مولا جٹ اور سافٹ پاور


1985 میں سعودی عرب میں اپنے بچپن میں قیام کے دوران گھر پر ہماری واحد ہفتہ وار تفریح وی سی آر پر کوئی انڈین فلم یا کوئی گیت مالا دیکھنا ہوتی تھی۔ پاکستانی فلمیں بھی کبھی کبھار دیکھنے کو ملتی جو عموماً ندیم، شبنم اور محمد علی وغیرہم کی ہوتیں مگر ان میں وہ چس نہیں ہوتی تھی جو انڈین موویز کی ہوتی۔ مزے کی بات یہ کہ عربوں کو بھی انڈین فلمیں بہت پسند تھیں، انڈین اداکاروں کے نام یاد تھے اور انڈین فلموں کے ڈائیلاگ اور گانے بھی ازبر تھے جو وہ عربی لہجے میں گنگناتے تھے اور آج بھی عرب دنیا انڈین فلموں کی پہلے سے بھی کہیں زیادہ شوقین ہے۔

پاکستان آ کر بھی وی سی آر پر انڈین موویز ہی زیادہ دیکھیں۔ پاکستانی موویز سینما جا کر دیکھنا 1996 کے بعد شروع کیا اور مقصد فلم دیکھنے سے زیادہ دوستوں کے ساتھ ہلہ گلہ رہا۔ سلطان راہی صاحب کی بیشمار فلموں کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر اردو پنجابی فلمیں بھی بلا وجہ ہی دیکھ ڈالیں۔ ان میں سے کچھ پسند بھی آئیں۔ ہالی ووڈ موویز نے البتہ کافی عرصہ متوجہ کیے رکھا۔

پھر پاکستان میں سینما اور فلم انڈسٹری پر بحران آیا اور تا حال ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
ایران میں حالیہ چند سال قیام کے دوران ایرانی عوام کو انڈین فلموں کا شدید رسیا پایا۔

ایرانیوں کو بھی انڈین فلموں، اداکاروں کے نام ڈائیلاگز اور گانے یاد ہیں جو وہ اپنے فارسی لب و لہجے کے ساتھ ہمیں سناتے تھے۔ شعلے فلم کا ڈائیلاگ ”بسنتی ان کتوں کے سامنے مت ناچنا“ اور کردار ” جبر سنگ“ تو گویا ان کا تکیہ کلام ہے۔ جبر سنگھ یوں کہ فارسی اپنی گفتگو میں گ کو ج اور ق کو غ پڑھتے ہیں۔

ایرانی انڈین موویز اور انڈین کلچر سے شدید متاثر ہیں۔

یہ انڈین فلم انڈسٹری کی کمال کامیابی ہے کہ اگر آپ انہیں بطور انڈین اپنا تعارف کرائیں تو وہ آپ کے ساتھ سیلفیاں لیں گے آپ کو کچھ کھلائے پلائے بغیر جانے نہیں دیں گے اور آپ کو وی وی آئی پی ٹریٹ منٹ دیں گے۔

آپ اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس قدر ایرانی انڈیا سیر و تفریح کے لئے جاتے ہیں۔ مجھے بیسیوں ایسی ایرانی فیملیز ملیں جو ممبئی، آگرہ اور گوا ہو کر آئی تھیں۔ انہوں نے انڈیا کے مختلف مقامات پر اپنی تصاویر بھی دکھائیں اور بتایا کہ یہ سیاحت انہوں نے انڈین موویز سے متاثر ہو کر کی۔

انڈین فلم انڈسٹری کا سالانہ تقریباً تین ارب ڈالر کے لگ بھگ زرمبادلہ انڈین معیشت کو مضبوط تر کرتا ہے اور لاکھوں لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔

ایک طویل عرصے بعد پاکستان فلم انڈسٹری میں 1979 میں بننے والی ”مولا جٹ“ کے ری میک فلم کا تجربہ کیا گیا ہے۔

بہت سے ناقدین نے فلم کی ریلیز سے پہلے ہی اس پر منفی اور مثبت تنقید کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے۔ یقیناً ان کا نقطۂ نظر بھی درست ہو سکتا ہے مگر یہ تب کلی طور پر درست ہو سکتا تھا جب اگر وہ کسی بھی درجے میں پاکستان فلم انڈسٹری کے لئے چند حوصلہ افزاء یا فلم کی کامیابی کی بابت کچھ امید افزاء کلمات بھی کہہ ڈالتے۔ میں نے اس فلم کی بابت عمومی طور پر فقط تنقید برائے تنقید کا رویہ ہی دیکھا ہے جو کہ قطعی طور پر خوش آئند نہیں ہے۔

اس فلم کی سابقہ سٹوری، گنڈاسہ کلچر، لچر پن اور بیہودگی پر مبنی سیکس ٹچ کے سابقہ تجربات اور کاسٹ کو دیکھتے ہوئے اس کی بابت تحفظات تو مجھے بھی رہے ہیں مگر مثبت پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھ کر دیکھیں تو ایک ڈوبی ہوئی فلم انڈسٹری میں بھاری بجٹ کے تحت ایک پر خطر تجربہ کرنے کی ہمت بھی تو قابل داد ہو سکتی ہے۔

یہ بات بھی تو خوش آئند ہے کہ لوگ ابھی بھی مکمل طور پر پاکستان فلم انڈسٹری سے مایوس نہیں ہوئے اور یہ فلم کامیاب ہونے کا مطلب انڈسٹری کی بحالی کی طرف ایک بار پھر پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔

فلم دیکھنے کا مشورہ دینے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ فلم جیسی بھی ہو آپ کے دیکھ کر آنے سے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کے پیسے ضرور پورے ہونے چاہئیں تاکہ وہ آئندہ کے لئے مزید تجربات کرتے رہیں اور فلمیں بناتے رہیں اور ڈوبی ہوئی پاکستان فلم انڈسٹری کے تابوت میں آخری کیل نہ ٹھک جائے۔

میں تو یقیناً پہلی فرصت میں اپنے دوستوں کے ہمراہ ”مولا جٹ“ دیکھنے جا رہا ہوں اور آپ احباب کو بھی مشورہ ہے کہ فلم جیسی بھی ہو ایک بار دیکھنے ضرور جائیں۔

فلم انڈسٹری ہمارے ملک کی کئی طرح سے نمائندگی بھی کرتی ہے اور معیشت کا بھی ایک اہم حصہ ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments