ہے

اے ذوق دیکھ، دختر رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
ہو سکتا ہے کہ آپ کا خیال اس بارے مختلف ہو، بہرحال یہ تو اپنے اپنے مشاہدات کی بات ہے۔

جس طرح شکر خورے کو شکر مل جاتی ہے اسی طرح انہیں بھی ترکی سے لے کر جنوبی افریقہ کے ساحلوں تک، انڈیا سے جاپان تک کوئی معروف یا غیر معروف مزار یا ٹیمپل مل ہی جاتا ہے پھر گھنٹہ بھر وہاں آنکھیں بند کیے مراقبے میں بیٹھنے کے سوا وہ اور کچھ نہیں کرتے۔ عمومی خیال تو یہی ہے کہ مزاروں پہ دعاؤں کی مستجابی یا گناہوں کی بخشش کے لیے جایا جاتا ہے۔ عام لوگوں کی دعائیں بھی عام سی ہوتی ہیں جنہوں نے جلد یا بدیر پورا ہو جانا ہے۔ مزاروں کے چکر کاٹنے میں کون سی ایسی راحت چھپی ہے یہ تو وہی جانیں۔ شاید انتظار کا کرب وہاں لے جاتا ہو۔ البتہ ان کا کیس ذرا مختلف ہے یہ نہ تو ماتھا رگڑتے ہیں اور نہ ہی ہاتھ بلند کر کے کچھ مانگتے ہیں اگر دل میں کچھ مانگتے ہوں تو اس کے بارے فقط اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ

دل دریا سمندروں ڈونگے
کون دلاں دیاں جانے

اچنبھے کی بات یہ ہے کہ انہیں کئی مرتبہ عجیب و غریب تجربات سے پالا بھی پڑتا ہے۔ ایک مسلمان خاتون نے دلی کے ایک مندر میں ہونے والے تجربہ یوں بیان کیا کہ انہیں مندر دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ یہ شوق انہیں ایک قدیمی اور معروف مندر لے گیا۔ وہاں ایک خوش شکل پروہت ہلکے گیروے کرتے اور سفید پاجامے میں ملبوس ہال کے عین وسط میں بنے چھوٹے سے چبوترے پہ آنکھیں بند کیے اشلوک پڑھ رہا تھا سمجھ تو خیر کیا آنی تھی مگر اس کی آواز کچھ ایسا ضرور تھا جو دل کو جکڑ رہا تھا۔

دس پندرہ منٹ بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو اچھے خاصے مجمع میں سے صرف ان خاتون کو اشارے سے پاس بلایا، یہ ذرا گھبرائیں کہ اگر کچھ پوچھ لیا تو؟ ابھی اسی سوچ میں غلطاں تھیں کہ اس نے دوبارہ اشارہ کیا تو جی کڑا کر کے پاس گئیں۔ اس نے ان کے ہاتھ پہ ایک دھاگہ باندھا اور چند گیندے کے پھول ہتھیلی پہ رکھ دیے۔ گھبراہٹ میں پھول سنبھالے واپسی کی راہ لی۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ ایسا تو ہزاروں میں کسی ایک کے ساتھ ہوتا ہے، تم تو بڑی بھاگیوان ہو۔ واللہ عالم

ایک اور خاتون نے بتایا کہ انہیں اجمیر جانے کی اجازت نہ ملی تو انہوں نے بغیر اجازت ہی جانے کی ٹھانی حالاں کہ یہ ایک خطرناک عمل تھا۔ دھر لی جاتیں تو خدا جانے کیا حال ہوتا۔ بہرحال رات کا سفر کر کے وہ صبح سویرے وہاں بخیر و خوبی پہنچ گئیں۔ صبح چھ بجے مزار کھلا تو وہ اندر جانے والے دو چار افراد میں شامل تھیں۔ ایک گائیڈ کیا اور اسے کہا کہ ہمیں جلدی ہے بس اہم چیزیں دکھا دو۔ اس عمل میں انہیں لگ بھگ تیس منٹ لگے ہوں گے۔ گائیڈ کو انہوں نے طے شدہ رقم سے زیادہ پیسے دینے چاہے تو اس نے فالتو رقم لینے سے انکار کر دیا۔ بہت حیران ہوئیں اور اصل جھٹکا تو اس وقت لگا جب وہ بولا پریشان نہ ہوں جس نے آپ کو بلایا ہے وہی آپ کی با حفاظت واپسی کا ضامن ہے۔ جب کہ اس آدھے گھنٹے میں انہوں نے ہاں ہوں کے علاوہ کوئی بات نہیں کی تھی۔

ایک صاحب کو دلی میں ہمایوں کے مقبرے پہ کام کرنے والے کچھ مزدوروں نے بتایا کہ رات کو یہاں کوئی نہیں ٹھہرتا کیوں کہ ساری رات سفید لباس میں ملبوس گھڑ سوار چکر کاٹتے ہیں۔ گھوڑوں کے سموں سے پیدا ہونے والی گڑگڑاہٹ دل دہلا دیتی ہے، کئی مزدور صبح بیہوش پڑے ملے۔ اس میں کتنا جھوٹ تھا یا کتنا سچ پر ایک بات طے ہے کہ اس مزدور کے چہرے پہ خوف لکھا تھا۔

جستجو نے جب بہت سر مارا تو ہمارے اس استفسار پہ کہ وہ کون سے خزانے ہیں جن کا پتہ اجڑے ہوئے دیاروں میں ملتا ہے؟

کیسا خزانہ؟ انسان پہلے خود کو تو ڈھونڈھ لے پھر کوئی اور جستجو کرے۔ اور آج کی مادیت پرست دنیا میں کوئی عارف ایسا نہیں جو معرفت کی منزل تک رسائی حاصل کر سکے۔ بے چینی بڑھ جائے تو یکسوئی نہیں رہتی۔ بے لگام خیالات جب بے مقصد چکراتے چکراتے نڈھال ہو جاتے ہیں تو منتشر ذہن کو شانت کرنے قدم خود بخود کسی ویرانے کی جانب اٹھ جاتے ہیں۔ قبروں سے زیادہ ویرانی اور کہاں ملے گی؟

ہم نے طنزاً کہا کہ تو آپ بھی ان خیالات کے حامی ہیں کہ سکون قبر میں ملتا ہے ہنس کر کہنے لگے ہرگز نہیں یہ تو ایک بودی سی دلیل ہے۔ سکون اور بے سکونی تو زندگی سے عبارت ہے۔ قبر میں جانے والا تو زندگی کے جھنجھٹوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس سے آگے کچھ اور کہنے سننے کی گنجائش ہی نہ تھی

ایسی ہی ایک خاتون سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ عورتیں تو چھپکلیوں اور کاکروچوں سے ڈرتی ہیں، کیا آپ کو ان ویرانوں سے ڈر نہیں لگتا؟

ہمیں گھور کے بولیں، حیرت ہے کہ یہ بات تم کہہ رہی ہو۔ عورتیں ان حقیر حشرات الارض سے نہیں ڈرتیں۔ کراہیت ایک عام سی کیفیت ہے جس کا شکار کوئی بھی ہو سکتا ہے اسے عورت پہ ہی کیوں منطبق کیا جاتا ہے کبھی اس پہ بھی غور کرنا۔ قبر میں سوئے ہوئے انسانوں سے کیا ڈرنا؟ دل میں تو آئی کہ کہہ دیں کہ شعور کے معاملے میں تو اچھے اچھے کورے ہیں مگر موضوع ادھر ادھر ہونے کے خیال سے یہی پوچھ پائے،

کہ کچھ تو روشنی ڈالیے کہ آخر آپ کو ملتا کیا ہے، وہاں کیا کرنے جاتی ہیں؟

مسکرا کر کہنے لگیں کہ یہ ضروری نہیں کہ جہاں کچھ ملے وہیں جایا جائے۔ جہاں اور بہت کچھ بے سوچے سمجھے کیا جاتا ہے وہاں یہ بھی کرنے میں کیا حرج ہے؟ سکون کے چند لمحے مل جاتے ہیں کیا اتنا کا فی نہیں؟

( شعور گیا تیل لینے، ایسا ہم نے صرف سوچا)

پھر کچھ شرمندگی اور کچھ زچ ہو کر کہا کہ چلیں قبرستان کی حد تک تو آپ کا موقف کسی حد تک درست مانا جا سکتا ہے مگر مزاروں پہ تو بہت بھیڑ ہوتی ہے، اوپر سے وہ دھمال ڈالتے خوفناک ملنگ جن کی گردنیں رنگ برنگے منکوں سے لدی ہوتی ہیں وہاں سکون کیسے ملتا ہے؟ ہمیں تو قطعی اچھے نہیں لگتے۔

فلسفیانہ انداز میں فرمایا کہ تمہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ وہ برے ہیں؟ دھوکے بازی کا تعلق شکل سے نہیں فطرت سے ہے۔ مجھے تو وہ اس شعر کی تفسیر لگتے ہیں

میں نے کہا خراب ہوں گردش چشم مست سے
اس نے کہا کہ رقص کر سارا جہاں خراب ہے

وقت و حالات کی ستم ظریفی انسانی چہروں پر لاتعداد جالے بن دیتی ہے کہ اس میں ان کا اصلی چہرہ کہیں گم ہو کر رہ جاتا۔ یہ جالے وقت کے ساتھ اتنے مضبوط ہو جاتے ہیں کہ انسان کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ آنسو جن کی قدر و قیمت کوئی نہیں جانتا یہاں بے حساب ملتے ہیں کبھی خوشی کے آنسو کبھی پچھتاوے کے آنسو کبھی نا تمام حسرتوں کے حصول میں پڑنے والی اڑچنوں پہ بے چارگی کے آنسو۔

یہی آنسو وقت کی دھول مٹی دھو کر جب اصلی چہرہ بے نقاب کرتے ہیں تو ان پہ ایک عجیب سا نکھار نظر آتا ہے عجز و انکسار کا نکھار جو عام طور پہ دیکھنے کو نہیں ملتا، میں ان ہی چہروں کو دیکھنے جاتی ہوں۔

اس تمام گفتگو کا تعلق نہ تو مذہب سے جوڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی سائنس اور علم و ادب سے۔ منطق اور دلیل کی کسوٹی پر بھی اسے پرکھا نہیں جاسکتا۔ اب لے دے کر ایک ہی مضمون بچتا ہے اور وہ ہے نفسیات۔ نفسیات جس کے ڈانڈے بر اعظم ایشیا کے صدیوں پرانے کلچر سے ملتے ہیں۔ چاہے وہ مشرق وسطٰی ہو یا مشرق بعید صورتحال تقریباً یکساں ہے۔ مغربی دنیا کا معاملہ ذرا مختلف ہے کثرت سے نہ سہی مگر مافوق الفطرت واقعات وہاں بھی ہوتے ہیں۔ اندرونی گرہوں کو کھولنا اتنا آسان نہیں اچھے اچھوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔

آپ کے سوال کا جواب ہم دے پائے یا نہیں یہ تو علم نہیں۔ ہم جیسا مبتدی عقل کے بحر ظلمات میں اتنے ہی گھوڑے دوڑا سکتا تھا اس سے زیادہ کی ہمت نہیں۔

والسلام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments