عمران خان اور مولا جٹ
ایک فلم کا ہیرو پردہ سکرین پہ بدل چکا ہے۔ دوسری فلم کی ہیروئن بدل چکی ہے۔ ہیرو بزرگی سمیت لڑکھڑا کے چل ہی رہا ہے۔
یہ ایک نسل پہلے کی بات ہے جب مارشل لاء لگا ہوا تھا۔ انسان کے اندر کے جانور کو مارنے کے لئے مولاجٹ، ضدی راجپوت جیسی فلمیں بنا کرتیں تھیں۔ کراچی کا اردو سینما زوال پذیر ہو چکا تھا۔
لاہور میں اس دور میں بدمعاشی ایک فیشن تھا۔ بدمعاشوں کے نام درس گاہوں میں بھی ہیرو کی طرح لئے جاتے تھے۔ بد معاش سے تعلق داری ہونا فخر کی بات سمجھی جاتی تھی۔
کلاشنکوف کا دور فلموں سے آیا اور پنجاب کی شادیوں اور تہواروں تک یہ منحوس آگ لگ گئی۔ بڑی جامعات کے ہوسٹلز بدمعاشوں کے اڈے بن چکے تھے اور جامعات میں پڑھنے آنے والے بچے بد معاش بن جاتے تھے۔ انہی دنوں کی بات ہے مولا جٹ جیسی فلمیں ہی بنا کرتیں تھیں۔ یہ بھی انہیں دنوں کی بات ہے پاکستان نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت لیا اور شوکت خانم ہسپتال بنانے کا اعلان اس ٹیم کے کپتان نے کر دیا۔
اسی کمپین میں یہ کپتان درس گاہوں میں جا جا کر مانگا کر تا تھا۔ مہذب لفظوں میں اس عمل کو چیرٹی کہا جاتا ہے لیکن آپ جتنے پیارے چاہیں الفاظ استعمال کر لیں۔ مانگنے والا مانگنے والا ہی کہلائے گا۔
دینے والے کی سخاوت دیکھئے کہ اس مانگنے والے نے اس نسل سے تہذیب بھی چھین لی کیونکہ لاشعوری طور پہ یہ پہلی نسل تھی جس کو معلوم ہوا کہ اچھا کام مانگ تانگ کے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ محنت کی جائے اور دولت کما کے اپنی کمائی سے اچھائی کی جائے۔
آپ آسانی سے دوسرے کی کمائی سے اچھائی کر کے خود ہیرو بن سکتے ہیں۔
سلطان راہی سکرین کا مولا جٹ تھا عمران خان زمین تھا۔
دونوں نے نسلوں کو متاثر کیا۔ جسے ہوا یوں کہ مرد ایک لڑنے والا، ایگری اور بلند بانگ ہیرو بنا، عورت مولے کی مناتی، اپنی توقیر گنواتی ہیروئین، ایک ہیرو کے گرد ناچتی گانے گاتی ہیروئن جس کی زندگی کا اصل مقصد مولا جت صاحب کو منانا ہے۔
کیا اپ کو نہیں لگتا وہ نسل آج بھی اس ہیرو کو منا رہی ہے ”آپ میری امی سے شادی کر لیں“، ”مجھے اپنے بیڈ روم میں لے جائیں”، “ آپ کو مجھ سے شادی کر لینی چاہیے” یہ اور اس طرح کے بہت سے جملے اب ملک میں ہی نہیں بیرون ملک سے بھی ہمیں عزت بخش رہے ہیں۔
ایک کپتان جامعات میں مانگ رہا ہے۔ لڑکیاں لڑکے فوٹو بنا رہے ہیں، ان بچوں نے اس کو وہ پیسے بھی دیے جو وہ چندا دینے کے لئے گھر سے لائے تھے اور وہ پیسے بھی دیے جو ان کا جیب خرچ تھا
گویا اس نے اس نسل کی جیب خالی کر دی تھی۔ پہلا صدمہ اس نسل کو اس نے امید کے نام پہ جیب خالی کرنے کا دیا۔
جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ سب لٹا دیتی ہے تو خبر ہوتی ہے دوسری طرف سکرین پہ مولا جٹ کی جوانی مستانی کے قصے چل رہے تھے۔
قدرے سستی اور سادہ زندگی تھی فلم جیسی عیاشی بچے جیب خرچ سے بھی کر لیتے تھے۔ جو انہوں نے کیا۔ بالکل ایسے جیسے آج موبائل کا کارڈ خریدا جاتا ہے۔
اس کے بعد لاہور بدمعاشوں کا اڈا بنا۔ ٹرانس پورٹ مافیا اور درس گاہ مافیا مل ملا کر اسے چلاتے رہے۔ درس گاہوں سے جوانی خریدی جاتی اور ٹرانسپورٹرز نے ایک دور تک اس نظام پہ فرعونیت کی ہوئی تھی۔ ان کو تمام گڑ آتے تھے۔
لڑکے جو پڑھنے آتے تھے وہ جب مارے جاتے ہو ان پہ جمعہ کے میگزین میں تفاصیل شائع ہوتیں تھیں۔ ایک عابد نام کا کوئی لڑکا مارا گیا تھا اس کی ڈائری کے آخری اشعار بھی اس کی کہانی کے ساتھ لگے تھے تب جمعے کو چھٹی ہوتی تھی۔
یہ سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا۔ پرنٹ میڈیا عروج پہ تھا۔ پڑھنے لکھنے کی ابھی بات ہوتی تھی پڑھنے والی نسل اخبارات چاٹنے کی حد تک پڑھ لیتے تھے۔
ہم یونیورسٹی تک سفر کرتے چلے گئے اور وہ وقت بھی دیکھا کہ یونین کے لڑکوں نے شہر بھر کی پبلک ٹرانسپورٹ کو آگ لگا دی۔
افراتفری میں گاڑیاں راہ گیروں پہ چڑھا دی جاتیں۔ سڑکیں تنگ تھی۔ ابھی یہ والا لاہور نہیں تھا جو آج پوری دنیا میں اپنی ثقافت کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
بھٹو کی اسلامی سر براہی کانفرنس کے وقت ہی شاید کرنے والوں نے کراچی اور لاہور کے مستقبل کا کوئی منظم فیصلہ کر لیا تھا۔
آپ کو لگ رہا ہو گا کہ یہ سب غیر منطقی باتیں ہیں۔ نہیں ان سب کا منطق بھی اور ایک مشترک رگ بھی جسے آپ کی قابلیت نے تلاشنا ہے۔
بسیں بچے کچل کر آگے نکل جاتی تھیں۔ لگتا تھا اب اس شہر میں امن نہیں ہو گا۔ آگ ہر سڑک پہ لگی ہوئی تھی، نشہ ہر ہوسٹل میں پھیل چکا تھا بدمعاشوں کے ٹٹو بھی ہر درس گاہ میں موجود تھے اور بہت مشکل تھا اب جو میل ملاپ ہو چکا تھا اس مافیا کو توڑا جائے اور امن کی بات کی جائے۔
لڑکیوں کی درس گاہوں میں اور طرح کے جرائم تھے اور لڑکوں کی درس گاہیں تو خیر بدنام ہو گئیں تھیں۔ جن میں ایم اے او کالج، دیال سنگھ کالج، سائنس کالج، پنجاب یونیورسٹی سر فہرست تھے
سکرین سے ہم بد معاشی سیکھ رہے تھے۔ زمین پہ ہم نے بدمعاش پھیلا دیے تھے۔
ٹی وی مارشل لاء کے کنٹرول میں تھا۔ باہر جو تفریح بچتی تھی وہ فلم تھی۔ جو میسر بھی تھی۔ وہ قانون جو اخبار اور ٹی وی کو کنٹرول کر سکتا تھا۔ اس نے فلم کو آزاد کیوں چھوڑ دیا کہ وہاں کلاشنکوف چلے اور گنڈاسے چلیں، چاقو سے وار ہو اور مار کٹائی ہو اور اس سب کو ہیرو ازم بھی کہا اور سمجھا جائے۔
یہ وہ روشن دان تھا جسے اندر کا غبار نکال باہر نکالا جا رہا تھا۔ سانپ بھی مر رہا تھا لاٹھی بھی بچ رہی تھی۔
تب ایوان صدر کے درخت کاٹے گئے تو ہوا اکھڑنے لگی۔ ایک جمہوریت نما شے متعارف کروائی گئی۔ جونیجو صاحب کو لایا گیا۔ نئی روشنی سکول قسم کے روشن نام امید بنے لیکن دانش ور ہر دور میں اپنا کام کر جاتا ہے
ٹی وی پہ شعیب منصور، معین اختر اور انور مسعود نے اس کی ٹیم نے ہنسی مذاق میں بے شمار پروگرامز میں آنے والے کل کی تاریک بتا دی تھی۔
پھر جہاز آم سمیت گر ہی گیا۔
ایک ٹوٹی پھوٹی جمہوریت نے قدم رکھا۔ باقی سب تو سیاست دان تھے عمران خان کپتان تھے۔ وہ کپتان ہی رہنا چاہتے تھے شاید ان کے حواریوں کی تمنا ہو گئی کہ وہ کپتان کی ممی کو سلامت رکھیں ایک اہرام نہ سہی ایک ہرن مینار نما یاداشت ہو دیوار گریہ قائم رہے۔
انہیں بس ماں کی کوئی دعا لگی ہوئی تھی۔ اس کے سوا ان کے پاس اپنا کوئی ذاتی قابلیت مکاری اور ہیرا پھیری کے سوا کوئی نہیں تھی۔
چندے پہ ان اس کا ایمان آ چکا تھا۔ یہ بھی سمجھ آ گئی تھی کہ خان کی اضافت سے ان کو کے پی سے ہی سپورٹ مل سکتی ہے۔ لاہور اور پنجاب کو تو چندے کے نام پہ خوب لوٹ لیا۔ کم کسی صوبے اور برے شہر کے تھا نہیں کی لیکن پنجاب و لاہور کا مزاج بھی سمجھ آ چکا تھا۔
زرخیز زمین ہے سوال کرے گی اور ہاتھ بھی نہیں آئے گی۔ بانٹ دینے کا مزاج رکھتی ہے۔
لہذا وہ بچے جو چندہ دیتے ہوئے سوچتے تھے کہ عمران خان نامی مولا جٹ اٹھے گا اور سب کو گولیوں سے بھون دے گا۔ ایسا ہوا نہیں۔ لاشعوری طور ان بچوں نے عمران خان کو سکول کالج میں پیسے دیتے ہوئے صحت اور امن مانگے تھے۔ جو نہیں ملے۔ شوکت خانم کا پروسیجر اتنا طویل ہے کہ کینسر کا مریض رستے میں ہی مر جاتا ہے۔ اس کے مقابلے کینسر کے دوسرے ہسپتال لاہور میں زیادہ اچھی سہولیات کم اخراجات میں دینے لگے۔
لیکن لاہور سے باہر پورے پنجاب کے پاس نہ کوئی کینسر کا ہسپتال ہے نہ دماغی امراض کا، اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔
بے نظیر اور نواز شریف کا تخت پاکستان پہ آنا جانا لگا رہا۔ جو بھی تھا پنجاب شریف خاندان کے ہاتھ سے نہ نکلا۔ اتنی طویل حکومت کے بعد اتنا ہوا میٹرو بس متعارف ہوئی اور ٹرانسپورٹ مافیا کی کمر ٹوٹ گئی۔ اسے پہلے فلمی صنعت خود ہی زوال پذیر ہو رہی تھی شاید اب اس روشن دان کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی کچھ اردو فلمیں اور پنجابی تہذیب پہ مبنی پنجابی فلمیں بننے لگیں سید نور اور شعیب منصور جیسے لیجنڈز نے فلم کو امن اور پیار کا پیغام بنایا لیکن پھر بھی ان تک ناظر کو کھڑاک کی عادت پڑ چکی تھی۔ متشدد رویہ پنپ چکا تھا۔ محبت دوا کا کام نہیں کر رہی تھی۔ لوگ زوال کے عادی ہو چکے تھے۔
دمے والوں کو تو سانس درختوں کی اونچائی چوڑائی سے بھی نہیں آ رہا تھا۔
تخت لاہور پہ بڑے اداروں میں جو افراد کرسیاں سنبھالتے رہے۔ سب نے مال تو بنایا جو سب کو دکھائی بھی دیا۔ مگر اندر جو دیمک لگ گئی تھی اس کو کسی حد تک سپرے سے ہی سہی روک تھام ہوئی۔
یہ بات کسی ایسے شخص کو سمجھ نہیں آئے گی جس نے لاہور میں بدمعاشی اور بے امنی کا دور نہیں دیکھا۔ اس سب کو کسی دہشت گردی کا نام بھی نہیں دیا گیا۔
آج کا لاہور دیکھنے والے تیس چالیس سال پہلے کے لاہور اور اس کے درمیانی عرصہ میں ہونے والی تبدیلیوں سے بالکل واقف نہیں۔ اس لئے بالکل نہیں سمجھتے جب پٹواری، جواری، یوتھی، جیالے کی گالی استعمال کرتے ہیں۔ برعکس امن کو مطلب سے جوڑا جاتا ہے تو جان من مطلب سے امن اور پیار آپ بھی جوڑ لیں ناں نسلیں تباہ کر کے ووٹ نہ لیں۔
اب یہاں بسوں کو آگ نہیں لگائی جاتی، اب یہاں جامعات میں مافیا اتنا طاقت ور نہیں رہا تھا۔ اب یہاں تمام تاریخی عمارتوں پہ قبضہ مافیا کو اٹھا کر ان کی تاریخی حیثیت صرف بحال ہی نہیں کی گئی۔ اس کے لئے محکمہ بنایا گیا اور اس کی حدود کو وسیع کیا گیا۔
لاہور کی صدیوں پرانی ثقافت بحال ہونے لگی۔ پنجابی ثقافت کی بحالی سے یہاں روایتی میلے، روایتی انداز سے منائے جانے لگے لوگ دھیرے دھیرے اس میں مگن ہو گئے۔ بڑی سکرین کو بھول گئے۔ تفریح کے یہ مواقع دن رات دستیاب تھے اور لاہور کی یہ خوبی ہے۔ غریب کو بھی تفریح میسر آجاتی ہے باقی شہروں میں تعاون کی یہ صورت دکھائی کم ہی دی۔
سڑکوں چوک کو چوراہوں پہ پھر سے ڈھول والے دکھائی دینے لگے۔ پھولوں والے گجرے والے پھر شام سے ہی پھول فروخت کرتے دکھائی دینے لگے، نئے آنے والوں کی وجہ سے تبدیلیاں آئیں مگر وہ سماج کو ویسے نہیں بگاڑ سکیں جیسے اسلام آباد کے ساتھ اچانک چند سالوں میں ہو گیا۔
عمران خان کو بائیس سال میں مفت مراعات کی عادت ہو گئی۔ مولاجٹ والی ”اوئے“ اس میں آ چکی تھی۔ اسی اوور اعتماد اور پیچھے کی مراعات سے ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کو کپتانی کا موقع مل رہا تھا۔
اسلام آباد کا امن اور خمار ختم کرنے دھرنا شروع ہوا۔ جس نے پورے ملک کی تہذیب متاثر کی۔ وہ پٹھان جن کے بارے میں تاحال سڑکوں پہ سیاسی رقص کی توقع ہی نہیں کی جا رہی تھی۔ ان کی عورتیں بھی آئی لو یو عمران خان کہہ کر جھوم رہیں تھیں۔ اس دھرنے نے غیرت اور عزت کے معیار پیری فقیری والی تقلید میں بدل دیے۔ سب کچھ اندھا اندھا۔
جیسے ستر کی دہائی میں گیانا میں ٹم جانز نے ایک نئی ریاست امریکہ میں امریکہ کے خلاف بنا ڈالی خود کو خدا کہنے لگا اور اس کے ماننے والے اسے خدا سمجھنے لگے۔ ریاست نئی نہ بنی، انقلاب نہ آیا مگر ٹم جانز کو خدائی مل گئی۔ ٹم جانز کا انجام اپنے حواریوں کے ساتھ خودکشی، ایک بری خودکشی کا انقلاب ثابت ہوئی اس نے بھی سب کو نشے کا عادی بنا دیا تھا جسے مان سمجھا جاتا تھا۔
ڈاکٹر کی اولاد ڈاکٹر بنتی رہتی ہے، کوئی اعتراض نہیں کرتا الٹا فخر ہوتا ہے یونہی وردی والے کی اولاد وردی والی، وکیل اور سول سروس میں بھی خاندان ہی چھائے رہے۔ کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔ کاروبار کا اصول ہی یہی ہے بیٹا باپ کا کاروبار سنبھالتا ہے۔ ہر شعبے میں آدھی تربیت تو ان بچوں کی گھر میں ہی ہو جاتی ہے۔ اعتراض صرف سیاست دان کے بچوں پہ ہوتا ہے۔
عمران خان کا کام ہے ”جس شہر میں رہنا اکتائے ہوئے رہنا“
قصہ مختصر عمران خان اپنی جد و جہد کے نکتہ صفر پہ چلا گیا ہے اور جامعات میں نئی نسل کو ایک بار پھر بہکانے کا کام کرنے نکل پڑا ہے اور سکرین میں مولاجٹ پتا نہیں کس کا روشن دان بننے لگ گئی ہے۔
ان سب باتوں میں تجربہ شامل ہے ہم اس دوران آدھے سے زیادہ پاکستان بائے روڈ محسوس کر چکے تھے۔ واپس آ کر علم ہوا کہ لاہور اور گرد و نواح میں ترقی صرف وہ سمجھ سکتا ہے جو یہاں کا پلا رچا ہوا ہے۔ دور رہنے والوں کو ہم تاریخ کی آگ نہیں سمجھا سکتے۔ امن ووٹ لے گا۔ دھونس سے اتنا بڑا ووٹ بنک نہیں ٹوٹ سکتا تھا۔ ترقی ووٹ لے گی چاہے کیسی ہی بوسیدہ ہو۔
اب عمران خان ایک اور نئی نسل خراب کرنے جامعات میں گھس بیٹھیا بن گیا ہے کیونکہ موٹے بڑے جلسے ناکام ہو گئے ہیں۔ مولاجٹ پھر سینما میں لگ گئی ہے۔
یہ فلم ممکن ہے فلمی صنعت کی تاریک کو نیا رخ دے مگر گنڈاسا کلچر، لڑائی کلچر ایگریسو ہیرو ناچ کے یار مناتی ہیروئن کم از کم لاہور اور پنجاب کے مستقبل کے لئے خطرے کا نشان ہے۔
یونہی عمران خان کا جامعات میں ہمدردی مانگ ووٹ خطرے کی گھنٹی ہے۔
- بچے پیدا نہیں کرنے؟ - 22/04/2024
- ساڈے اسلام دا مذاق - 27/02/2024
- کیا یہ وہ بلوچ خواتین ہیں؟ - 23/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).